اس قوم اور اس گروہ پر افسوس جو اپنی باگ ایک ہاتھ کو سونپ دے۔ چودھری سرور‘ چیف الیکشن کمشنر اور بلدیاتی الیکشن وزیراعظم کے لیے تین مزید چیلنج ہیں۔ تو یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا وہ ان سے عہدہ برآ ہو سکیں گے؟ مخمصے کا وہ شکار ہیں اور پایانِ کار نون لیگ کے مستقبل کا انحصار اس پر بھی ہے کہ وہ یکسوئی حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں۔ انسانی ذہن کے تین حصے ہیں‘ ان میں سے ایک کو جو ماتھے سے جڑا ہوتا ہے‘ "Forebrain"کہا جاتا ہے‘ اسی کو فیصلہ صادر کرنے والا دماغ"Decision making brain" اور "Executive brain" ذہنِ انتظامی بھی کہا جاتا ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا تھا: شوق میری سواری ہے اور شاعر نے یہ کہا تھا ؎
شوق ہو رہنما تو کوئی مشکل ہی نہیں
شوق مشکل سے مگر راہنما ہوتا ہے
سیدنا علی ابن طالبؓ کا ارشاد یہ ہے: مصیبت میں گھبراہٹ ایک اور مصیبت ہوتی ہے۔ ایسا نہیں کہ مشکلات میں ذہن کام کرنا چھوڑ دیتا ہو۔ بالکل برعکس غورو فکر کی شدت اس میں پیدا ہو جاتی ہے۔ آخر کار وہ ایک راہِ عمل تراش لیتا ہے۔ ان کے سوا‘ قدرت نے جس کے لیے سزا لکھ دی ہو۔ فرمایا: زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں‘ جسے ہم نے اس کے ماتھے سے تھام نہ رکھا ہو۔
پچھلے دنوں وزیراعظم نے کہا وہ گھر بیٹھنے والے نہیں۔ کہنا ان کا یہ تھا کہ اگر اپوزیشن (اور عدالت) مشکلات پیدا نہ کرتیں تو وہ کئی کارنامے انجام دے چکے ہوتے۔
''انوکھا لاڈلا‘ کھیلن کو مانگے چاند‘‘۔ میاں محمد نوازشریف کا مسئلہ وہی ہے جو تیسری دنیا کے اکثر حکمرانوں کو لاحق ہوتا ہے۔ بہت سوں کا المیہ یہی ہوتا ہے کہ بدلتے وقت کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرتے۔ اسی بنا پر پہلے دو ادوار میں وہ ناکام
رہے۔ کبھی وہ صدر غلام اسحق خان کو ذمہ دار ٹھہراتے اور کبھی فوجی قیادت کو۔ اس نکتے کو سمجھنے میں وہ ناکام رہے کہ مکمل آزادی نام کی کوئی چیز زندگی میں کبھی نہیں ہوتی۔ عظیم المرتبین کو بھی سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں۔ اگر نہ کریں تو ان کا انجام امیر المومنین ہارون الرشید کا سا ہوتا ہے‘ جنہوں نے برامکہ کو اول تمام آزادی بخشی اور پھر قتلِ عام کا حکم دیا۔ آخر آخر اپنے فرزندوں مامون الرشید اور امین کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا شکار تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صحت مند آدمی 45 سال کی عمر میں جان ہار گیا اور اس حال میں کہ خراسان میں اسے بغاوت کا سامنا تھا اور بری طرح وہ چڑچڑا ہو گیا تھا۔
زندگی کو قدرت نے اختلاف‘ تنوع اور کشمکش میں برپا کیا ہے اور د ائم وہ ایسی ہی رہے گی۔ تنگی کے ساتھ آسانی ہے اور آسانی کے ساتھ تنگی جڑی ہوتی ہے۔ حکمران ہو یا عامی‘ آدمی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تعلق اس کے داخل سے ہوتا ہے۔ اگر وہ زمینی حقائق کا ادراک کر سکے‘ اگر وہ موزوں لوگوں سے مشورہ کرے اور اگر وہ ترجیحات کا ٹھیک تعین کر سکے۔ فرمایا: ہم نے آدمی کو اس لیے پیدا کیا کہ اسے آزمائیں۔ آزمائیں کہ ان میں سے کون حسنِ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔
بحران کی نوعیت بدل چکی۔ بے شک عمران خان کے جلسوں میں سامعین کی تعداد غیر معمولی ہے مگر اب حکومت کو ہرگز کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ وزیراعظم کے استعفے سے زیادہ‘ عمران خان اب وسط مدتی الیکشن پر زور دے رہے ہیں۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس سے میاں صاحب کو خوف زدہ ہونا چاہیے۔
تحریک انصاف کی تنظیم بے حد کمزور ہے... فیصلہ سازی کا عمل ناقص ہے اور کپتان کے گرد خوشامدیوں کا ویسا ہی جھرمٹ ہے‘ جیسا کہ جناب زرداری اور میاں صاحب کے آس پاس۔ اس پر مستزاد یہ کہ عمران خان ایک سیاسی ذہن نہیں رکھتے۔ مشیروں کا انتخاب کرتے ہوئے ہمیشہ نالائق لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک مردم ناشناس آدمی جو ڈاکو اور ولی اللہ میں امتیاز نہیں کر سکتا۔ اتنی سی بات جس کی سمجھ میں نہ آ سکی کہ پارٹی کی تنظیمی حالت بہتر بنائے بغیر وہ ایجی ٹیشن کو منطقی انجام تک پہنچا نہ سکے گا۔ ارادہ اس کا جماعت میں نئے انتخاب کا تھا اور دھاندلی پر دبائو برقرار رکھنے کا لیکن جی اس کا ایجی ٹیشن میں لگتا ہے۔ اگر وہ چھ میں سے پانچ مطالبات منوا لیتا‘ جس کے لیے عسکری قیادت کی پیشکش قبول کرنے کے علاوہ‘ سپریم کورٹ پر انحصار کرتا تو وہ ایک فاتح بن کر ابھرتا۔ اس کی زندگی کا ایک بڑا حصہ اگرچہ برطانیہ میں گزرا مگر خوشامد پسندی میں‘ وہ اپنے حریفوں سے کم نہیں۔ احسن رشید اور ہارون خواجہ سمیت ڈھنگ کے لوگ بالآخر اس سے دور چلے جاتے ہیں۔ آج شاہ محمود اس کا اتالیق ہے۔ بالآخر ایک دن وہ اس کے لیے تباہی لائے گا۔ وہ کس قدر ہولناک حد تک خوشامد پسند ہو چکا‘ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی جو تین سیٹیں اپنی کرشماتی شخصیت اور خدمات کے بل پر اس نے جیتی تھیں‘ ان میں سے دو اس نے کاسہ لیسوں کے حوالے کیں اور ہار دیں۔ پشاور میں بھی جہاں اس کی اپنی حکومت تھی۔ جہاں وہ پشتونوں کا نیا خان تھا بلکہ میانوالی بھی‘ جہاں اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ عمران خان کے مشیر مخلص ہوتے تو وہ اسے دھاندلی پر دبائو برقرار رکھتے ہوئے‘ کم از کم ایک سال مزید انتظار کا مشورہ دیتے۔ اس میں مگر من مانی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ شخصیت کی یہ کمزوری خوشامدیوں کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اسی بنا پر 70 فیصد سے زیادہ ٹکٹ ناقص امیدواروں کو ملے۔ وہ بھی الیکشن سے تین ہفتے قبل۔ 80 فیصد پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹ ہی موجود نہ تھے اور ضمنی الیکشن کا مرحلہ آیا تو ایک بار پھر وہی غلطیاں دہرائی گئیں۔ خوشامدیوں نے‘ منت سماجت سے رضامند کیے گئے‘ ڈاکٹر شعیب سڈل کو پختونخوا میں صوبائی محتسب کا منصب سنبھالنے نہ دیا۔ جب یہ خبر اسے ملی تو ہاتھ ملتے ہوئے کہا ''مجھے سخت صدمہ ہوا‘‘ اور اس کی پارٹی کے ایک ہوش مند لیڈر نے یہ کہا ''صوبے میں نتیجہ خیز حکومت قائم کرنے کا خواب تمام ہوا‘‘۔ سول نافرمانی ایسے احمقانہ فیصلے ایسے ہی لوگوں کی مشاورت میں صادر ہوتے ہیں۔
مقبول اب وہ بہت ہے۔ زرداری صاحب اسی لیے رنج کا شکار ہیں۔ اسی لیے سابق چیف جسٹس کو انہوں نے ''دجال‘‘ کہا اور اسی لیے جوانوں کی سی صحت اور جذبہ رکھنے والے آدمی کو بوڑھا قرار دیا‘ جو زرداری کے برعکس شوگر‘ بلڈپریشر اور دل کے عارضے میں مبتلا نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا صفایا ہو چکا۔ کراچی میں 18 اکتوبر کے جلسۂ عام سے اگرچہ پارٹی کو فائدہ پہنچے گا۔ اگر تین لاکھ افراد وہ جمع کر پائے‘ جس کا امکان موجود ہے تو کم از کم وقتی طور پر زوال کا عمل رُک جائے گا۔ بڑھاپا مگر جوانی میں نہیں بدلا کرتا۔ مردوں کو زندہ کرنے والے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام دو ہزار برس پہلے اپنے اللہ کے پاس چلے گئے تھے۔
وزیراعظم اگر ذہنی الجھائو سے نجات پا سکیں تو ان کی حکومت برقرار رہ سکتی ہے‘ پانچ سال پورے بھی کر سکتی ہے وگرنہ وسط مدتی انتخابات... شاید اس رائے کو یکسر مسترد کر دیا جائے مگر میرا خیال یہی ہے کہ آج پنجاب میں بلدیاتی انتخاب ہوں تو نون لیگ کو تحریک انصاف پہ برتری حاصل ہوگی۔ امیدواروں کے انتخاب میں دونوں کو یکساں دشواری کا سامنا ہوگا۔ تحریک انصاف فردِ واحد کے اور نون لیگ ایک خاندان کے گرد تعمیر کی گئی ہے۔ چودھری سرور اسی مسئلے کا حصہ ہیں۔ نون لیگ انہیں استعمال تو کرنا چاہتی ہے مگر اختیار دیئے بغیر۔ میاں محمد اظہر بھی ایسا ہی چیلنج تھے اور بالآخر اپنا راستہ انہوں نے الگ کر لیا تھا۔ چودھری سرور ان سے کہیں زیادہ تجربہ کار ہیں اور کائیاں بھی۔ بیرون ملک سے بڑے اثاثے واپس لانے پر اصرار کر کے انہوں نے مضبوط اخلاقی پوزیشن اختیار کر لی ہے۔ اب آسانی سے وہ قابل قبول نہ ہوں گے۔ کسی اور پارٹی میں گئے تو بڑے لیڈر بنیں گے۔
میاں نوازشریف مخمصے کا شکار رہیں گے یا بڑے فیصلے صادر کر پائیں گے۔ کوئی دن میں فیصلہ ہوا جاتا ہے۔ انہی کا نہیں‘ ان کی پارٹی کے مستقبل کا انحصار بھی اسی پر ہے۔ اس قوم اور اس گروہ پر افسوس جو اپنی باگ ایک ہاتھ کو سونپ دے۔