تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     14-10-2014

کاش

بس کرو، خدا کے بندو، بس کرو۔ ماضی کو جو دفن نہیں کرسکتا، قوم کی قیادت تو کیا ،وہ ایک کامیاب ذاتی زندگی بسر کرنے کا اہل بھی نہیں ہوتا۔
اسفند یار ولی خان نے بالآخر وزیراعظم سے وہ بات برملا کہہ دی ہے جس کا مشورہ نون لیگ کے رہنمائوں کو دینا چاہیے تھا۔ اگر انتخابی دھاندلی کا قصہ بروقت نمٹا لیاجاتا اور اگر سانحہ ماڈل ٹائون کی تحقیقات بروقت کرلی جاتی تو نوبت یہاں تک کبھی نہ پہنچتی۔ ملتان کی جلسہ گاہ میں ایک لاکھ اور فیصل آباد میں بیس پچیس ہزار مظاہرین نعرہ زن نہ ہوتے۔
حکومت کی کوئی ساکھ ہوتی اور اس سے کوئی امید وابستہ کی جاسکتی تو گزارش کی جاتی۔ بھارت سے درپیش چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری تیاریوں کے بعد کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے۔ ویسا ہی اتحاد ہمارے ہاں بھی برپا ہو، جیسا کہ حریف ملک میں ہے۔ ملک کا سیاسی منظر مگر یہ ہے کہ جناب سراج الحق آئندہ الیکشن کے بعد جماعت اسلامی کی حکومت تراشنے کی خوشخبری سنارہے ہیں۔ عمران خان کے نئے پاکستان کے مقابلے میں انہوں نے اسلامی پاکستان بنانے کااعلان کیا ہے۔ طاہرالقادری انقلاب کی نوید سناتے ہیں تو چودھری پرویز الٰہی نئے الیکشن کی۔
بھارتی اخبارات پاکستان کے خلاف آگ اگل رہے ہیں۔ '' دی ہندو‘‘ سمیت کئی ایک نے لکھا ہے کہ پاکستان کے نقصانات بہت زیادہ ہیں اور پاکستانی پریس پر سیالکوٹ کے دیہات میں پھیلنے والی تباہی کی تفصیل شائع کرنے پر پابندی لگادی گئی ہے۔ جی نہیں، کوئی پابندی نہیں۔ پاکستانی میڈیا کو دھرنوں اور جلسوں ہی سے فرصت نہیں۔ وہ سنسنی فروش ہے اور اس کی ترجیحات ہی مختلف 
ہیں۔ ثانیاًدفاعی معاملات میں ہمارا انداز فکر ساری دنیا سے جدا ہے۔ کانگو سے امریکہ تک دنیا بھر میں یہ تماشا کہیں نہیں ہوتا کہ قومی سلامتی سے متعلق سوالات پر حماقت کی حد تک غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی جائے۔ اسی پر بس نہیں، ٹی وی مذاکروں میں بھاڑے کے ٹٹو تک مدعو کیے جاتے ہیں۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ جس اخبار نویس نے اپنے یا اپنی بیوی کے نام پر ایک عدد این جی او بنا رکھی ہے ،جو برطانیہ ، یورپی یونین، سکینڈے نیویا یا انکل سام سے مالی مدد حاصل کرتا ہے ،اسے یہ حق کیسے دیا جاسکتا ہے کہ غیر جانبدار مبصر بن کروہ کشمیر ایسے نازک موضوع پر بات کرے۔
شرمناک بات یہ ہے کہ حکمران جماعت ہی نہیں، دوسری سیاسی پارٹیاں بھی اس قماش کے دانشوروں کو گوارا کرتی ہیں۔ ایک اہم وفاقی وزیر نے ان لوگوں کا ''گلدستہ ‘‘بناکر وزیراعظم کو پیش کیا تھا۔ ان میں سے ایک صاحب آج کل لندن میں براجمان ہیں۔ ٹی وی شرکاء سرکاری خرچ پر بھارتی اور امریکی پالیسیوں کی وکالت کرتے ہیں۔ 
حالیہ بحران میں عسکری قیادت نے اگرچہ وزیراعظم کے خلاف سازش کاحصہ بننے سے انکار کردیا۔ عمران خان جنرل راحیل شریف سے ملنے گئے تو صاف صاف انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے استعفے کے سوا جو مطالبات ہیں، سیاستدان اگر ان پر کوئی معاہدہ کریں تو وہ مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آخری تجزیے میں یہ بات بے معنی ہے کہ لفظ ضمانت (Guarantee)برتا گیا یا سہولت کاری (Facilitation)۔قصے کا خاتمہ اس روز ممکن تھا، جب تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے مظاہرین شاہراہ دستور پر داخل ہوئے تھے۔ عسکری قیادت کی طرف سے اعانت کی شائستہ کوشش کو اول ڈاکٹر طاہرالقادری نے سبوتاژ کیا، جو فوج کی ضامنی میں ، فوج کی ثالثی میں ، کی گردان کرتے رہے، رہی سہی کسر دوسرے دن وزیراعظم نے پوری کردی، جب پارلیمنٹ میں انہوں نے اعلان کیا کہ نہ تو فوج نے کسی کردار کا مطالبہ کیا ہے اور نہ ہم اسے یہ کردار دینے پر آمادہ ہیں۔ کون سا کردار؟ اگر کوئی شریف آدمی ، برسربازار ایک دوسرے کا گریبان پکڑے ،دو مشتعل آدمیوں میں مصالحت کرانے کی کوشش کرے تو کیا وہ کسی کردار کا مطالبہ کرتا ہے؟
علامہ طاہرالقادری نے اگر ایسا کیا تو یہ قابلِ فہم ہے۔ ان کے رزق اور ان کی قیادت و سیادت کا انحصار ہی اس پر ہے کہ ہنگامہ جاری رہے۔ غالباً یہ وہی تھے جنہوں نے لندن میں عمران خان کو قائل کیا کہ حکومت کا تختہ الٹا جاسکتا ہے۔ ورنہ ان کی تحریک تو دھاندلی کے خلاف تھی اور برحق تھی۔ کون انصاف پسند ہے جو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ مئی 2013ء کے انتخاب میں گڑبڑ ہوئی۔ فقط یہ طے کرنا تھا کہ کتنی ہوئی اور بنیادی طور پر کون اس کا ذمہ دار ہے یا کون کون۔ ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ ہی وہ ادارہ ہے جہاں اس طرح کے سیاسی تنازعات نمٹائے جاسکتے ہیں۔ اس کی مگر نوبت ہی نہ آسکی۔ نہ صرف مستقبل میں شفاف الیکشن کی ضمانت حاصل نہ کی جاسکی، جو یقینا حاصل کی جاسکتی بلکہ انتشار اور بھی بڑھا... اور بھارت اسی کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
بو علی سینا نے کہا تھا: جو اپنے زخم یاد رکھتا ہے، اس کے زخم ہرے رہتے ہیں۔ روٹھا ہوا اور مغالطوں کا مارا وزیراعظم۔ ماضی کی کوئی بات جسے بھولتی ہی نہیں۔ جو نہیں جانتا کہ انتقام تو ذاتی زندگیوں میں بھی لیا نہیں جاسکتا، چہ جائیکہ اجتماعی حیات میں ۔ سرحدوں پر آگ برس رہی ہے، پاکستانی شہری زندگیاں ہار رہے ہیں، درجنوں دیہات برباد اور خالی ہوگئے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی 'رائٹر ‘کے مطابق بھارتی وزارت داخلہ کے ایک افسر نے کہا "The Prime Minister has Instructed us to ensure that pakistan sufffers deep and heavy losses"(وزیراعظم نے ہمیں یقینی بنانے کی ہدایت کی کہ پاکستان کے نقصانات شدید ہونے چاہئیں) ۔ مہاراشٹر میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے موصوف نے خود بھی یہ ارشاد کیا کہ زمینی حقائق بدل چکے اور پاکستان کو ان کا ادراک کرنا ہوگا۔
وہ حقائق کیا ہیں؟ صرف یہی نہیں کہ امریکہ اب بھارت کا تزویراتی حلیف ہے بلکہ یہ بھی کہ بھارت کا دفاعی بجٹ 36بلین ڈالر اور پاکستان کا صرف سات بلین ڈالر ہے۔ بھارتی معیشت فروغ پذیر اور پاکستانی کمزور ہے۔ بھارت میں ٹیکس وصولی کی شرح 16فیصد اور پاکستان میں 8.5فیصد ہے۔ بھارتی قوم اپنی فوج اور حکومت کی پشت پر کھڑی ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارا وزیراعظم تک منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھا ہے۔ کوہ مری میں ، کبھی لاہور اور کبھی لندن میں کسی آسودہ مہاجن کی طرح تکیہ لگائے آسودہ ۔ اپوزیشن سے تعاون حاصل کرنے کی بجائے جس نے ایسے وزیر رکھ چھوڑے ہیں جو پورا سچ بھی بولیں تو لوگ اب صریح غلط بیانی اسے سمجھتے ہیں۔ دو دن سے میں یہاں ملتان میں ہوں۔ درجنوں معتبر آدمیوں سے مل چکا۔بخدا شاہ محمود نے جھوٹ بولا کہ قلعہ کہنہ کی جلسہ گاہ میں ایک کے سوا سارے دروازے بند تھے۔رائے عامہ کے ٹھکرائے ہوئے وزیر لیکن جب تردید فرمائیں تو مانے گا کون ؟
چیف آف آرمی سٹاف کو ساتھ لے کر وزیراعظم وزیرستان گئے ۔ بہت اچھا کیا مگر مسئلہ تو اداروں کی سطح پر ہے۔ مفاہمت فقط سپہ سالار اور چیف ایگزیکٹو میں نہیں، بلکہ نچلی سطح تک ہونی چاہیے۔ جان ہتھیلی پر رکھے ، جو جوان اور افسر سیاچن اور وزیرستان میں برسرِجنگ ہے، وزیراعظم کے ساتھ وہ اس سے کہیں زیادہ ناراض ہے جتنا کہ وزیراعظم پندرہ برس پہلے کے واقعہ پر جنرل پرویز مشرف بلکہ پوری فوج سے۔
بس کرو، خدا کے بندو، بس کرو۔ ماضی کو جو دفن نہیں کرسکتا، قوم کی قیادت تو کیا ،وہ ایک کامیاب ذاتی زندگی بسر کرنے کا اہل بھی نہیں ہوتا۔ 
پسِ تحریر:عمران خان نے سانحۂ ملتان کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت کو نہ صرف یہ مطالبہ فوراً تسلیم کرنا چاہیے بلکہ جج کا تقرر ان کے مشورے سے ہونا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ویسے احتیاطاً شاہ محمود سے پوچھ لیں کہ کیا وہ سچائی کی تاب لاسکیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved