تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     15-10-2014

نہ چاہتے ہوئے بھی لکھا جانے والا کالم

میں نہایت ہی خوشدلی سے بقائمی ہوش و حواس اور بلا جبر و کراہ یہ انکشاف کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے گزشتہ کالم میں نام لیے بغیر برادر عزیز رئوف کلاسرا نے جس بے ایمان‘ خائن‘ متعصب اور تاریخ کے ساتھ شدید بددیانتی کرنے والے اپنے دوست کالم نگار کا اشارتاً ذکر کیا تھا‘ وہ میں ہوں۔ 
برادر عزیز نے لکھا ''ملتان کی تاریخ پر بات ہوئی تو شاکر حسین شاکر کہنے لگا‘ ملتان کی تاریخ پر ایک کتاب گیلانیوں نے لکھوائی تو دوسری قریشیوں نے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو غدار ثابت کیا۔ جن کے حوالے دے دے کر آج کل ملتان اور سرائیکیوں کی نفرت سے بھرا ہمارا ایک دوست اپنے کالموں میں ملتانیوں کو برا بھلا کہتا رہتا ہے‘‘۔ برادر عزیز کو میرے پنجابی ہونے پر بڑا اعتراض ہے اور اس کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً کرتا بھی رہتا ہے۔ میں ان کے ذہن میں پھنسی ہوئی اس تعصب بھری گرہ پر پہلے بھی ہنستا رہا ہوں اور آج اس وقت مانچسٹر میں بھی اسے انجوائے کر رہا ہوں؛ تاہم پہلے جو بات رئوف کلاسرا ڈھکے چھپے لفظوں میں ذرا نرم انداز میں کرتا تھا‘ اب زیادہ تلخ انداز میں لکھ رہا ہے۔ میں دوستوں کی باتوں کا جواب دینے سے عموماً پرہیز کرتا ہوں اور اپنے کالموں میں تو اس کا خصوصی خیال رکھتا ہوں مگر اب معاملہ تھوڑا مختلف ہے کہ الزام ہی اتنا سنگین ہے کہ جواب دیے بغیر بات بن نہیں پا رہی۔ میرے بارے میں رئوف کی اس تلخی اور نفرت کے پیچھے ممکن ہے کچھ اور وجوہ بھی ہوں مگر فوری طور پر میرا کچھ دن پہلے لکھا گیا وہ کالم ہے جس میں‘ میں نے ملتان کے سیاستدانوں کو منافق کہا تھا۔ برادر عزیز کا غصہ‘ شکوہ‘ شکایت‘ تلخی اور نفرت اپنی جگہ‘ مگر میں اپنی بات پر نہ صرف قائم ہوں بلکہ ایک تازہ ترین واقعہ مزید عرض کرنا چاہتا ہوں۔ 
ملتان میں سولہ اکتوبر کو یعنی محض ایک دن بعد حلقہ این اے 149 میں ضمنی الیکشن ہے۔ جاوید ہاشمی اور عامر ڈوگر آزاد امیدواروں کی حیثیت سے ایک دوسرے کے مدِمقابل ہیں۔ جاوید ہاشمی کو مسلم لیگ کی حمایت حاصل ہے۔ حمزہ شہباز نے ملتان کے مسلم لیگیوں کو لاہور بلا کر جاوید ہاشمی کی حمایت کی ہدایت کی ہے۔ ساری مسلم لیگ چاہتے‘ نہ چاہتے ہوئے بھی جاوید ہاشمی کی حمایت کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کا حمایت یافتہ جاوید ہاشمی مسلم لیگ کا غیر سرکاری امیدوار ہوتے ہوئے بھی شیر کے انتخابی نشان کے بجائے بالٹی کے نشان پر الیکشن لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف چار دن پہلے پیپلز پارٹی چھوڑنے والا‘ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کا جنرل سیکرٹری عامر ڈوگر خرگوش کے انتخابی نشان پر آزاد امیدوار ہے۔ ایسا آزاد امیدوار جس کے لیے عمران خان نے دس اکتوبر کو ملتان میں عظیم الشان جلسہ کیا۔ عامر ڈوگر کو سٹیج پر بٹھایا۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ملتانیوں کو دکھایا‘ اس کے باوجود عامر ڈوگر آزاد امیدوار ہے۔ ایک طرف تحریک انصاف اسمبلیوں سے استعفے دے رہی ہے‘ دوسری طرف عامر ڈوگر کی حمایت کر رہی ہے۔ ایک طرف تحریک انصاف نے ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کر رکھا ہے دوسری طرف ملتان کے حلقہ این اے 149 میں زور و شور سے حصہ بھی لے رہی ہے۔ عامر ڈوگر سو فیصد تحریک انصاف کا امیدوار ہے مگر انتخابی نشان ''بلا‘‘ نہیں لے رہا۔ تحریک انصاف ملک میں ہونے والے دیگر ضمنی الیکشنوں میں بائیکاٹ کر رہی ہے مثلاً اسی ماہ شیخوپورہ کے حلقہ پی پی 162 میں تحریک انصاف نہ خود الیکشن لڑ رہی ہے اور نہ ہی کسی آزاد امیدوار کی حمایت کر رہی ہے۔ ایسی صورت میں صرف ملتان ہی کیوں؟ اس کی وجہ بھی ملتانی سیاستدان شاہ محمود ہیں‘ جو جاوید ہاشمی کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے بنائے جانے والے اس منافقت بھرے گیم پلان کے سکرپٹ رائٹر ہیں۔ اس الیکشن میں شاہ محمود قریشی‘ جاوید ہاشمی اور عامر ڈوگر‘ سب منافقت کر رہے ہیں۔ ملتان یقینا باقی پاکستان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں مگر میں تو اسی کے بارے میں زیادہ کنسرنڈ ہوں کہ میرا جینا‘ مرنا سب کچھ‘ حتیٰ کہ پولنگ سٹیشن اور حلقہ انتخاب‘ سب کچھ یہیں ہے۔ مجھے بدوملہی یا چیچوکی ملیاں میں ہونے والی منافقت سے براہ راست کیا لینا دینا؟ 
میرا معاملہ عجب ہے۔ میں گزشتہ پانچ نسلوں سے ملتانی ہوں۔ بہت سے نام نہاد ملتانیوں اور سرائیکیوں سے زیادہ پرانا اور ''پکا پیڈا‘‘ ملتانی۔ مگر میری مادری زبان پنجابی ہے اور یہی میرا قصور ہے۔ سدا سے ملتان کے حقوق اور سرائیکی وسیب کے لیے قلم گھسا رہا ہوں مگر باقیوں کو چھوڑیں‘ برادر عزیز رئوف کلاسرا بھی لکھ رہا ہے کہ ''ملتان اور سرائیکیوں کی نفرت سے بھرا ہوا ہمارا ایک دوست‘‘۔ عجیب المیہ ہے! وسطی اور بالائی پنجاب والے طعنہ دیتے ہیں کہ خالد مسعود کو سوائے ملتان کے مسائل کے اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ لاہوری طعنہ مارتے ہیں کہ میں قومی اخبار کی کالم والی انتہائی اہم قیمتی جگہ‘ قومی مسائل پر لکھنے کے بجائے ملتان پر ضائع کر دیتا ہوں۔ کچھ دوست مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے آپ کو ملتان تک محدود کرنے کے بجائے بڑے مسائل 
اور معاملات پر لکھو۔ میرا مؤقف ہے کہ لاہور والے اگر صرف ٹی ہائوس پر درجنوں کالم لکھ کر اس کی حفاظت کر سکتے ہیں تو میں ملتان والوں کے مسائل اور معاملات پر کیوں نہیں لکھ سکتا؟ برادرم رئوف جیسے دوست محض پنجابی ہونے کی وجہ سے مجھے ملتانی تسلیم نہیں کرتے اور پڑھے لکھے ہونے کے دعویدار ہونے کے باوجود میرے ساتھ لسانی تعصب کے آخری درجے پر فائز ہیں اور دوسری طرف تخت لاہور والے مجھے سرائیکی وسیب کا وکیل اور ''جماندرو‘‘ ملتانی ہونے کے باعث راندۂ درگاہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے نہ تو پنجابی شاونسٹوں کی فکر ہے اور نہ متعصب دوستوں کی۔ مجھے تو بس وہ لکھنا ہے جو سچ ہے۔ ممکن ہے میرا سچ کسی دوسرے کے نزدیک غلط ہو مگر پوری دنیا کو خوش تو کیا بھی نہیں جا سکتا۔ ویسے بھی سب کا سچ اپنا اپنا ہوتا ہے اس لیے مجھے کسی سے گلہ نہیں۔ میرا سچ غلط ہو سکتا ہے مگر جھوٹ نہیں۔ میں لکھتے وقت ہر قسم کے تعصب اور ذاتی پسند ناپسند سے بالاتر ہو کر لکھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر بہرحال انسان ہونے کے علاوہ اور کسی رتبے کا دعویدار نہیں۔ سو خطا کا پتلا ہوں اور رب کریم سے ہمہ وقت معافی اور بخشش کا طلبگار۔ 
میں نے چند سال پہلے اور چند روز قبل دوبارہ‘ ملتان کے گدی نشینوں کے بارے کچھ حقائق لکھے۔ پرانے کالم میں مخدوم شاہ محمود‘ سید یوسف رضا گیلانی‘ دیوان عاشق بخاری اور سید فخر امام کے آبائو اجداد کے 1857ء میں ''اعلیٰ کردار‘‘ کی تفصیل لکھی۔ اس میں سارے گدی نشینوں کے بزرگوں کا کچا چٹھا کھولا۔ اگر یہ جھوٹ تھا تو کسی کو عدالت میں جانا چاہیے تھا اور مجھ جیسے بے وسیلہ فقیر کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنا چاہیے تھا‘ مگر تاریخ کو جھٹلانا بڑا مشکل کام ہے۔ گزشتہ دنوں شاہ محمود قریشی کے شجرہ نسب اور اس کے بزرگوں کی سلطنت انگلیشیہ کی خدمات اور انعامات پر روشنی ڈالی۔ تاریخی حوالے دیے۔ بھلا اس میں ملتان اور سرائیکیوں سے نفرت کا کیا تعلق ہے؟ میرا ہیرو تو آج بھی رائے احمد خان کھرل ہے۔ جھامرے میں مدفون سردار کی قبر پر یہ عاجز کئی بار فاتحہ پڑھنے کا اعزاز رکھتا ہے۔ میرا تو پورا تھیسس ہی یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے عوام نے سکندراعظم سے لے کر انگریز بہادر کی حکومت تک مزاحمت‘ جدوجہد اور بہادری کی داستانیں رقم کیں‘ مگر چند گدی نشینوں‘ متولیوں‘ سرداروں اور خان بہادروں نے اس ساری مزاحمت اور قربانیوں پر پانی پھیر کر جاگیریں حاصل کیں۔ تھوڑے سے مراعات یافتہ لوگوں نے ہزاروں قربانیوں کا عوضانہ وصول کیا۔ ابھی دیار غیر میں اور اپنی لائبریری سے دور ہوں۔ ملتان جا کر ایک خط دوبارہ کالم کی زینت بنائوں گا‘ جس میں علاقے کے سارے مخدوموں‘ خان بہادروں‘ نوابوں اور گدی نشینوں کے دستخط موجود ہیں۔ یہ خط نہ قریشیوں نے گیلانیوں کو غدار ثابت کرنے اور نہ گیلانیوں نے قریشیوں کو غدار ثابت کرنے کے لیے لکھوایا۔ ہر دو فریقوں نے ایک ہی خط پر ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر جوش و جذبے سے دستخط کیے۔ اس خط کی اشاعت کے بعد برادر عزیز یہ نہیں کہہ سکے گا کہ میں گیلانیوں اور قریشیوں کی اپنی اپنی مرتب کردہ تاریخ سے حوالے دے کر ملتان اور سرائیکیوں سے نفرت کا مرتکب ہو رہا ہوں۔ ویسے اگر ایسی کتابوں سے حوالہ دینا ملتان سے نفرت کا ثبوت ہے تو جن لوگوں نے یعنی گیلانیوں اور قریشیوں نے یہ کتابیں لکھوائیں ان کے بارے میں برادرم کا کیا خیال ہے؟ لکھنے والے بری الذمہ اور حوالے دینے والا ملتان اور سرائیکیوں سے نفرت کا مجرم! 

گزشتہ چار سطریں تو جملہ معترضہ تھیں۔ الحمد للہ اس عاجز نے نہ تو ایسی کتابوں سے کوئی حوالہ دیا ہے اور نہ ہی ایسی کتابوں کا کوئی وجود ہے۔ برادر عزیز نے محض سنی سنائی کو کالم کی زینت بنا دیا۔ میری معترض سے گزارش ہے کہ وہ ملتان کے سارے گدی نشینوں اور مخدوموں کی مدعیت میں میرے خلاف عدالت میں بطور گواہ اپنی بیان کردہ ساری کتابیں لے آئیں‘ میں اس علاقے کے ڈپٹی کمشنروں کے (جو گورے تھے) لکھے ہوئے ضلعی گزیٹیئرز، یادداشتیں اور سب سے بڑھ کر سابق چیف سیکرٹری پنجاب سرلیپل ہنری گریفن کی تحریریں لائوں گا‘ تب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ سب کو پتا چلنا چاہیے کہ میں تاریخی بددیانتی کا مرتکب ہورہا ہوں یا شاکر حسین شاکر کی دکان پر بیٹھ کر سچائی کا دریا بہایا جارہا ہے۔
میں ملتان میں پیدا ہونے پر تو کسی داد و تحسین کا طالب نہیں کہ یہ میری پسند و ناپسند سے بالاتر معاملہ تھا مگر ملتان رہنا میری اپنی مرضی کا معاملہ ہے۔ جب دیار غیر میں رہنے والے ہم پاکستانیوں کو حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ اور اسلام آباد میں رہنے والے سرائیکی وسیب کے رہنے والوں کے بارے میں وفاداری کے فتوے جاری کرتے ہیں تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ کیا عجب معاملہ آن پڑا ہے کہ میرے جیسے جدی پشتی ملتانی کو جس کا ملتان کے علاوہ تو کہیں گھر ہے اور نہ پلاٹ‘ اب ملتان سے وفاداری اور محبت کا ثبوت ان لوگوں سے لینا پڑرہا ہے جن کی مادری زبان سرائیکی ہے لیکن پلاٹ اسلام آباد میں۔
آخر میں‘ میں اپنی ایک ایسی کوتاہی کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں جو مجھ سے قطعاً قصداً سرزد نہیں ہوئی۔ اس لیے میں برادر عزیز رئوف کلاسرہ کے طعنوں سے تنگ آکر بھی اس کا مداوا نہیں کرسکتا۔ ساڑھے پانچ عشرے قبل جب میں پنجابیوں کے گھر پیدا ہوا تو یہ واقعہ مرضی و منشا پوچھے بغیر وقوع پذیر ہوا تھا۔ میں حلفاً کہتا ہوں کہ اس معاملے میں مجھ سے مشورہ تک نہیں کیاگیا تھا۔ لیکن اب کیا ہوسکتا ہے؟ مادری زبان انسان کی اوقات تو ہے نہیں کہ وقت اور پیسے سے بدل جائے۔ برادر عزیز معذرت۔ مجبوری ایسی آن پڑی ہے جو اس عاجز کے بس سے باہر ہے۔
(نوٹ: جناب خالد مسعود خان نے اپنے کالم کا اختتام ان الفاظ میں کیا ہے: ''یہ اس سلسلے کا پہلا اور آخری کالم ہے۔ دوستوں سے جواب در جواب کے معاملے کا میں سرے سے قائل ہی نہیں‘‘ ادارہ ان کے اس مؤقف سے متفق ہے) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved