تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     16-10-2014

سرخیاں‘ متن اور اقتدار جاوید کی نظم

حکومت گرانے کی سازش
ناکام ہو چکی ہے... نوازشریف 
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''حکومت گرانے کی سازش ناکام ہو چکی ہے‘‘، تاہم دھرنوں سے جان چھوٹی ہے تو تابڑ توڑ جلسے شروع ہو گئے ہیں اور سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ ہمیں آرام سے حکومت کیوں نہیں کرنے دے رہے۔ شاید انہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے کون کون سے نسخے استعمال کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''جمہوریت کی بقا کے لیے پارلیمنٹ متحد ہے‘‘ ورنہ رزقِ حلال اکٹھا کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا جوکہ ہر انسان پر فرض ہے جبکہ ہم پر کچھ زیادہ ہی فرض تھا جو ان انباروں سے ظاہر ہے جو ملک کے اندر اور باہر پھیلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا‘‘ البتہ فی الحال تو خاموش رہ کر ہی دشمن کے دانت کھٹے کیے جا رہے ہیں اور اس خاموشی میں مزید شدت بھی آ سکتی ہے۔ اس لیے بھارت کو خبردار رہنا چاہیے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''ملکی ترقی اور مسائل کا حل اولین ترجیحات ہیں‘‘ کیونکہ حکومت اپنی ترقی اور اپنے مسائل کے حل سے تقریباً فارغ ہو چکی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں عشایئے سے خطاب کر رہے تھے۔ 
سیاست میں سینہ چوڑا اور گردن
جھکانا پڑتی ہے... زرداری 
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''سیاست میں
سینہ چوڑا اور گردن جھکانا پڑتی ہے‘‘ بلکہ ہمارے دور میں ہماری تو گردن بھی کافی چوڑی ہو گئی تھی کیونکہ وہ سیاست نہیں بلکہ عوام کی خدمت کا دور تھا جس کے جواب میں حالیہ انتخابات میں عوام نے بھی ہماری کافی خدمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنوں سے حکومت گرانے کی سوچ غلط ہے‘‘ جبکہ صحیح سوچ سے حکومت گرانے کی ترکیب ہم سے سیکھنی چاہیے جس کا کھل کر مظاہرہ بہت جلد شروع کردیں گے‘ ذرا مقدمات وغیرہ سے فارغ ہونے کی دیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میڈیا میں بھی گلو بٹوں کی ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے‘‘ جو ہمارے اجلاسوں میں آپس کی نعرہ بازی‘ ہلڑ بازی کا پورا نقشہ ہی کھینچ کر رکھ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پی پی کو چھوڑنے والا ہمیشہ دربدر ہوا‘‘ اگرچہ پی پی میں موجود لوگ بھی کافی دربدر ہو رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک عشایئے سے خطاب کر رہے تھے۔ 
پرویزالٰہی بیانات سے عوام کو گمراہ
نہیں کر سکتے... زعیم قادری 
مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی اور پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم قادری نے کہا ہے کہ ''پرویز الٰہی بیانات سے عوام کو گمراہ نہیں کر سکتے‘‘ کیونکہ اس کا اجارہ صرف ہمارے پاس ہے اور عوام نے گمراہ ہونے کی سعادت بھی صرف ہمارے بیانات سے ہی حاصل کی ہے۔ اس لیے نہ تو ہم بدل سکتے ہیں نہ ہی عوام‘ کیونکہ دونوں بے حد مستقل مزاج واقع ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''وہ خاطر جمع رکھیں‘ انہیں اقتدار تک پہنچنے کے لیے دوبارہ بیساکھیاں بھی نہیں ملیں گی‘‘ کیونکہ انتخابی نشان بائیسکل ہونے کے باوجود انہیں پنکچر لگانے کی توفیق کبھی حاصل نہیں ہوئی اور وہ اس کے بغیر ہی انتخابی سائیکل چلاتے رہے ہیں جس کا نتیجہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا۔ انہوں نے کہا کہ ''پرویزالٰہی نہ جانے کون سی غلط فہمی میں مبتلا ہیں‘‘ جبکہ ہم جس غلط فہمی میں مبتلا ہیں‘ ہم اس سے اچھی طرح واقف ہیں اور جو بہت جلد رفع بھی ہونے والی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''انہیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا‘‘ جبکہ ہمیں مایوسی کے علاوہ بھی کچھ نہ کچھ ملنے کی توقع ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے معمول کا بیان جاری کر رہے تھے۔ 
آبنائے 
آنکھ کی آبنائے میں ڈوبا 
مچھیرا نہ جانے 
فلک ناز دھارے میں 
گاتی، نہاتی ہوئی سرخ لڑکی کی جاں 
اس مچھیرے میں ہے 
لڑکی کے گیتوں میں ہی 
لنگر انداز کشتی ہے 
لہروں کی کروٹ ہے 
ساحل کا پھل ہے 
مچھیرے کی تازہ جوانی ہے 
مستی بھری نیند پانی ہے! 
لڑکی اُمڈتی ہوئی وقت کی دھار ہے 
جس کے ریلے سے 
محشر بپا کرتی لہریں نکلتی ہیں 
لڑکی سمندر ہے 
گہرے سمندر کی گمبھیر خاموشی 
پانی سے اڑتی ہوئی ڈاریں 
چکنے کنارے 
ہر اک چیز لڑکی کے گیتوں کے اندر ہے 
لڑکی پرندہ ہے... آبی پرندہ 
سمندر کے بے انت سینے پہ 
اُڑتا ہے 
صدیوں سے 
صدیوں سے لمبی، معمر چٹانوں سے 
جُڑتا ہے 
مُڑتا ہے واپس 
سمندر کے بے انت پھیلائو کی سمت 
لڑکی کوئی معجزہ ہے 
سمندر میں جونہی اُترتی ہے 
پانی کو رنگین کرتی ہے 
لہروں کی چادر بناتی ہے 
موتی الٹاتی ہے 
موتی اٹھاتے ہوئے گیت گاتی ہے 
لڑکی کے گیتوں کے معنی 
فقط 
اس مچھیرے پہ روشن ہیں 
جو آنکھ کی آبنائے میں ڈوبا پڑا ہے! 
آج کا مطلع 
ہم نے اُسے مدد کو پکارا تو ٹھیک ہے 
اُس کو اگر نہیں ہے گوارا، تو ٹھیک ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved