تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     16-10-2014

یہاں تک تو پہنچے، یہاں تک تو آئے

بالآخر وزیراعظم میاں نوازشریف کا دل پسیج گیا، ارکان اسمبلی پر پیار آگیا۔ سال، سوا سال سے محروم التفات ارکان کو شرف باریابی بخشا اور میاں صاحب کے روبرو انہیں دل کی بات کہنے اور کچھ مانگنے کا حوصلہ ہوا۔ وزیراعظم نے ان کی بات نہ صرف توجہ سے سُنی بلکہ ایک آدھ عرض داشت قبول بھی کی ع 
یہ نصیب، اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی حسرت وصل مگر میاں صاحب کی مہربانی سے پوری ہوئی نہ ان ارکان کی کسی شعوری کوشش کا نتیجہ ہے۔ 2013ء سے ان بے چاروں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ یہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی مخالفانہ سیاسی مہم اور دھرنے کا کمال ہے کہ جن بے چاروں کو فواد حسن فواد اور ڈاکٹر توقیر شاہ وقت نہیں دیتے تھے‘ اسحق ڈار، نثار علی خان اور خواجہ آصف ہاتھ ملانا گوارا نہیں کرتے تھے‘ اب وہ وزیراعظم کے سامنے ٹانگ پر ٹانگ دھرے مطالبات کی فہرست پیش کر رہے ہیں اور ٹی وی فوٹیج دکھا کر مخالفین کے علاوہ گھر والوں پر رعب ڈالتے ہیں۔ 
چند ماہ پہلے تک صورتحال کیا تھی۔ وفاقی اور صوبائی کابینہ کے ارکان شکایت کرتے تھے کہ باس سے چند منٹ کی ملاقات مشکل‘ کوہ ہمالیہ سر کرنا آسان ہے۔ ایک دوست رکن اسمبلی نے بیان کیا کہ قومی اسمبلی میں بعض وزراء اس طرح داخل ہوتے ہیں جیسے پورے ملک کو انہوں نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور ان کے سامنے ارکان پارلیمنٹ یا انسان نہیں کیڑے مکوڑے بیٹھے ہیں۔ ایک رکن اسمبلی نے میاں صاحب کے پانچ پیاروں میں سے ایک وزیر کو درخواست پیش کی تو وزیر موصوف نے درخواست کی طرف دیکھے بغیر بری طرح دھتکار دیا۔ رکن اسمبلی نے حیل وحجت کی تو بولے ''جائو وزیراعظم سے میری شکایت لگا دو، کابینہ سے نکلوا دو، جب کہہ دیا کہ کنکشن نہیں مل سکتا تو نہیں مل سکتا۔‘‘ عوامی نمائندے کی آنکھیں چھلک پڑیں اور وہ توہین کے زخم سہلاتا، نشست پر جابیٹھا۔ شکایت کس سے لگاتا کوئی سننے والا نہ تھا۔
اب مگر مسلم لیگ (ن) کے کارکن اور ارکان اسمبلی خوش ہیں۔ وہ ہر دو تین ماہ بعد ایک لانگ مارچ اور دھرنے کی آرزو کرتے ہیں جن سے قائدین اور حکمرانوں کے دل نرم ہوتے ہیں اور آنکھوں میں مروت اُتر آتی ہے۔ گزشتہ روز بھی ارکان اسمبلی کے اس مطالبہ پر وزیراعظم نے ہمدردی سے غور کا وعدہ کیا کہ انہیں دو کروڑ روپے فی کس ترقیاتی فنڈز ریلیز کر دیئے جائیں گے جن کا اعلان وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کیا تھا مگر اُن کے دوسرے وعدوں کی طرح ایفا آج تک نہیں ہوا۔ ہر رکن اسمبلی کو پانچ ملازمتیں دینے کا وعدہ ہوا جو وہ اپنی مرضی سے چہیتوں میں بانٹ سکیں گے اور دیگر مطالبات پر غور کیا جائے گا۔
ارکان اسمبلی کے لئے پانچ ملازمتوں کا کوٹہ ''سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم‘‘ کے مترادف ہے۔ بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے وہ اس عنایت پر مطمئن نہیں مگر خوش ضرور ہیں کہ احتجاجی سیاست کے طفیل ان کی سنی گئی ؎
تجاہل، تغافل، تبسّم، تکلّم
یہاں تک تو پہنچے وہ مجبور ہو کر
یہ سلسلہ چل پڑا تو اقتدار کی جس گنگا میں حکمران خاندان کے قریبی لوگ اشنان کر رہے ہیں انہیں بھی چند ڈبکیاں لگانے کا موقع مل جائے گا۔ اربوں بلکہ کھربوں روپے کے میگاپراجیکٹس میں سے کمیشن اور کک بکس کی صورت میں انہیں بھی حصہ بقدر جثہ ملے گا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر بلدیاتی انتخابات کا گجربجا، اگلے سال مڈٹرم انتخابات کی راہ ہموار ہوئی تو حکمرانوں کی احتیاج بڑھے گی، ارکان اسمبلی پر انحصار میں اضافہ ہو گا اور ان کے وارے نیارے ہوں گے۔
ارکان اسمبلی کی اس خوشی میں ہم سب شریک ہیں، ان کی عزت نفس بحال ہوئی اور وزیراعظم، وزیراعلیٰ نے انہیں کسی قابل سمجھا، عوامی نمائندوں کی اس عزت افزائی پر عوام کو خوش ہونا چاہیے مگر انہیں ایک فکر ستائے جارہی ہے۔ عوام کو موجودہ حکمرانوں سے گلہ تھا کہ وہ اُن کے لئے کچھ نہیں کر رہے مگر اس بات پر مطمئن بھی تھے کہ ان کی طرح اسمبلیوں میں بیٹھے وڈیرے، لوٹے، لٹیرے بھی انگاروں پر لوٹ رہے ہیں اگرچہ انداز مختلف ہے لیکن ہماری طرح یہ بھی حکمرانوں سے شاکی ہیں اور انہیں بھی ہماری طرح سرکاری افسروں کی جھڑکیاں سننی پڑتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم اپنی تذلیل پر کڑھتے ہیں، غصے سے کھولتے ہیں، یہ بیوروکریٹس اور حکمرانوں کی طرف سے توہین کو بھی باعث اعزاز سمجھتے ہیں کہ کسی بہانے ان کی زبان پر ہمارا نام تو آیا ۔بقول شاعر ؎
ہونٹوں پہ کبھی اُن کے میرا نام ہی آئے 
آئے تو سہی، برسر الزام ہی آئے
لیکن یہ ملاقاتیں ارکان اسمبلی کی پزیرائی اور وزیراعظم کی خوش خلقی، بعض قنوطی اور یاسیت زدہ لوگوں سے ہضم نہیں ہو رہی۔ انہیں یہ اندیشہ ہائے دور دراز لاحق ہیں کہ یہ عادی فنڈخور اور ملازمت فروش عوامی نمائندے ایک بار پھر پرانی حرکتوں پر اُتر آئیں گے۔ سرکاری وسائل بالخصوص ترقیاتی فنڈز کی خردبرد اور سفارشی بھرتیوں کا کلچر دوبارہ فروغ پذیر ہوا تو تبدیلی کی رہی سہی اُمیدیں دم توڑ دیں گی اور حکمرانوں کا انداز ستم پھر جوبن پر ہو گا۔
ایک جاگیر دار نے میرزادے سے پوچھا سچ سچ بتائو ہم لوگ تمہیں کب اچھے لگتے ہیں جب خوشحال ہوں یا تنگ دست۔؟ میرزادہ بولا حضور! ہردولعنت۔ دونوں صورتوں میں زہر لگتے ہیں۔ جاگیردار بولا کیوں؟ اس لئے سرکار کہ آپ خوشحال ہوں تو ہماری بہو بیٹیوں کی خیر نہیں اور بدحال ہوں تو ہماری جمع پونجی پر ہاتھ صاف کرتے ہیں، البتہ جب آپ تھانہ کچہری کے چکر لگا رہے ہوں کسی دبائو کا شکار ہوں، پریشان تو ہماری جان بچی رہتی ہے۔ ان دنوں آپ اچھے بھی لگتے ہیں۔
حکومت دبائو کا شکار تھی تو پارلیمانی جماعتیں اور ارکان اسمبلی خورسند و مطمئن تھے کہ انہیں وزیراعظم کی زیارت بھی نصیب ہونے لگی تھی۔ ملاقاتیں بھی تسلسل سے ہوئیں اور ارکان اسمبلی کے مطالبات کی پزیرائی کا آغاز بھی ہوا۔ یہ دھرنوں کی برکت اور احتجاجی تحریک کا صدقہ ہے اور تو اور محمد اعجازالحق، آفتاب شیرپائو اور کئی دیگر کی شیروانیاں بھی سل گئی ہیں اور ماروی میمن مبارکبادیں وصول کررہی ہیں مگرجب سے دھرنا چوک میں ویرانی نے ڈیرے ڈالنے شروع کئے ہیں عوام کی پریشانی بڑھ گئی ہے۔
ارکان اسمبلی البتہ فی الحال مطمئن ہیں کہ وزیراعظم ان پر مہربان ہیں۔ وزیراعظم ہائوس کے اہلکار و افسر قدردان، یہ بہارجانفزا کتنے دنوں کیلئے ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ فی الحال تو حکومت کے حلیفوں اور وابستگان کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ ترقیاتی فنڈز،ملازمتوں کاکوٹہ اور خوشنما وعدے، سب سے بڑھ کر وزیراعظم کی مسکراہٹ اور تھپکی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved