تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     14-10-2014

دلچسپ خبریں

مثل مشہور ہے کہ ہر شخص کے دو وطن ہوتے ہیں۔ ایک اس کا اپنا اور دُوسرا فرانس۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آپ کے اس کالم نگار کے تین وطن ہیں۔ پاکستان، برطانیہ اور فرانس۔ میرے دُوسرے اور تیسرے وطن کے درمیان لندن کی ایک سرسبزو شاداب کائونٹی (ہمارے ڈویژن سے چھوٹی اور ضلع سے بڑی)Kent اور رُودبار انگلستان حائل ہیں۔ رودبار (یعنی چھوٹا سا سمندر) کے نیچے زیر آب سرنگ کھودے جانے اور اُس میں برق رفتار ٹرینوں کے سفر نے اب یہ ممکن بنا دیا ہے کہ میں صبح سات بجے لندن سے روانہ ہو کر گیارہ بجے صبح تک پیرس پہنچ جائوں اور وہاں سارا دن کام کر کے (کام تو خاص نہیں ہوتا مگر میں کام کے بہانے ڈھونڈنے کے فن کا ماہر ہوگیا ہوں) شام کو گھر واپس آجائوں اور رات کا کھانا اہل خانہ کے ساتھ کھائوں اور اُن پر رُعب ڈالو ں کہ میں نے آج پیرس میں پانچ چھ گھنٹے کے مختصر قیام کے دوران کون سے تیر چلائے۔ کون سے کارنامے سرانجام دیئے۔ اسے کہتے ہیں پروپیگنڈا (اُردو زبان کے ماہرین کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اس لفظ کا اُردو میں متبادل لفظ بتائیںاور مجھ سے ایک پائونڈ کا سکہ رائج الوقت بطور انعام وصول کریں۔)
ماہ رواں میں میری قسمت کا ستارہ چمکا تو میں پھر پیرس میں ایک دن گذارنے میں کامیاب ہو جائوں گا (حسب معمول چوہدری عبدالغفور طویل سفر کر کے مجھے ملنے پیرس آنے سے باز نہ رہیں گے اور میری میزبانی کا فرض ادا کرتے ہوئے میرے ہاتھوں کو دال اور سادہ چاولوں کی طرف بڑھنے کی اجازت نہ دیں گے۔) پیرس جا کر آپ جو دو دلچسپ خبریں سنتے میں وہ آپ کو گھر بیٹھے سنا دیتا ہوں۔برطانوی راج کے دوران ایک بار دہلی دربار بڑی شان و شوکت، ٹھاٹھ باٹھ اور دُھوم دھام سے سجایا گیا تاکہ پہلے سے مرعوب رعایا پر مزید رُعب ڈالا جا سکے۔ انگریزوں کو برصغیر سے گئے ہوئے 67 سال ہو گئے ہیں مگر ہمارے دل ناتواں ہیں کہ ابھی تک دورِ غلامی کے زہر نے اُن میں زندگی کی رمق پیدا نہیں ہونے دی۔ اقبال ـؔ ہم سے زندہ دلی کی توقع رکھتے تھے۔ وہ ہم کہاں سے لائیں؟ عشق (کچھ کر گزرنے کا جنونی جذبہ) کی آگ بجھ جائے تو چار سو اندھیر ہو جاتا ہے اور اقبالؔ کا مسلمان خاک کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ آپ یقین جانیںکہ خاک کے بہت سے ڈھیر چلتے پھرتے ہیں۔ کھاتے پیتے ہیں۔ سانس لیتے ہیں۔ باتیں کرتے ہیں (بلکہ زیادہ باتیں کرتے ہیں) مگر زندوں میں شمار نہیں ہوتے۔ ہمارے ایک بڑے شاعر (جو خا ک کا زیادہ بڑا ڈھیر تھے) مذکورہ بالا شاہی دربار کا نظارہ بلکہ زیارت کرنے گئے تو ایک اچھی نظم لکھی۔ جو میں نے بچپن میں پڑھی۔ اب مجھے صرف اس کا ایک مصرع یاد رہ گیا۔ وہ آپ سن لیں۔ ع
آنکھیں میری باقی اُن کا
میں پیرس پہنچوں تو آنکھیں حیرت سے معمور،دل خوشی سے لبریز اور بوڑھے پائوں تھکاوٹ سے چُور ہو جاتے ہیں۔ شوقِ نظارہ سیر کی دعوت دیتا ہے جو پاگل دل بلا توقف مان لیتا ہے۔ واپس لندن آئوں تو پیرس کے درودیوار۔مے کدوں میں ہونے والی اور کبھی نہ ختم ہونے والی بحث کی آوازوں، بے مثال آرٹ گیلریوں، عجائب گھروں، کتب خانوں، شہر کے دل میں بہتے ہوئے دریا میں چلتی ہوئی کشتیوں اور کشتیوں سے موسیقی کی اُڑتی ہوئی تانوں کی بے شمار خوشبودار یادوں کا سرمایہ ساتھ لے آتا ہوں۔ جونہی احساس ہوتا ہے کہ لندن میں وکالت کرتے کرتے میں کولہو کا بیل بن گیا ہوں( یا بننے والا ہوں) تو پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ پاکستان یاترا کر آئوں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ہر ماہ نہیں ہو سکتا۔ دُوسری کوشش یہ ہوتی ہے کہ پیرس میں چند گھنٹے گزار لوں۔ تیسری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان دونوں جگہوں پر نہ جا سکوں تو اُن کے خواب دیکھنے پر ہی گزارہ کر لوں۔ آپ کا یہ کالم نگار اپنے ملنے والے خواتین و حضرات سے دوستی کا رشتہ قائم کر نے سے پہلے صرف ایک سوال پوچھتا ہے کہ اُس کے مخاطب کیا خواب دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟اور دیکھتے ہیں تو کون سے؟ پرندے اور جانوربھی دیکھ سکتے ہیں مگر وہ خواب دیکھنے کی خوبی سے محروم ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے کولہوکا ہر بیل صرف اس لحاظ سے قابل رحم نہیں ہوتا کہ اُس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے بلکہ وہ بے چارہ بند آنکھوں سے خواب دیکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔
یاد آیا کہ میں آپ کو جو دو دلچسپ خبریں سنانے چلا تھا اُن کا تذکرہ مذکو رہ بالا خیال آرائی میں دب کر رہ گیا۔ آیئے اس لمبے وقفہ خیالات کے بعد خبروں کی طرف لوٹ چلیں۔ اول خبر: آپ یہ نہ سمجھیں کہ صرف پاکستان میں ہر قسم کی مسلم لیگ اوربھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی جیسی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اقتدار پر قابض ہیں۔ فرانس میں یہ مرتبہ نیشنل فرنٹ کو حاصل ہے۔اس پارٹی کے بانی کا نام Jean Marie Le Pen ہے۔ اب اس کی عمر86 برس ہے۔ چند برس پہلے وہ عملی سیاست سے ریٹائر ہوا تو اپنی بیٹی کو جانشین بنایا۔ پارٹی کے وفادار کارکنوں نے بھی اس فیصلہ کی توثیق کر دی۔ باپ بیٹی میں اتنی گاڑھی دوستی تھی کہ وہ رہتے بھی ایک گھر میں تھے( فرانس میں اس کا رواج ہر گز نہیں)۔ پچھلے دنوں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے باپ بیٹی کو اچانک ایک دُوسرے سے دُور کر دیا۔ باپ نے رفاقت اور حفاظت کے لئے ایک Dober man نسل کا خونخوار کتا پالا ہوا تھا جس نے بلاوجہ بیٹی کی پالتو اور نازک اندام بلی پر حملہ کر کے اُسے ہلاک کر ڈالا۔ یہ صدمہ بیٹی کے لئے اتنا ناقابلِ برداشت ثابت ہواکہ وہ اپنا بوریا بستر باندھ کر اپنے بوڑھے باپ سے اور اُس کے خونخوار کتے سے محفوظ فاصلہ پر جا کر رہنے لگی۔ فرانس کے اخبارات (جو دُور کی کوڑی لانے کے فن میںیدطولٰے رکھتے ہیں) اب اس قیاس آرائی میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ یہ جسمانی جدائی باپ بیٹی کی سیاسی ہم آہنگی پر کس طرح اور کتنی اثر انداز ہوگی؟ عام طور پر فرانس کے کتے اتنے مہذب ہوتے ہیں کہ بلیوں سے ڈرتے ہیں (ایک عام فرانسیسی خاوند کے اپنی بیوی سے ڈرنے سے بھی زیادہ)۔ فرانس کی بڑی بوڑھیوں کا خیال ہے کہ پالتو کتے کے ہاتھوں پالتو بلی کی ہلاکت سے یہ اندیشہ تقویت پکڑتا ہے کہ روز قیامت مزید قریب آگیا ہے۔ ان کے خیال میں اس سے بڑھ کر اور بڑے آثارِ قیامت کیا ہو سکتے ہیں؟ یہ پڑھ کر آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ توہم پرستی اور احمقانہ سوچ کا کوئی جغرافیہ نہیں ہوتا۔
دوسری خبرہمارے قدیم رومانوی شاعروںکی رُوح کو تڑپا دے گی۔ محبوب سے وصل میں ناکامی یا عشقیہ رشتہ میں عارضی تعطل یا مستقل خاتمہ، صدیوں سے ہماری ان گنت غزلوں کا سب سے دل پسند موضوع بنا رہا ہے۔ اس صورت حال کا مداوا کرنے کے لئے فرانس میں ایک نئی Website معرض وجود میں آئی ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے کامیابی کے مراحل طے کر گئی ہے۔ آپ اس کا انوکھا نام پڑھ لیں۔ Jerecuperemonex.com اس کا انگریزی ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے۔ Recoverymyex.com یہ آپ کو وہ تمام قیمتی مشورے دیتی ہے جن پر عمل کرتے ہوئے آپ محبوب سے جدائی کا صدمہ برداشت کرنے کی اہلیت پیدا کرسکتے ہیں۔ فرانس کی کل آبادی 65 ملین ہے مگر ا س کا شاید ہی کوئی باشندہ اتنا بے ذوق ہو کہ وہ کسی نہ کسی قسم کے عشق میں مبتلا نہ ہو۔ یہ اُس قوم کا قومی نشان ہے۔ مذکورہ ویب سائٹ آپ کو سختی سے ہدایت کرتی ہے کہ آپ بچھڑ جانے والے محبوب کویا حضرت بلھے شاہ کی طرح ناچ کریا بار بار فون کر کے، پھول بھیج کر یا دُوسرے تحائف دے کر منانے کی کوشش نہ کریں کہ اس کے منفی نتائج برآمد ہوں گے اور روٹھا ہوا محبوب آپ سے مزید دور ہو جائے گا۔ ناصر کاظمی مرحوم کی مشہور غزل کے مطلع میں اُٹھائے گئے سوالوں کا اہل فرانس نے یہ جواب دیا ہے کہ آپ محبت میں ناکامی کے بعد بہترین کپڑے پہنیں۔ اپنے بال پہلے سے زیادہ توجہ سے بنائیں اور اپنے آپ کو صحت مندانہ سرگرمیوں میں اس قدر مصروف کر لیں کہ آپ کے دل کا دھیان جذباتی صدمہ کی طرف نہ جائے اور آپ غالب کی ہمنوائی کرتے ہوئے اپنے سابقہ محبوب سے مخاطب ہو کر یہی کہیں۔ ع
سُبک سر ہو کے کیوں پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved