تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     15-10-2014

خواب‘ انقلاب اور عذاب

کل ایک انگریزی روزنامے میں تصویر دیکھی۔ عوامی تحریک کے مایوس کارکن اپنے خیمے سمیٹ کر ٹرک میں لوڈ کر رہے تھے۔ بوسیدہ سے کپڑے‘ بکھرے ہوئے بالوں والے یہ کارکن ان ہزاروں افراد میں سے تھے جو گزشتہ ڈیڑھ مہینے سے شاہراہِ دستور پر دھرنا دیئے بیٹھے رہے۔ انقلاب کے نام پر جو دھرنا دیا گیا تھا، فی الحال ختم ہو چکا ہے۔ انقلاب کی آمد کی تاریخیں دینے والے انقلابی ڈاکٹر طاہرالقادری فیصل آباد جلسے کے لیے روانہ ہو چکے تھے اور ساتھ ہی ایک اعلان یہ بھی فرما گئے کہ اب عوامی تحریک شہر شہر جلسے کرے گی۔ یہ اعلان ہی علامہ طاہرالقادری کی جانب سے دھرنے کا غیراعلانیہ اختتام تھا ۔اس کے ساتھ ہی دھرنے والوں کا شاہراہِ دستور پر بیٹھے رہنے کا جواز ختم ہو گیا تھا۔ 
یہ تصویر جو اخبار میں چھپی تھی، اس میں بظاہر تو چند کارکن ہی نظر آ رہے تھے‘ جن کے چہرے مایوسی سے دھواں دھواں تھے، مگر اس تصویر کے فریم سے باہر ،میں اس خلقِ خدا کو دیکھ سکتی تھی جو کم و بیش پچاس دنوں سے اپنے کاروبار اور ذمہ داریوں کو چھوڑ کر انقلاب کی آس میں یہاں بیٹھے رہے۔ انہیں بشارت دی گئی تھی کہ انقلاب ان کی زندگیوں پر دستک دینے والا ہے۔ بس چند روز اور ہیں۔ اگلے ہفتے انقلاب کی آمد متوقع ہے۔ بس یہ جو آئندہ بدھ ہے‘ انقلاب کی صبح طلوع ہوگی۔ بس یہ چڑھتے مہینے کے پہلے اتوار کو ایک انقلابی دور شروع ہو جائے گا۔ تاریخوں پر تاریخیں دی گئیں۔ ڈیڈ لائن کے بعد‘ ایک اور ڈیڈ لائن... پھر ایک اور ڈیڈ لائن... مگر یہ ڈیڈلائن‘ عوام کے لیے کسی ''لائف لائن‘‘ میں نہ بدل سکی، سو تھکن زدہ چہروں پر پژمردگی چھانے لگی۔ انقلاب کی خواہش رکھنے والوں کے اس ہجوم میں بھولا بھی شامل تھا۔ وہ بارش‘ آندھی‘ طوفان‘ گیس شیلنگ‘ لاٹھی چارج‘ غرض ہر مشکل میں‘ بڑی استقامت کے ساتھ انقلاب کی دہلیز پر بیٹھا رہا کہ ایک روشن صبح ضرور طلوع ہوگی۔ وہ اپنے گھروالوں سے کہہ آیا تھا کہ وہ انقلاب کی آمد تک گھر نہیں آئے گا۔ منٹو کے افسانے 'نیا قانون ‘ کے کردار منگو کوچوان کی طرح‘ بھولے کو بھی حالات کی حتمی تبدیلی کا یقین ہو چلا تھا اور وہ بھی منگو کوچوان کی طرح سوچنے لگا تھا کہ بس انقلاب آتے ہی نیا قانون ملک میں نافذ ہو جائے گا جس کے بعد اس کے دن پھر جائیں گے۔ مہنگائی ختم ہوگی‘ بجلی سستی ہوگی‘ محنت کے مطابق دیہاڑی ملے گی اور زندگی جنت کا نمونہ بن جائے گی۔ مگر اب اچانک میلے کی بتیاں بجھ گئیں ‘ قناتیں اُتر گئیں‘ خیمے سمٹ گئے اور لیڈر انقلاب لائے بغیر رخصت ہو چکے تھے۔ اس صورت حال میں بھولا پریشان تھا کہ کیا کرے۔ خیر، بھولے کی قسمت میں تو پریشان ہونا ہی لکھا ہے۔ بھولا ایک علامت ہے پاکستان کی اس اکثریت کی جسے سیاسی اشرافیہ عوام کہہ کر مخاطب کرتی ہے ۔ جس کے نام پر ووٹ لیے جاتے ہیں‘ جس کی خواہشوں اور آدرشوں کے لاشوں پر اس جمہوریت کے محل تعمیر کیے جاتے ہیں جو صرف اشرافیہ کے مفاد کی محافظ ہے۔ 
عوامی تحریک نے بھی تحریکِ انصاف کی طرح شہر شہر جلسوں کا اعلان کر کے دھرنے ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ عملاً دھرنے ختم ہو چکے ہیں، اگرچہ عمران خان اور ڈاکٹرطاہرالقادری اب بھی اپنے بیانات میں دھرنے جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ دھرنوں کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں شاہراہِ دستور پرمزید بیٹھے رہنے کی توانائی اور جذبہ موجود نہیں ہے، اس لیے کہ دھرنے سے وزیراعظم کا استعفیٰ لینے کا مقصد پورا نہیں ہوا۔ کلائمکس گزر چکا ہے، اسی لیے دونوں جماعتوں کی قیادت نے دھرنے چھوڑ کر جلسے کرنے کی صورت میں اپنے لیے فیس سیونگ کا ایک بہتر راستہ نکالا ہے۔ مگر سوال پھر عوام کا ہے جو اپنے کاروبار چھوڑ کر ہفتوں احتجاجی دھرنوں میں بیٹھے رہے‘ انہیں کیا حاصل ہوا؟ وہ لوگ جو
31 اگست کی شام‘ حکومتی مشینری کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہوئے‘ زخمی ہوئے‘ وہ کارکن جن کی پکڑ دھکڑ ہوئی‘ ان کی زندگیوں کے مسائل تو وہیں کے وہیں رہے۔ ملتان کے جلسے میں بھی بدنظمی سے تحریکِ انصاف کے سات کارکن جاں بحق ہو گئے۔ اس سانحے پر بھی تحریکِ انصاف اور ن لیگ کے سیاسی رہنمائوں میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہوتی رہی۔ مرنے والوں کے گھروں میں ہمیشہ کے لیے جدائی کے دُکھ اُتر گئے، مگر سیاسی رہنمائوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ ملتان کے جلسے میں ضلعی انتظامیہ کی غفلت کے ساتھ پی ٹی آئی کی قیادت کی کوتاہیاں بھی نظر آتی ہیں جو لاکھوں لوگوں کا جلسہ کرنے کا شوق تو رکھتے ہیں مگر آج تک اپنے جلسوں کے انتظامی امور کو بہتر اور منظم نہیں کر سکے، یہاں تک کہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان اس بدترین بدنظمی کی وجہ سے ایک جلسے میں لفٹ سے گِرکر بال بال بچ چکے ہیں۔ 
اس وقت پاکستان کے سیاسی حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن،دونوں کے ہاتھوں استحصال عوام ہی کا ہو رہا ہے۔ دھرنوں اور جلسوں کے احتجاجی ماحول میں حکومت صرف اپنا آپ بچانے میں لگی ہے۔ اپنے قریبی رشتہ داروں کو حکومت کے اہم ترین عہدوں پر فائز کر کے میاں نوازشریف کو ہر طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔ عوام سے جو وعدے ن لیگ کی قیادت نے الیکشن مہم میں کیے‘ وہ وعدے اور دعوے اب طاق نسیاں پر دھرے ہیں۔ عوامی مسائل میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے‘ مہنگائی سے غریب کی
زندگی ایک سزا بن چکی ہے۔ ن لیگ کے لیے سافٹ کارنر رکھنے والے بھی اس طرزِ حکمرانی پر شکوہ کناں ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن کی جماعتیں مہنگائی اور ہر طرح کے مسائل سے عاجز آتے ہوئے عوام کو کبھی انقلاب کی بشارتیں دیتی ہیں تو کبھی تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوام کے جذبات کو بھڑکاتی ہیں۔ لوگ امیدوں کی فصل بوتے ہیں‘ اسے اپنی تمنائوں سے سیراب کرتے ہیں‘ اپنی آنکھوں کو ایک نئے پاکستان کے خواب سے آباد کرتے ہیں اور اس خواہش کی سرشاری میں کھلے آسمان تلے‘ کبھی کڑی دھوپ‘ کبھی تیز بارش میں‘ دھرنا دیئے بیٹھے رہتے ہیں۔ اس امید پر کہ روشن صبح بس طلوع ہونے ہی والی ہے۔ سیاسی رہنما‘ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری... عوام میں ظلم اور ناانصافی کے خلاف شعور ضرور بیدار کریں لیکن خدا کے لیے ان معصوم لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا جرم نہ کریں جو آپ کو اپنا مسیحا سمجھ کر اس وقت اپنے جسموں پر گولیاں کھاتے ہیں‘ لاٹھیاں برداشت کرتے ہیں ،جس وقت آپ اپنے بلٹ پروف محفوظ کنٹینروں میں چھپے ہوتے ہیں۔ منیر نیازی نے بہت پہلے اس استحصال زدہ عوام کا دکھ اس طرح بیان کیا تھا : 
مری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا 
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا 
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا 
پھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اس نے کیا 
شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیرؔ 
شہر میں یہ ظلم مرے نام پر اس نے کیا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved