بھارتی دارالحکومت دہلی کے قلب میں پارلیمنٹ ہائوس اور دوسرے سرکاری دفاتر سے کچھ فاصلے پر انڈین نیوز پیپرز سوسائٹی (آئی این ایس) کی بلڈنگ ہے۔ اس پانچ منزلہ عمارت میں دہلی سے باہر شائع ہونے والے اخبارات کے بیورو دفاتر ہیں۔ ایک دہائی سے زائد عرصہ کشمیر ٹائمز کے ساتھ وابستہ رہنے کی وجہ سے میں نے بھی اسی بلڈنگ کے ایک کمرے میں خاصا وقت گزارا۔ یہاں اپنے بیانات اور پریس ریلیزچھپوانے کی غرض سے آنے والے سیاست دانوں، حقوق انسانی کے کارکنوں اور دوسرے کئی قسم کے لوگوں سے ہرروزنمٹنا پڑتا تھا۔ پچھلے ہفتے جب ناروے سے خبر آئی کہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کے ساتھ اس سال عالمی امن کے لیے نوبل انعام بھارت میں حقوق اطفال کے لیے سرگرم کارکن کیلاش ستیارتھی کو منتخب کیاگیا ہے تو اکثر لوگوں کو اچنبھا ہوا۔ ستیارتھی جی اکثر آئی این ایس بلڈنگ میں اخباروں کے دفاتر میں آکرکبھی بندھوا بچہ مزدوروں(Bonded Labour Children) کو آزاد کرانے کی خاطر کسی چھاپے میں شمولیت کے لیے یا کوئی پریس ریلیز شائع کروانے کی گزارش کرتے نظر آتے تھے۔ بھارت میں قالین سازی اور دیگر ایسی صنعتوں کی خاموش موت کے لیے کچھ لوگ انہیں ذمہ دار سمجھتے مگر بچوں کے حقوق کے لیے ان کی مہم کے سبھی معترف تھے۔ انہوں نے اب تک 80 ہزار بچوں کو جبری مزدوری سے نجات دلا کر ان میں سنہرے مستقبل کی آس جگائی ہے۔
2010 ء میں‘ جب کشمیر میں حالات انتہائی خراب تھے اور ریاست میں نابالغوںکی نظربندی کا سلسلہ جاری تھا، ستیارتھی جی نے حقوقِ اطفال پر ایک زور دار لیکچر دیا۔ تقریب کے اختتام پر جب میں نے ان کی توجہ کشمیر میں بچوں پر روا رکھے جانے والے ظلم کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی تو کنی کترا گئے۔ انہی دنوں سرینگر کے دو کم عمر لڑکوں کو بدنام زمانہ قانون 'پبلک سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت جیل بھیج دیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی شمالی قصبہ سوپورکے ایک 17 سالہ لڑکے کوگرفتار کرکے گھر سے سیکڑوں میل دورجموں کے کورٹ بلوال جیل بھیجنے پر تشویش کا اظہارکیا تھا۔ ان گرفتاریوں کے علاوہ سیکڑوں اور بچے بھی مقامی پولیس اور حفاظتی دستوں کے کیمپوں میں زیر حراست تھے۔ یاد رہے کہ2010 ء کی سرمائی ایجی ٹیشن اوراس کے بعد بھی سری نگر اور ریاست کے دیگر علاقوںسے متواتر ایسی خبریں آرہی تھیں کہ پولیس نے پتھر بازی کے جرم میں نہ صرف لاتعداد نابالغ بچوں کو حراست میں لے لیا ہے بلکہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ان کو جیلوں میں بھی پہنچادیا گیا ہے۔ اگرچہ سرکاری طور پر پولیس ہمیشہ حراست میں نابالغوںکی موجودگی سے انکارکرتی آئی ہے مگر بھلا ہو اس الیکٹرانک صحافت کا‘ جس کی وجہ سے پوری دنیا نے یہ نظارہ دیکھا کہ کس طرح پولیس کے سپاہی تیسری سے آٹھویں جماعت تک کے بچوں کو ہتھکڑیوں میں جکڑکر امتحانی مراکز میں پرچے حل کرانے کے لیے لارہی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں واویلا مچنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجائے ان بچوںکی رہائی کے پولیس نے ان فوٹوگرافروں کی خوب خبر لی جنہوں نے یہ تصویریں لی تھیں۔
یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ حقوقِ اطفال کے لیے سرگرم کارکن جہاں پوری دنیا میں بچوں کو حقوق دلانے میں سرگرم ہیں، وہاں کشمیر میں ان مظالم کی پردہ پوشی کے لیے بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ دوسال قبل ہالینڈکے ایک نوبیل انعام یافتہ عالمی نیٹ ورک نے ریاست میں حقوق انسانی کے بارے میں بڑی خوفناک اور تشویشناک تصویر پیش کی تھی۔ اس نے یہ دعویٰ تک کیا تھاکہ دنیا میں اس وقت جتنے بھی شورش اور جنگ زدہ علاقے ہیں، ان میں سے کشمیر میں بچوں پرتشدد اور خواتین کی بے حرمتی کے واقعات کی صورت حال نہایت تشویش خیز ہے۔ ہالینڈ کے ادارے (Medecins Sans Frontiers- MSF) نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیاتھا کہ وادی میں گزشتہ چھ سال کے دوران دماغی حالت اور نفسیاتی عارضے جیسے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے اور بچے اس کا شکار خاص طور پر ہورہے ہیں۔ ایم ایس ایف کے جائزے کے مطابق بچوں میں خوف کی نفسیات کا عنصر غالب ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ تقریباً 25 فیصد بچے خوف کے سائے میں جی رہے ہیں جبکہ تقریباً 16 فیصد بچے سکول سے متعلق مسائل سے دوچار ہیں، مثلاً ان کو سکول کی نصابی کتابیں یا دیگر چیزوںکے علاوہ اہل اساتذہ بھی دستیاب نہیں ہیں۔ جائزے میں بچوں کی عادات واطوار میں آنے والی تبدیلیوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق آٹھ فیصد سے زیادہ بچے منشیات کی لت کا شکار ہیں ‘چھ فیصد بچے اپنے بڑوں کا احترام وادب نہیں کرتے، تقریباً چار فیصد بچے اخلاقی اقدار سے نابلد ہیں اور پانچ فیصد بچے مایوسی اور بد دلی کا شکار ہوچکے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے اندر تنہا پسندی اور ماردھاڑکا رجحان پنپ رہا ہے۔
حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم ایشین سنٹر فار ہیومن رائٹس نے بھی پچھلے سال جاری کی گئی اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میںکہاتھا کہ بھارت کے شورش زدہ علاقوں میں بچوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں ہوش ربا اضافہ ہورہاہے، جن میں من مانے طریقے سے حراست میں لینا، ماورائے عدالت قتل اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانا وغیرہ شامل ہیں ۔ ملک کے دیگر حصوں میں بچوں کو جو حقوق اور تحفظ حاصل ہے ان متاثرہ علاقوں کے بچے اس سے محروم ہیں۔ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورزایکٹ کے تحت آسام ، منی پور، تری پورہ ، اروناچل پردیش ، ناگالینڈ اور جموں وکشمیر کے 71 اضلاع کو 'شورش زدہ‘ قراردیاگیا ہے۔ اسی طرح باقی 106اضلاع بائیں بازوکی انتہاپسندی سے متاثرہ نو ریاستوں جھارکھنڈ ، اڑیسہ ، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ ، مہاراشٹر ، اتر پردیش ، آندھرا پردیش ، بہار اور مغربی بنگال میں واقع ہیں ۔ رپورٹ میں غیر قانونی طریقے سے حراست
میں لینے اور اذیت دینے کے 15اور جموں وکشمیرکے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت چھ بچوں کی حراست کے معاملات کو اجاگرکیا گیا ہے۔ اسی طرح ماورائے عدالت قتل کے 15کیسوں اور سکیورٹی فورسز کے دستوں کی طرف سے جنسی تشدد‘ جیسے آبروریزی کے چھ واقعات کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں سکیورٹی فورسز پر بچوں کی حقوق کی پامالی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والے اکثر چھوٹ جاتے ہیں، ان کی کوئی باز پرس نہیں ہوتی نہ ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی ہوتی ہے ۔
بہر حال، ملالہ اور ستیارتھی کو نوبل انعام کے لیے منتخب کرنے سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ جنوبی ایشیا کے مسائل مشترک ہیں اور ان کے حل کے لیے بھی مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔ یہ انعام بھی ایسے وقت دیا گیا ہے جب دونوں ملکوں کی فوجیں سرحد وں پر فائرنگ میں مصروف ہیں۔ دونوں ممالک میں لاکھوں بچے تعلیم اور دوسری بنیادی سہولتوں سے محروم ہوکرکارخانوں، ہوٹلوں اورگھروں میں مزدوری کرکے اپنے بچپن سے محروم کردیے جاتے ہیں۔ ان بچوں سے 16 سے 18 گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور برائے نام اجرت دی جاتی ہے ، حتیٰ کہ پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی ان بچوں اور بچیوں سے جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے ہرماہ دارالحکومت میں 500 بچوں کو چھڑانے کا ہدف مقررکیا ہے، لیکن اوسطاً صرف 70 بچوں کو ہی مزدوری سے نجات دلائی جاتی ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ اس موقع کو استعمال کرکے دونوں ممالک میں سماجی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کاوشیںکریں ورنہ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔