وزیراعظم کی سربراہی میں‘ امورخارجہ چلانے والی ٹیم نے‘ خوب سوچ بچار کے بعدجناب سرتاج عزیز سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو ‘بڑے اہتمام سے ایک مراسلہ لکھوایا۔ جس میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کی شکایت لگا کر کہا گیا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں۔ توقع کے عین مطابق ان کا ترنت جواب آیا''پاکستان اور بھارت‘ تمام تنازعات مذاکرات سے حل کریں۔‘‘ میرے جیسے معمولی سدھ بدھ رکھنے والے انسان کو بھی ‘ پتہ تھا کہ یہی جواب آئے گا۔ خارجہ امور کے دو کہنہ مشق مشیروںکو‘ اس کا اندازہ کیوں نہیں تھا؟ وزیر اعظم نے کس توقع کے ساتھ یہ خط لکھنے کی منظوری دی؟ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ اقوام متحدہ‘ تنازعہ کشمیر سے عرصہ پہلے کنارہ کشی کر چکی ہے؟ اور ہم بھی عشروں پہلے بھارت کے ساتھ ایک سے زیادہ معاہدے کر چکے ہیںکہ کشمیر سمیت تمام متنازعہ امور ہم باہمی مذاکرات سے طے کریں گے۔ معاہدہ تاشقند اور معاہدہ شملہ سمیت‘ اس حقیقت کی تصدیق کرنے والی دستاویزات‘ یعنی معاہدوں کے مسودے‘ سیکرٹری جنرل کے دفتر میں جمع ہو چکے ہیں اور ان کی بنیاد پر اقوام متحدہ طے کر چکی ہے کہ وہ تنازعہ کشمیر میں مداخلت نہیں کرے گی۔ یہ بات سیاست کے معمولی طالب علم بھی جانتے ہیں۔ خارجہ امور کو چلانے والی ٹیم بھی اچھی طرح جانتی ہے۔ پھر اس نے یہ مراسلہ لکھ کرکس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی؟ دنیا کاکوئی دوسرا ملک یا اہل الرائے‘ ہمارے حکمرانوں کے جھانسے میں آنے کو تیار نہیں۔ جھانسے میں پاکستانی عوام بھی نہیں آتے۔ حکمران بار بار ہم پر طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔
اس بار یو این کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھنے کا مطلب کوئی اور ہی نہ ہو۔ تنازعہ کشمیر ابھی تک کاغذوں میں اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ جب تک یہ موجود رہے گا‘ ہمارے پاس ایک دلیل باقی رہے گی کہ بھارت نے باہمی مذاکرات میں غیرمعقول رویہ اختیار کیا‘ تو ہم یواین میں جا کر یہ معاملہ دوبارہ اٹھائیں گے۔ فی الحال تو اس میں کامیابی کی امید نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی شرارتی نے یہ مشورہ دے دیا کہ پاکستان کی بار بار کی دھمکیوںکو ایک بار آزما ہی لیا جائے‘ تو یہ اندازہ کرنے میں کوئی دشواری یا ابہام نہیں ہے کہ ہم عالمی ادارے کے ریکارڈ میں پڑی ہوئی اس دستاویز کو‘ زندہ کرنے کی کوشش میں‘ہاتھ ہی نہ دھو بیٹھیں؟ اقوام متحدہ اپنے ایجنڈے کے اس آئٹم پر بحث کرا کے‘ ووٹ آئوٹ کر دے اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں؟ اگر آج بحث کرا دی گئی‘ تو ہمارے حق میں ووٹ کون دے گا؟ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ایک بار جنرل پرویزمشرف کے دبائو پر‘ ان کے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے‘ اس امکان کا جائزہ لیا تھا کہ اقوام متحدہ تنازعہ کشمیر کے حل میں کتنی مددگار ہو سکتی ہے؟ جب وزیرخارجہ نے‘ دوست ملکوں کے مندوبین سے تبادلہ خیال کیا‘ تو سب نے یہی مشورہ دیا کہ'' اس معاملے کو پھر سے اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔ دوسروں کو تو چھوڑیئے‘ ہم بھی آپ کا ساتھ نہیں دے پائیں گے۔‘‘ ہمارے جن دوستوں نے یہ مشورہ دیا‘ انہیں جان کر قارئین کے دل ٹوٹ جائیں گے۔ میں نہیں
چاہتا کہ بار بار صدموں سے دوچار ہونے والی میری قوم کو‘ ایک اور صدمے سے بھی دوچار ہونا پڑے۔ مگر لگتا ہے کہ ہمارے حکمران یہ معرکہ بھی انجام دے کر ہی ٹلیں گے۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر‘ جس قسم کے اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ ان کی روشنی میں تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے حکمران خود ہی‘ بھارتی وزیراعظم مودی کو آموں اور ساڑھیوں سے بڑھ کر کوئی تحفہ دینے کے موڈ میں ہیں۔ مودی کے لئے اس سے بہتر تحفہ کیا ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ ‘ کشمیر کا معاملہ سلامتی کونسل میں پیش کر دے اور کونسل ‘ چین کی غیرحاضری میں‘ اتفاق رائے سے یہ فیصلہ سنا دے کہ اس تنازعے کو باہمی طور سے حل کرنے کے لئے‘ دونوں معزز اراکین متعدد معاہدے کر چکے ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ اقوام متحدہ اس میں مداخلت سے گریز کرے اور ساتھ ہی یہ معاملہ ایجنڈے سے باقاعدہ خارج کر دیا جائے۔ عملی طور پر یہ ہو چکا ہے۔ صرف رسومات باقی ہیں۔ ہم چاہیں تو اچھے دنوں کے انتظار میں‘ اس پوزیشن کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ہماری ہمیشہ یہ حالت نہیں رہے گی۔ وقت بدلتا رہتا ہے۔ بھارت بھی ان گنت مسائل سے دوچار ہے۔ اس پر بھی مشکلات آ سکتی ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر پھر زور پکڑ سکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے کافی زور پکڑ لیا تھا۔ 90ء کے عشرے میں بھارتی عوام اور میڈیا میں یہ شور اٹھنے لگا تھا کہ تنازعہ کشمیر کا قابل عمل حل نکال کر‘ اسے ہمیشہ کے لئے طے کر دیا جائے۔ اٹل بہاری واجپائی یہی خواہش لے کر لاہور آئے تھے۔ ان کی یہ خواہش پوری کرنے کی ابتدائی تیاریاں بھی ہو گئی تھیں۔ جن کے مطابق تنازعہ کشمیر کو بیس پچیس سال کے لئے منجمد کیا جانا تھا۔ دونوں طرف کے کشمیریوں کو داخلی خود مختاری دی جانا تھی۔ کشمیر کے دونوں حصوں میں مقامی آبادی کو آزادانہ نقل و حرکت اور باہمی تجارت کی آزادی ملنا تھی۔ ان کے دفاع اور خارجہ پالیسی کی ذمہ داری پاکستان اور بھارت دونوں کو مشترکہ طور سے اٹھانا تھی۔ ریاست میں دونوں ملکوں کی کرنسی چلنا تھی۔ اس انتظام کو بیس یا پچیس برس تک آزمایا جانا تھا۔ ضرورت پڑنے پر اس مدت میں توسیع ممکن تھی اور طویل عرصے کے بعد جب کشمیری ‘ پاکستان اور بھارت ‘تینوںاس پر اتفاق رائے کر لیتے کہ اب تنازعہ حل کرنے کا وقت آ گیا ہے‘ تو معمولی سے انتظامی ردوبدل کے ساتھ‘ اس حل کو مستقل کر دیا جانا تھا۔ اوپر درج کئے گئے خاکے میں مزید رنگ بھرنے کے لئے پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات ہونا تھے۔ جن میں جزئیات طے کر کے ‘ ایک مکمل اور جامع مسودہ تیار کیا جاتا اور تینوں فریقوں کی منظوری سے کشمیریوں کو داخلی آزادی و خود مختاری دے کر‘ اپنی قسمت کا خود مالک بنا دیا
جاتا۔ پاکستان اور بھارت دونوں میں کشمیریوں کو آمدورفت کی آزادی مل جاتی۔ ان کے بچے جہاں چاہتے تعلیم حاصل کرتے۔ کشمیریوں کو دونوں ملکوں میں سے کسی ایک کا پاسپورٹ حاصل کرنے کی آزادی مل جاتی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان فساد کی واحد جڑ یعنی تنازعہ کشمیر کا وجود ہی نہ رہتا اور ہم امن کی فضا میں خوشحالی کا سفر شروع کر لیتے۔ لیکن کارگل پر مہم جوئی کر کے ہم نے وہ سارا ماحول ہی ختم کر دیا۔ دونوں ملکوں میں نفرت اور عناد کے شعلے پھر بھڑک اٹھے۔ بھارت پر چونکہ حملہ ہوا تھا اور اس کے فوجیوں کی لاشیں پورے ملک میں جانے لگی تھیں۔ وہاں شہر شہر صف ماتم بچھ گئی ۔ انتقام انتقام کے نعرے لگنے لگے۔ بھارتی حکومت کے لئے امن مذاکرات جاری رکھنا ممکن ہی نہ رہا۔ کشمیریوں کی جنگ آزادی کو عالمی رائے عامہ اور خود بھارت میں جو ہمدردیاں حاصل ہونے لگی تھیں اور جن کی وجہ سے بھارتی حکمران دبائو میں آ رہے تھے‘ وہ سب کچھ دیکھتے ہی دیکھتے لاتعلقی اور بیگانگی میں بدل گیا۔ فتح کے قریب پہنچی ہوئی کشمیریوں کی تحریک آزادی‘ پس منظر میں چلی گئی۔ اس کے بعد پاکستان اور بھارت دونوں کی حکومتوں نے بہت کوشش کی کہ اعلان لاہور کا ماحول بحال ہو جائے۔ مگر کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
آج مظلوم کشمیریوں کی جنگ آزادی کی حمایت میں بہت کمی آ چکی ہے۔ بھارت مجاہدین آزادی کو دہشت گردی کا مرتکب قرار دے کر‘ دنیا کو اپنا ہم خیال بنانے میں بڑی حد تک کامیاب رہا ہے۔ مودی حکومت جو انتہاپسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کے زیراثر ہے‘ اپنے دور حکومت میں کشمیریوں پر یکطرفہ حل مسلط کرنے پر بضد ہے۔ اگر اس وقت ہم کچھ کر سکتے ہیں توکر گزرنا چاہیے۔ موقع ہے‘ ہم عالمی رائے عامہ کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیں کہ بھارت‘ کشمیریوں کی آزادی سلب کرنے پر تل گیا ہے۔ وہ یکطرفہ طور سے اس متنازعہ ریاست پر اپنے ناجائز قبضے کوآئینی تحفظ دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ دنیا بھر کی قوموں کا فرض ہے کہ وہ مظلوم کشمیریوں کی آزادی اور خودمختاری ہڑپ کرنے کی اس بھارتی کوشش کی مزاحمت کریں۔ اگر ہماری حکومت کی بات میں کوئی اثر رہ گیا ہے اور ہمارے اندر دنیا تک کشمیریوں کی آواز پہنچانے کی اہلیت باقی ہے‘ تو ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر‘ ہمیں اس مہم کا آغاز کر دینا چاہیے۔ اگر ہماری خارجہ پالیسی اسی انداز میں چلائی جاتی رہی‘ جیسی پچھلے ڈیڑھ سال سے چلائی جا رہی ہے‘ تو مودی حکومت‘ آسانی سے اپنے ایجنڈے پر عمل کر گزرے گی۔ اگر ہمارے حکمران واقعی مظلوم کشمیریوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں‘ تو کشمیر کے انضمام کی یہ بھارتی کوشش‘ یواین کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہو گی۔ ہم یہ شکایت لے کر یو این میں جانے کا حق رکھتے ہیں کہ بھارت اقوام متحدہ میں کئے گئے‘ وعدوں سے انحراف کر کے‘ کشمیریوں کا حق آزادی و خودمختاری سلب کرنے لگا ہے۔ مذاکرات کے وعدے سے منحرف ہو چکا ہے۔ ہم اپنے موقف کی تائید میں بے شمار شہادتیں پیش کر سکتے ہیں۔ جن کی بنیاد پر متعدد ممالک یہ معاملہ یو این میں زیربحث لانے کے لئے ہمارے تائید کنندہ بن سکتے ہیں۔ اگر یونہی بے مقصد خط لکھ کر پاکستانی عوام کو مزید دھوکے دینا ہیں‘ تو کوئی کیا کر سکتا ہے؟