تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     15-10-2014

ایک حقیقت

10اکتوبر کو حج بیت اللہ کی سعادت اور مدینہ طیبہ کی زیارت کے شرف سے بہرہ ور ہونے کے بعد ڈسکہ کے بعض دوستوں سے وعدہ نبھانے کی خاطر میں مدینہ منورہ سے سیالکوٹ کے لیے روانہ ہوا۔گلف ایئر کی فلائٹ دوپہر کو مدینہ طیبہ سے بحرین پہنچی ۔ 11گھنٹوں بعد بحرین سے اسلام آباد کے لیے روانگی تھی۔ ایئر پورٹ پر اتنے لمبے وقت کے لیے قیام کرنا بہت مشکل نظر آ رہا تھا ۔ میں دل ہی دل میں اپنے رب سے دعا مانگ رہاتھا کہ ایئر پورٹ سے باہر نکلنے کا بندوبست کر دے تاکہ وقت باآسانی گزر جائے ۔
ایئرپورٹ پر اتر کرمیں ٹرانزٹ کاؤنٹر ز کی طرف بڑھا جہاں ایئرلائن کا عملہ مسافروں کی رہنمائی کے لیے موجود تھا ۔ معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ ایئرپورٹ پر لنچ اور ڈنر کا انتظام تو ہے لیکن قیام کی سہولت نہیں ۔میں نے عملے سے کہا کہ میں قیام کے لیے پیسوں کی ادائیگی پرتیار ہوں جس پر عملے نے میری رہنمائی آخری کاؤنٹر کی طرف کی ۔میں آخری کاؤنٹر پر پہنچا اور ہوٹل کے نرخوں کے بارے میں استفسار کیا ۔کاؤنٹر پر موجودشخص انتہائی بااخلاق تھا ۔ اس نے میرے مُنڈے سر کو دیکھ کر پوچھا : کیا آپ حج کر کے آئے ہیں ؟میں نے جب اثبات میں جواب دیا تو اس نے کمپیوٹرکے کی بورڈ پرکلک کیااور پرنٹر سے منامہ میں واقع ایک ہوٹل کی رہائش، دوپہراور رات کے کھانے کے فری ووچر زنکال کر میرے ہاتھ میں تھما دیے ۔میں اللہ کی عنایت پر بڑا شکر گزار تھا کہ سفر کی تھکاوٹ اور اکتاہٹ کے کم ہونے کے آثار نظر آرہے تھے ۔
فری ووچرزہاتھ میں تھامے ، امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچا اور پاسپورٹ پر ٹرانزٹ ویزے کی مہر لگوا کر ائیر پورٹ کے بیرونی راستے پر واقع گلف ایئرکے کاؤنٹر پر جا پہنچا ،جہاں ہوٹل کا ڈرائیورمیرا منتظر تھا ۔ہوٹل پہنچ کر سونے کا موقع تو نہ مل سکا لیکن نمازوں کی ادائیگی اور کھانا کھانے کا اچھا موقع میسر آگیا ۔میں کھانے کے دوران اور ہوٹل کے بستر پر لیٹے اپنے سفر کی کیفیت پر غور کرنے میں مشغول رہا ۔زندگی کے گزرتے ہوئے لمحات اور ہر آن ماضی بن جانے والے واقعات میرے دماغ کی سکرین پر چل رہے تھے ۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ حج کے سفر کی طرح زندگی کا سفر بھی سمٹ رہا ہے۔ اسی سوچ بچار میں کئی گھنٹے گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ۔رات دس بجے ہوٹل کے استقبالیہ سے چیک آؤٹ کال موصول ہوئی ۔میں اپنا سامان تھامے کاؤنٹر پر پہنچ گیا۔ وہاں پر موجود سٹاف نے میر ا سامان گاڑی میں منتقل کیا اور میں دوبارہ ایئرپورٹ پر پہنچ گیا ۔پتہ چلا کہ فلائٹ دو گھنٹے لیٹ ہے ۔دو گھنٹے کایہ انتظارسابق گیارہ گھنٹوں سے بھی زیادہ کوفت اور تشویش کا باعث تھا ۔اس ذہنی اذیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے میں ایئرپورٹ کی مسجد جا پہنچا ۔وہاں پر بیٹھ کر امن و سکون حاصل ہوااور اس حقیقت کا ایک مرتبہ پھر ادراک ہواکہ جب تمام پناہ گاہوں کے دروازے بند ہو جاتے ہیں تو خالق ومالک کے گھرکا دروازہ پھر بھی کھلا رہتا ہے۔مسجد کے پر سکون اور روح پرور ماحول میں دوگھنٹے باآسانی گزر گئے اور یوں محسوس ہوا کہ ایئرپورٹ آمد کے تھوڑی دیر بعد ہی اسلام آباد روانگی کا اعلان ہو چکا ہے۔
رات تین بجے بحرین کے شہر مخرک سے روانہ ہونے والی پرواز تین گھنٹے بعد اسلام آباد ایئرپورٹ پر پہنچ چکی تھی ۔مقامی وقت سعودی عرب اور بحرین سے دو گھنٹے آگے تھا ۔آٹھ بجے صبح اسلام آباد ائیر پورٹ پر اترنے کے بعد تھکاوٹ کا شدید احساس ہو رہا تھا ۔ایئرپورٹ پر امیگریشن کے تقاضے پورے کرتے اور سامان اُٹھاتے اُٹھاتے تقریبا ً پون گھنٹہ لگ چکا تھا۔باہر آیا تو سیالکوٹ کے ساتھی استقبال کے لیے موجود تھے جنہوں نے مجھے چند گھنٹوں میں سیالکوٹ میں واقع اپنے قریبی عزیز شیخ عدنا ن صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچا دیا،جہاں پر چند گھنٹے گزارنے کے بعد میں نے رات ڈسکہ میں حسب وعدہ کانفرنس میں شرکت کی اور بالآخر صبح کے قریب اپنے گھر پہنچ گیا ۔
حج کا سفر اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا اور میں یہ احساس لیے اپنے گھر میں موجود تھا کہ جس طرح حج کا سفر مکمل ہو چکا ہے اسی طرح جلد یا بدیرزندگی کا سفر بھی مکمل ہوجائے گا ۔زندگی کی ناپائداری کا احساس نجانے کیوں مجھے مضطرب کیے ہوئے تھا ۔میں نے ان سوچوں کو دل و دماغ سے دور کرنے کی کوشش کی اور معمول کے کاموں پر غوروخوض شروع ہو گیا ۔
اگلے دن کا آغازنئی امید اور جذبے سے ہو چکا تھا اور زندگی کی سرگرمیوں میں واپس آنے کے لیے میں خود کو آمادہ اور تیار کر رہا تھا ۔مجھے معلوم تھا کہ ایک دو دن آرام کرنے کے بعد زندگی پرانی نہج پر آجائے گی۔ اس لیے میں آرام کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ پروگرامو ں پر غوروخوض کرنے میں مشغول تھا۔ شام ڈھلنے کے بعد اچانک ایک فون کال نے مجھے ہلا کے رکھ دیا۔ موبائل فون پر میرے بچپن کے دوست عمر فاروق منان تھے۔ ان کے لہجے کا ٹھہراؤ کسی حادثے کی خبر دے رہا تھا ۔حال چال دریافت کرنے کے بعد انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے مشترکہ دوست انجینئر محمد عمران کے والد کا انتقال ہو گیا ہے اور خود انجینئر محمد عمران چین میںہیں ۔
انجینئرمحمد عمران سے میر ے تعلقات کئی عشروں پر محیط ہیں ۔ ہم نے ایک ہی سکول سے میٹرک کیااور بعدا زاں بھی ہمیشہ رابطے میں رہے ۔محمدعمران کے والد انتہائی زندہ دل انسان تھے ۔مجھے ستائیس برس قبل کے وہ مناظر یاد آگئے ، جب والد مرحوم علامہ احسان الہٰی ظہیرؒ کے انتقال پروہ اپنے بیٹے یعنی میرے دوست کے ہمراہ مجھ سے تعزیت کرنے کے لیے میر ے گھر تشریف لائے۔ میں اُس وقت انتہائی مغموم تھا۔ 15برس کی عمر میں والد کی جدائی میرے لیے ناقابل برداشت سانحہ تھی ،جس کے اثرات تادیر میری زندگی پر رہے۔ انہوں نے اس موقع پر میری بہت زیادہ ہمت بندھائی اور اس صدمے میں محمد عمران اور ان کا گھرانہ میرے دکھ سکھ میں برابر شریک رہا ۔ انجینئر محمد عمران کے والد کے انتقال کی خبر نے زندگی کی ناپائداری کا احساس دوبارہ اجاگر کر دیا تھا ۔
محمدعمران پاکستان واپس آنے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے تھے ۔ایک باعمل نوجوان ہونے کی حیثیت سے ان کی یہ دلی خواہش تھی کہ اپنے والدمرحوم کا جنازہ خود پڑھائیں لیکن انسان کے ارادے اور تمنائیںکئی مرتبہ تقدیر کے فیصلو ں کے مقابلے میں غیر مؤثر ہو جاتی ہیں ۔انہوں نے چین سے مجھے یہ پیغام بھی دیا کہ جنازے پر نہ پہنچنے کی صورت میں ان کے والد کا جنازہ میں پڑھاؤں ۔میںنے ایک دیرینہ رفیق کی خواہش کو اپنے لیے حکم جانا اور اگلے دن ان کے جنازے اور تدفین میں اپنے بیٹے اور رفقا کے ہمراہ شامل ہو گیا ۔
حج کے سفرکے مکمل ہونے کے ساتھ ہی ایک قریبی ساتھی کے والد کا انتقال اس احساس کی شدت میں اضافہ کر رہا تھا کہ زندگی کی شمع بھی پھڑ پھڑا رہی ہے ۔چراغ حیات کو گل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔انسان زندہ رہنا چاہتا ہے ۔اچھی زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد اور محنت بھی کرتا ہے ،لیکن وہ اس حقیقت کو عام طور پر فراموش کر دیتاہے کہ زندگی فانی ہے اور ایک دن اس نے دنیا کو خیر باد کہہ کے اپنے حقیقی گھر قبر میں چلے جانا ہے ۔
بڑے بڑے حکمرانوں، دانشوروں، علماء ،اولیاء ،فاتحین اور یہاں تک کہ انبیاء کو بھی اس دارفانی کو خیرباد کہہ کے اپنے پروردگار کی طرف لوٹناپڑا ۔دنیا سے رخصت ہونا اورقبر میں اترنا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ ہر رہائشی کالونی اور آبادی میں بنائے جانے والے قبرستا ن انسانوں کی عارضی زندگی کی حقیقت کو واضح کر رہے ہیں لیکن انسان کی کوتاہ بینی ہے کہ وہ ہر روز انسانوں کو مرتا دیکھ کربھی خود کو لا فانی سمجھ رہا ہے۔ اوروں کے جنازوں کو جاتا دیکھ کر بھی موت کے احساس سے عاری یہ انسان اس قدر غفلت کا شکار ہے کہ سمجھتا ہے اس کا جنازہ کبھی نہیں اُٹھایا جائے گا ۔اے کاش کہ انسان زندگانی کی حقیقت کو صحیح طریقے سے سمجھ کر اپنی حقیقی منزل کا تعین کرنے میں کامیاب ہوجائے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved