تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     16-10-2014

کیلاش ستیارتھی: میری دلی مبارک

شری کیلاش ستیارتھی کو دلی مبارک !شری کیلاش جی کو نوبل انعام نہ ملتا تو بھی میرے دل میں ان کے لیے کسی بھی انعام حاصل کرنے والے سے زیادہ محبت اور عزت ہمیشہ رہتی ۔وہ مجھ سے چھوٹے اور مددگار رہے ہیں۔ ان کی ولادت ایم پی کے ودیشا میں ایک ایسے آریہ خاندان میں ہوئی‘ جہاں بچوں کو‘ معاشرہ کی خدمت اور معاشرہ سدھار کا سبق گھٹی میں پلایا جاتا ہے۔ کیلاش جی جب جواں ہوئے تودلی آگئے اور وہ یہاں آتے ہی عوامی تحریکوں سے جڑ گئے۔ ہم لوگوں نے جب بھی بھارتی زبانوںکی حمایت‘ رسوم ستی اور ذات پات کی مخالفت وغیرہ جیسی تحریکیں چلائیں‘کیلاش جی اور ان کی بیوی سمیدھا جی نے ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ سمیدھا جی بھی ایک مشہور آریہ خاندان کی بیٹی ہیں۔ اُن کے والد پنڈت بھارتیندر ناتھ نے چاروں ویدوں کی ہندی میں تشریح کی۔ جو بھارت اور بیرون ممالک میںلاکھوں گھروں میں بڑی عزت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ بھارتیندرجی کئی کتابوں کے مصنف تھے اور سالہا سال ایک آریہ پتریکا بھی چلاتے رہے ۔سمیدھا جی کی ضعیف عمر والدہ ابھی بھی اپنے خاوند کے کام کو آگے بڑھا رہی ہیں ۔
کیلاش جی کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں سمیدھا جی جیسی بیوی ملی ہے۔سمیدھا جی ان کی طاقت ہیں۔ وہ ان کا راجستھان والا آشرم سنبھالتی ہیں۔ میں اس میں جا کر رہا ہوں۔ وہاں شریمتی ستیارتھی دمپتی نے ہزاروں یتیم بچوں کو پال پوس کر انہیں نئی زندگی دی ہے۔ دونوں میاں بیوی کے علاوہ ان کا بیٹا اور بہو بھی پوری دلچسپی سے ''بچپن بچاؤ‘‘ تحریک میں لگے رہتے ہیں۔ وکیل بیٹا ان بچوں کو آزادی دلوانے میں مصروف رہتا ہے‘ جنہیں ہمارے ملک میں زبردستی مزدور بنا کر رکھا جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہ پورا ستیارتھی خاندان تہ دل سے معاشرہ کی خدمت میں مصروف ہے۔ 
کیلاش ستیارتھی بنا غرض کے معاشرہ کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ انہوں نے کبھی اپنی تعریف کو اولیت نہیں دی۔ انہیں نوبل کے علاوہ کئی ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈ مل چکے ہیں لیکن انہوں نے جتانے کی کبھی بھی کوشش نہیں کی۔ دنیا کے سبھی کھنڈوں (حصوں) میں ان کی دوستی ہے لیکن ان کا اور ان کے خاندان کا رہن سہن بالکل سادہ ہے ۔کیلاش جی کو ملا نوبل انعام ان عظیم اقدار کی عزت ہے ‘جو مہارشی دیانند اور مہاتما گاندھی نے دنیا کو دی ہیں۔ کیلاش جی اور سمیدھا جی کی عوامی خدمت کو ملا یہ دنیاوی انعام ملک معاشرے کے ان ہزاروں خدمت گاروں کی خدمات کا اعتراف ہے ‘جو نہایت ہی پاکیزگی اور بھرپور لگن سے اپنی زندگی سماج کیلئے وقف کیے ہوئے ہیں۔ ملالہ یوسفزئی اور کیلاش ستیارتھی کو ملا انعام پاکستان اور بھارت کے لیے فخر کی بات ہے۔ 
اطلاع کا اندھیر 
اطلاع کا حق اب سے دس سال پہلے بھارت کے عوام کو ملا تھالیکن آج اس کی جو حالت ہے ‘اگر اسے بدلا نہیں گیا تو کسی بھی باشندے کو کسی بھی مدعے پر سرکار سے خبر پانے کیلئے دس سال انتظار کرنا پڑے گا۔کانگریس سرکار نے ملک کے باشندوں کو یہ بنیادی حق تو مہیا کروایا لیکن اسے نافذ کرنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ۔اطلاع کا یہ حق اب اطلاع کا اندھیر بنتا جارہا ہے۔ کچھ ذمہ دار اداروں نے گہرائی میں جاکر آنکڑے (حقائق) اکٹھے کیے ہیں‘ وہ آنکھ کھول دینے والے ہیں۔ ان کے مطابق اگر آپ کو ایم پی کی سرکا ر سے کوئی اطلاع چاہئے تو ساٹھ سال انتظار کرنا ہوگا‘ کیونکہ حکومت کا انفارمیشن کمیشن ایک دن میں ایک اطلاع بھی نہیں دے پاتا۔ وہ ایک مہینہ میں صرف اکیس سوالات کے جواب دے پاتا ہے۔ اس کے پاس لگ بھگ پندرہ ہزار درخواستیں طاق میں پڑی ہوئی ہیں۔ یوپی میں اڑتالیس ہزار‘ مہاراشٹر میں بتیس ہزار‘ کرناٹک میں چودہ ہزار ‘راجستھان اور آندھرا میں تیرہ تیرہ ہزار درخواستیں قطار میں لگی ہوئی ہیں ۔
اطلاع کے حق کا مقصد کیا ہے ؟ سرکاری کام کاج پر نگرانی رکھنا اور یہ جاننا کہ کسی کام میں دیری کیوں ہو رہی ہے۔ اگر دیری کو پکڑنے کے قانون کو نافذ کرنے میں ہی دیری ہو رہی ہے تویہ اس قانون کی جڑوں میں لسی ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس دیری کی کیا وجہ ہے؟ اس کا پہلا سبب تو یہ ہے کہ انفارمیشن کمیشن میں افسروں کی کمی ہے۔ دوسرا‘ سرکاری افسر اپنے کارناموں کو اجاگر نہیں ہونے دینا چاہتے۔تیسرا‘اس قانون میں ہی کئی ایسی چھوٹیں ہیں‘ جن کا فائدہ اٹھا کرافسر‘ اطلاعات کو چھپانے کا بہانہ بنا لیتے ہیں۔انگریز کے زمانہ میں نوکر شاہی مختار کل تھی۔ وہی ڈھرا اب بھی چل رہا ہے۔ ضروری ہے کہ انفارمیشن کمشن کے ملازموں کی تعداد بڑھائی جائے ۔اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہر اطلاع دینے کا وقت طے کیا جائے ۔یہ وقت ایک ہفتہ سے ایک مہینہ تک ہو ۔اس سے زیادہ نہیں ۔آجکل تو انٹر نیٹ کا زمانہ ہے۔ کچھ معاملات میں تو یہ وقت دس منٹ بھی ہو سکتا ہے۔جو افسر اپنے وقت کوپابندی سے نہ نبھائے اس سے ہرجانہ وصول کیا جائے۔ اس کی تنخواہ میں سے مقررہ حد تک پیسے کاٹ لیے جائیں۔ 
ششی تھرور سے کانگرسی ناراض کیوں ؟
کانگریس کے کیرل سے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر ششی تھرور کے خلاف کارروائی کی مانگ کی جا رہی ہے ‘کیونکہ انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کا دعوت نامہ قبول کر لیا ہے ۔وہ ان کے صفائی مشن کے نو رتنوں میں شامل ہو گئے ہیں ۔ان پر الزام یہ بھی ہے کہ وہ جب اور تب نریندر مودی کی تعریف کرتے رہتے ہیں ۔
بھارت میں آج کل جیسی سیاست چل رہی ہے‘اس میں ششی تھرور جیسے لوگوں کو اس طرح کے رد عمل کے لئے پہلے سے تیار رہنا چاہئے ۔اس وقت سیاست دان اور سیاسی پارٹیاںاپنی مستی میں گم ہیں ۔انہیں اپنے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اپنے مطلب کے آگے وہ ملک کے مفادات کو قربان کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ۔صفائی مشن سے کانگریس کو یا اس کے لیڈروں کو کیا ملے گا؟ اگر سیاسی فائدہ ہو گاتو مودی کو ہو گا‘بی جے پی کو ہوگا؟ایسے میں ششی تھرور جو کر رہے ہیں‘ اس میں کانگریس کا نقصان ہوگا؟ کانگرسی لوگ اس بات سے بھی دکھی ہیں کہ مودی نے ششی تھرورکو ہی کیوں چنا؟سونیا اور راہول کو کیوں نہیں بلایا؟کیا مودی نے اپنے خوشامدیوں کی بھیڑ اکٹھی کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے ؟اگر اسے ملکی مشن بنانا تھا تو سبھی پارٹیوں کے خاص لیڈروں کو بلانا تھا۔
کچھ ایسے ویسے کانگرسی دوستوں کو کہنا ہے کہ مودی نے جو نو رتن چنے ہیں ‘وہ کیا کریں گے ؟صفائی ؟ کیا خوب؟آپ انہیں نو رتن کہہ رہے ہیں ‘مودی نے نوبڑے ملازم کھڑے کر دیے ہیں۔ ہمارے ششی تھرور جی بھی ان میں سے ایک ہیں۔تو میں نے پوچھا کہ پھر بھی آپ تھرور سے ناراض کیوں ہیں؟ ششی تھرور سے ناراض لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ مودی اس مشن کے ذریعے گاندھی کو ان سے چھنا لے جا رہے ہیں ۔وہ یہ نہیں جانتے کیا‘ان نو رتنوں کو معاشرتی صفائی کیا‘اپنی ہی صفائی کی فرصت نہیں ہے۔ سوامی رام دیو کے علاوہ شاید ہی کوئی مو دی رتن ایسا ہو‘جو اپنے کپڑے بھی روز صاف کرتا ہو۔اس ٹی وی اور اخباری مشن سے پریشان ہوکر نادان کانگرسی اپنے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور سے فضول ہی ناراض ہو رہے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved