تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-10-2014

ظالم ہوا کے ہاتھ میں شہنائی آ گئی

سورج ڈوبا تو بارش برسنے لگی۔ آدھی رات تک برستی رہی۔ جتنی خاک پر‘ اتنی ہی دل پہ۔ دل پہ اب تک برس رہی ہے ؎ 
پتوں کا رنگ خوف سے پہلے ہی زرد تھا 
ظالم ہوا کے ہاتھ میں شہنائی آ گئی 
شیشے کی کشادہ کھڑکی کے سامنے ایک سبزہ زار ہے‘ بیچ میں ایک دیوار اور پھر سرسبز درختوں کا ایک عظیم جھنڈ کہ قرآن کریم کی اصطلاح یاد آتی ہے۔ تہہ در تہہ باغ۔ اس کے باوجود نہاں خانۂ قلب میں رونق اور روشنی کی ایک رمق بھی نہیں۔ 
ایک شام اور ایک شب ملتان میں ایسی بسر کی ہے کہ شاید اس کی یاد کبھی دل سے محو نہ ہو سکے۔ آخر کار ہر اداسی تمام ہوتی ہے۔ یہ بھی ہو رہے گی۔ قلعہ کہنہ کی کرکٹ گرائونڈ میں کل جو منظر دیکھا‘ اس کا بھلانا شاید ممکن نہ ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ آنسو دل کا بوجھ اتار پھینکتے ہیں۔ اس خطاکار کو مگر گریہ نصیب نہ ہو سکا اور اب اضطراب ہی اضطراب ہے۔ ہسپانیہ کے سفر میں اقبال کے دل کا گداز ایک نظم میں ڈھل گیا تھا‘ مگر وہ اقبال تھے ؎
غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے، ولیکن 
تسکینِ مسافر نہ سفر میں، نہ حضر میں 
اس خیال کے ساتھ گھر سے نکلے تھے کہ شاید دل بہلے‘ مگر یہاں بھی وہی تیرگی ہے۔ 
ملتان سے محبت کا قصہ قدیم ہے۔ تینتیس برس ہوتے ہیں‘ رحیم یار خان جاتے ہوئے ملتان میں رکا کہ بس کے طویل سفر کی کوفت کم ہو سکے۔ شام اتری تو میزبان ازراہِ کرم باغ میں لے گئے۔ ایک عمارت سر اٹھائے کھڑی تھی۔ باغ کو بھول‘ مبہوت مسافر اسے دیکھتا رہ گیا۔ اپنا دل اس نے شاہ رکن عالمؒ کی چوکھٹ پہ ہار دیا۔ 
اس کے بعد جب کبھی ملتان آنا ہوا‘ کوئی چیز کھینچ کر وہاں لے گئی۔
اٹھارہ برس ہوتے ہیں‘ خالد مسعود خان اور ان کے توسط سے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے خاندان سے ملاقات کے لیے ایک بار ملتان کا ارادہ کیا۔ شام ہوئی تو بے تاب وہیں پہنچا۔ یہ پہلی بار تھا کہ مزار کے اندر داخل ہونے کی جسارت کی۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو حواس گم۔ ایک گنبد اتنا بلند کیسے ہو سکتا ہے کہ آسمان کو چھو لے۔ اپنے آپ سے یہ کہا: اس قابل ہم کہاں کہ ان رفعتوں کا ادراک کر سکیں۔ خواجہ مہر علی شاہ سے کسی نے پوچھا: قرآن کریم کی اس آیت کا مفہوم کیا ہے ''اللہ کو یاد کرو‘ وہ تمہیں یاد کرے گا‘‘۔ فرمایا: تم دیکھتے نہیں کہ درویش اس دنیا سے چلے بھی جائیں تو خلق لپکتی ہوئی ان کی طرف جاتی ہے۔ خواجہ نظام الدین اولیاؒء نے کہا تھا: کتنے بادشاہ ہو گزرے ہیں‘ نام بھی کسی کو یاد نہیں مگر جنیدؒ و با یزیدؒ، یوں لگتا ہے ابھی کل کی بات ہے۔ کیوں نہ ہو‘ ان کا رشتہ کس سے ہے ؎
ادب گاہست زیرِ آسماں از عرش نازک تر 
نفس گم کردہ می آید جنیدؒ و بایزیدؒ ایں جا 
سرکارؐ سے جس کا تعلق استوار ہوا اور جس نے واقعی نمونۂِ عمل انہیں سمجھ لیا‘ دنیا بھی اس کی‘ آخرت بھی اس کی ؎ 
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں 
کہیں سے ان کو بلائو‘ بڑا اندھیرا ہے 
کیا غضب ہے کہ ملتان آنا ہوا اور شاہ رکن عالمؒ کی آرزو دل میں نہ جاگی۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی آرزو نہ تھی۔ فانی بدایونی کا سا عالم ؎ 
یہ تو بُرے آثار ہیں فانی، غم ہو، خوشی ہو، کچھ تو ہو 
یہ کیا دل کا حال ہوا‘ مسرور نہیں، مغموم نہیں 
ارادہ یہ باندھا تھا کہ تحریکِ انصاف کے جلسے میں ہونے والے سانحے کے اسباب کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے۔ پھر اس الیکشن کا احوال لکھنے کی‘ جو میرے محترم جاوید ہاشمی کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کردے گا۔ 
ملتان میں مگر ہجر کی شام‘ شب کی سیاہی میں گھلتی رہی اور دن کا اجالا بھی چاٹ گئی۔ کسی سے ملنے کو جی چاہا‘ نہ بات کرنے کو۔ نیند روٹھ گئی اور ایسی روٹھی کہ حیرت ہونے لگی۔ کچھ وقت جناب اسحق خاکوانی اور ان کے برادر بزرگ احسن خاکوانی کے ساتھ گزرا۔ اسحق خاکوانی کے برعکس جو کبھی کِھل بھی اٹھتے ہیں‘ احسن خان سنجیدگی ہی سنجیدگی۔ ہاں مگر نکتہ رسی۔ بولے: بھٹو صاحب کے زمانے میں پیپلز پارٹی کے 164 دفاتر اس شہر میں تھے‘ اب ایک بھی نہیں۔ ''ایک بھی نہیں؟‘‘ مجھے یقین نہ آیا۔ کہا: جی ہاں ایک بھی نہیں۔ تو کیا پیپلز پارٹی وفات پانے والی ہے؟ قرآن کریم میں لکھا ہے: لکل امتٍ اجل (ہر گروہ کے لیے ہم نے موت لکھ دی ہے۔) 
تحریک انصاف کے (آزاد) امیدوار عامر ڈوگر کے بارے میں خالد مسعود خان نے بہت کچھ بتایا تھا۔ حافظے کو ٹٹولا تو کچھ زیادہ برآمد نہ ہوسکا۔ باخبر لوگوں سے پوچھا۔ توبہ‘ توبہ‘ توبہ۔ باقر نقوی کے ہاں ایک صاحب نے سوال کیا: کیا تحریک انصاف سے تعلق کے بعد آدمی کے سب گناہ دُھل جاتے ہیں۔ کیا اس کا شمار فرشتوں میں ہونے لگتا ہے؟ اس سوال کا میں کیا جواب دیتا؟ 
اپنی بزدلی اور کم مائیگی کا اب مجھے اعتراف کر لینا چاہیے۔ اس شخص کو سنجیدگی سے اب پیشۂ صحافت کو خیرباد کہنے کی منصوبہ سازی کرنی چاہیے جو سیاستدانوں سے عمر بھر یہ کہتا رہا: گھوڑا اگر گھاس سے محبت کرے گا تو کھائے گا کیا؟ جاوید ہاشمی کے بارے میں‘ میں نہیں لکھ سکتا ع 
نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں 
آدمی کتنا بدلحاظ ہو سکتا ہے۔ کس طرح ان تبصروں کو وہ نقل کرے‘ جو گھر گھر گلی گلی ہیں ع
دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا 
موقف ان کا غلط نہیں تھا۔ بخدا بالکل نہیں۔ ناچیز بھی یہی سمجھتا ہے کہ وزیراعظم سے اگر ہجوم کے بل پر استعفیٰ لیا جاتا تو ملک میں انارکی پھیل جاتی... اور انارکی سے بُری حکومت اچھی۔ ایک کے بعد دوسری‘ دوسری کے بعد تیسری‘ کتنی حکومتوں کو ہم اکھاڑ کر پھینک چکے۔ حاصل کیا؟ وصول کیا؟ تبدیلی آنی چاہیے اور لازماً چاہیے مگر کس لیے! بہتری یا ابتری کے لیے؟ جولائی کے اوائل میں خان صاحب سے عرض کیا تھا‘ اول تو وسط مدتی الیکشن آپ حاصل نہ کر سکیں گے۔ حاصل کر لیے تو جیت نہ پائیں گے اور جیت گئے تو یہ ایک اور پارٹی‘ ایک اور لیڈر اور ایک اور ناکامی پر منتج ہوگی۔ دہشت گردی‘ بجلی اور گیس کا قحط خواہ کتنے ہی سنگین مسائل ہوں‘ ممکن ہے کسی نہ کسی طرح نمٹا دیئے جائیں مگر امن و امان قائم کرنے کی ذمہ دار پولیس‘ مگر خستہ حال افسر شاہی مگر ٹیکس وصولی میں پچاس فیصد سے زیادہ غبن اور نچلی عدالتوں میں انصاف کا قتل عام؟ منصوبہ بندی چاہیے۔ اس کے لیے ریاضت چاہیے۔ نعرہ بازی نہیں‘ عرق ریزی اور پتّہ ماری۔ 
جاوید ہاشمی اگر تین سطروں کا ایک استعفیٰ لکھتے اور طے شدہ پروگرام کے تحت 31 اکتوبر کو علاج کے لیے چین چلے جاتے تو ان کا معاملہ سینیٹر مشاہد حسین کی مانند ہوتا۔ صدر زرداری کے ساتھ قاف لیگ کے انتخابی معاہدے پر وہ ناخوش تھے۔ خاموشی سے گھر بیٹھ رہے اور عافیت میں ہیں۔ رحمۃ اللعالمینؐ نے سیدنا عباس بن عبدالمطلب سے یہ کہا تھا: اے میرے چچا‘ جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے‘ اس نے عافیت سے بہتر کبھی کوئی دعا نہیں مانگی۔ میرے دوست نے خسارے کا سودا کیا اور خسارہ بھی ایسا کہ اللہ کی پناہ۔ وہ تو کسی سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے ؎
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید 
لوگ کہتے ہیں کہ تو نے مجھے برباد کیا 
عجیب الیکشن ہے‘ عجیب الیکشن۔ عامر ڈوگر اور جاوید ہاشمی دونوں آزاد امیدوار ہیں اور دونوں کی مہم ملک کی دو بڑی پارٹیاں چلا رہی ہیں‘ کھلم کھلا۔ خالد مسعود خان جب ملتان کو منافقت کا گڑھ کہتے ہیں تو رئوف کلاسرا برہم ہوتے ہیں اور ان سے زیادہ یہ ناچیز۔ مگر مظاہرہ یہی ہوا؛ اگرچہ لاہور والے برابر کے شریک ہیں۔ 
وہ منظر بیان کرنے کی ہمت نہیں پڑ رہی‘ صلاحیت بھی نہیں‘ کل شام جو جلسہ گاہ میں دیکھا۔ ایک کلو میٹر دائرے کی گرائونڈ میں ہراساں ہو کر بھاگنے والوں کے‘ زخمیوں کے اور جان ہار دینے والوں کے جوتے وہیں کے وہیں پڑے ہیں۔ آخر کو فریاد کرتے ہوئے دل کے ساتھ وہیں‘ شاہ رکن عالمؒ کے مزار میں پناہ ملی ع 
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں 
سورج ڈوبا تو بارش برسنے لگی۔ آدھی رات تک برستی رہی۔ جتنی خاک پر‘ اتنی ہی دل پہ۔ دل پہ اب تک برس رہی ہے ؎ 
پتوں کا رنگ خوف سے پہلے ہی زرد تھا 
ظالم ہوا کے ہاتھ میں شہنائی آ گئی 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved