تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     13-10-2014

سیاست کا انداز

جب عمران خان نے دھرنے کے کنٹینرپر کھڑے ہو کر حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا تو اس پر حکومتی حلقوں کی طرف سے سخت لے دے تو ہوئی سو ہوئی لیکن ساتھ ہی میڈیا سے تعلق رکھنے والا ایک بہت بڑا طبقہ فکر ایسا بھی تھا جو یہ کہتے ہوئے مذاق اڑانا شروع ہو گیا کہ عمران خان نے سول نا فرمانی کا اعلان کر تو دیا ہے لیکن تحریک انصاف نے کبھی سوچا ہے کہ وہ دودھ کے ڈبہ پر عائد جنرل سیلز ٹیکس کس طرح ادا نہیں کر پائے گی؟ اگر تحریک انصاف کی قیادت میں سے کوئی مارکیٹ یا بیکری سے بریڈ یا کوئی گھریلو استعمال کی اشیاء خریدنے جاتا ہے تو وہ ان اشیاء پر حکومت کی جانب سے واجب الادا ٹیکس کس طرح اس بل سے نکال سکے گا؟اور اگر وہ اور ان کی قیا دت گھریلو استعمال کیلئے بجلی، پانی اور گیس کے ماہانہ بلوں کی ادائیگی نہیں کرتے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں نکلے گا کہ ان کی یہ تمام یوٹیلیٹی سہولیات دو ماہ بعد متعلقہ محکموں کی جانب سے منقطع کر دی جائیںگی اور سب سے اہم بات یہ کہ لوگ اپنے موبائل کے بیلنس کو ریچارج کرنے کیلئے جو کارڈ استعمال کرتے ہیں اس پر بھی انہیں سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ 
اگر اعتراض کرنے والوں اور عمران خان کے سول نا فرمانی کے اعلان کو مذاق میں اڑانے والوں سے یہ کہا جائے کہ اپنے لانگ مارچ اور پھر اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دینے کے جو مقاصد عمران خان نے نواز شریف حکومت کے خلاف حاصل کیے ہیں وہ ہمارے بہت سے دانشوروں کی توقعات سے بھی اونچے نکل گئے ہیں تو کیا غلط ہوگا؟ عمران خان کے سول نافرمانی کی اپیلوں، بیانات پر ٹیلی ویژن چینلز پر بیٹھ کر مختلف جماعتوں اور دانشوروں کے مضحکہ خیز الزامات کا جواب یہ ہے کہ حضور والا:۔وہ کچھ جو نواز شریف کے خلاف عمران خان نے ایک اعلان کے ذریعے حاصل کیا ہے ملک کی تمام سیا سی جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی بھی کبھی حاصل نہیںکر سکی تھیں۔ عمران خان کے نکتہ چیں ابھی تک اس بات کا رتی بھر بھی اندازہ نہیں کر سکے کہ اب عالمی مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی برادری میں مرکزی حکومت کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیںاور وہ سوچنے لگے ہیں کہ کیا یہ ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے کام کرنی والی حکومت ہے یا من مانیاں کرنے اور اپنی ہی مرضی کے فیصلے کرنے والی حکومت بن چکی ہے جو دنیا بھر سے امداد اور قرضوں کے نام پر وصول کی جانے والی کروڑوں ڈالر کی رقم کو عوام کی بہبودپر خرچ کرنے کی بجائے گلچھڑوں اور نام نہاد ترقیاتی کاموں میں اڑا رہی ہے؟۔
ایسے لوگوں کو جو ابھی بھی سول نافرمانی کے اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیںان کو بہر حال یہ بنیادی نقطہ بھی سامنے رکھناہو گا کہ دنیا کا یہ قانون ہے کہ کسی ریا ست کو دیئے جانے والے وہ تمام بین الاقوامی قرض غیر قانونی ہوکر رہ جاتے ہیں جن کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ یہ ایک ایسی حکومت کو جاری کیے گئے ہیں جو جبر و تشدد سے حکومت کر رہی ہو؟۔جس کے بارے میں خاندانی حکومت کا تاثر ابھررہا ہو اور جو اپنے ملکی فیصلے جمہوری انداز میں نہیں بلکہ آمرانہ طور طریقوں سے کر رہی ہو؟۔جب اسلام آباد کی جانب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تو اس کے بارے میں ایک ہی آواز اٹھائی گئی کہ 2013ء میں بننے والی موجودہ حکومت انتخابی دھاندلی کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے اس لیے یہ حکومت غیر قانونی ہے۔ جب عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تو اس سے پہلے اس نے غیر ملکی اداروں اور بین الاقوامی برادری کو انتہائی تفصیل سے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے باور کرایا کہ اس سے قبل تمام غیر ملکی ادارے جو امداد اور قرض نواز شریف کی حکومت کو ادا کرتے رہے ہیں وہ کس طرح من مانیوں اور کرپشن میں ضائع کر دیئے گئے اور تمام مالیاتی اداروں کو یہ حقیقت سامنے رکھنی ہو گی کہ انہوں نے جو بھی امداد یا قرض اس سے پہلے دیا ہے یا وہ اب دوبارہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ پاکستانی عوام پر نہیں بلکہ ان کی اپنی منی لانڈرنگ کے ذریعے کی جانے والی لوٹ مار پر خرچ ہو گا۔
اب اگرآئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ترقیاتی بینک کی رپورٹوں کو دیکھیں تو وہ اس بات پر اپنے تحفظات کا اظہار 
کررہے ہیں کہ اگر نواز شریف حکومت کو ہم اس وقت قرضہ دے دیتے ہیں تو کل کو تحریک انصاف کی عوام کی رائے سے آنے والی نئی حکومت ان قرضوں کی ادائیگی سے یہ کہتے ہوئے انکار کر سکتی ہے کہ ہم نے تو آپ کو پہلے ہی وارننگ دے دی تھی کہ شریف حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے مالیاتی لین دین کی ذمہ داری نئی حکومت پر عائد نہیں ہو سکے گی ۔اب یہی وہ سب سے بڑا غصہ جو عمران خان پر نواز شریف حکومت کو ہے کیونکہ انہیں ان حلقوں کی جانب سے باور کرا دیا گیا ہے کہ ایسی صورت حال میں عالمی مالیاتی ادارے کسی بھی قسم کا رسک نہیں لے سکتے۔ نواز حکومت جس کا سب سے زیا دہ انحصار غیر ملکی بھاری قرضوں پر ہوتا ہے اس کیلئے ملکی معاملات چلانا مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے ۔
دھرنے اور جلسے اپنی جگہ لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ صرف دبائو بڑھانے اور اسے قائم رکھنے کے ایک طریقے کے سوا اور کچھ نہیں لیکن سب سے اہم وار جس پر عمران خان کا انحصار ہے وہ غیر ملکی بھاری قرضوں کی ادائیگیوں سے عالمی اداروں کو روکنا ہے جس میں وہ کامیاب ہوتے دکھا ئی دے رہے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیا دت اپنے قائد کے اس'' سٹروک‘‘ سے قطعی لا علم دکھائی دیتی ہے۔عمران خان کو بھی اب ایک قدم اور آگے بڑھ کر عالمی مالیاتی اداروں سے بالمشافہ یہ کہتے ہوئے انہیں باور کرانے کی کوشش کر نی ہو گی کہ شریف حکومت آپ کے دیئے جانے والے قرضوں کو عوام کی بھلائی کیلئے نہیں بلکہ اپنی سیا سی دوکانداری چمکانے کیلئے استعمال کر رہی ہے اور اس سلسلے میں لیپ ٹاپ سکیم پر خرچ کیے جانے اربوںروپوں کی مثال ان سب کے سامنے ہے۔ کیونکہ یہ بات تو اب ظاہر ہو چکی ہے کہ دو تہائی اکثریت والا کوئی بھی عوامی نمائندہ خود کو عوام کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتا جس کی مثال سب کے سامنے ہے کہ کل تک اراکین پارلیمنٹ تو ایک طرف وزیر بھی وزیراعظم نواز شریف سے ملنے کو ترستے تھے ۔
اس حکومت کی عوام کی بھلائی کے بارے میں سوچ ملاحظہ کیجئے کہ ملک میں سیلاب اور زلزلہ یا قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے حکومت نے صرف160 ملین روپے رکھے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں وزیر اعظم ہائوس کے شاہانہ اخراجات کیلئے بجٹ میں رکھی جانے والی رقم770 ملین روپے ہے۔اب اگر اس طرح کی نا انصافیوں اور شاہ خرچیوں کو سامنے لاتے ہوئے عمران خان قرض دینے والے اندرونی اور بیرونی اداروں کو ایک بار پھر ذاتی طور پر مل کر یہ باور کرا دیتے ہیں کہ ان کے شریف حکومت کو ادا کیے جانے والوں قرضوں کی واپسی کی تحریک انصاف حکومت کسی قسم کی ذمہ داری نہیں لے گی تو ملک میں نئے انتخابات اور نواز شریف حکومت کے استعفیٰ دینے کے مطالبات چند دنوں میں حاصل ہو سکتے ہیں۔اور پھر وہ لوگ جو اس وقت سول نافرمانی کی بات کو ایک مذاق میں ٹال رہے ہیں یہ سوچنے پر مجبور ہوسکتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست کے اس انداز کو سمجھنے کیلئے بہت زیادہ عقل کی ضرورت ہے...!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved