ملک کے معاشی حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ عوام نے اب بھی آگے بڑھ کر وطن کی دولت لوٹنے والوں کے ہاتھ نہ روکے تو کل کو پھر ملک کے خزانوں میں کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ صرف قرضوں اور سود در سود کی ادائیگیوں کے سوا نئی نسل اور اس کے بعد آنے والی نسلوں کے پاس اور کیا رہ جائے گا؟۔ یہ تو اب 2014-15ء کے پیش کیے جانے والے بجٹ میں وزیر خزانہ کی زبان اور سرکار کی دستاویزات کی صورت میںسامنے آ چکا ہے کہ پنجاب حکومت گزشتہ سات برسوں میں 456 ارب کی مقروض ہو چکی ہے لیکن اس قدر بھاری اور تباہ کن قرضے لینے کے با وجود ملک میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ سفری سہولتیں نہ ہونے کے برا بر ہیں۔ ہسپتالوں کی پنجاب بھر میں حالت زار یہ ہے کہ صرف بہاولنگر میں54 نوزائیدہ بچے کسی بھی قسم کی میڈیکل سہولت اور آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں صرف ایک سال میں ہلاک ہو چکے ہیں یہ کیسی گڈ گورننس ہے؟ پینے کا صاف پانی اس ملک کے پندرہ کروڑ سے زائد افراد کے نصیب میں نہیں ہے۔ تعلیم کی صورت حال یہ ہے کہ نہ استاد ہیں اور نہ ہی سکول۔ کبھی بجلی غائب تو کبھی گیس اور ان کی قیمتیں اس طرح بڑھائی جا رہی ہیں جیسے ملک بھر میں ہر طرف دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں۔ بجلی کے بلوں میں صرف ایک سال میں کیا جانے والا اضافہ 70 فیصد سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ جس کی کل تنخواہ دس ہزار روپے ہے اسے دس ہزار روپے ہی بجلی کا بل بھیجا جا رہا ہے۔ ابھی چند دن ہوئے رحیم یار خان کی جس ماں نے تیس ہزار روپے بجلی کا بل آنے پر خود کشی کی ہے۔ اس کے مقدمات اﷲ کی عدالت میں درج ہو چکے ہیں۔بل ملنے پر خود کشی کی ہے اتنا تو سب کو یقین ہو جانا چاہئے کہ حکمرانوں کے خلاف اﷲ کی عدالت میں قتل کا مقدمہ تو کب کا درج ہو چکا ہے کیونکہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتے کے بھوک سے مرنے کی ذمہ داری اسلامی ریاست کے خلیفہ دوم کی طرف سے قبول کی جا سکتی ہے تو رحیم یار خان کی اس عورت کے قتل کی ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ حکومت وقت ہے جس کی پالیسیوں نے اس عورت کو مرنے پر مجبور کیا۔ایک جا نب پاکستان کے خزانوں سے لوٹے ہوئے 90 ملین ڈالر کی بیرون ممالک میں نئی انویسٹمنٹ ہے اور دوسری جانب تیس ہزار روپے بجلی کا غلط اور نا جائز بل آنے پر ایک ماں کی فرط غم سے خود کشی ؟۔
اگر کسی کو90 ملین ڈالر کی حقیقت کا علم نہیں تو وہ صرف یہ بات سامنے رکھ لے کہ پاکستان میں اگر کسی کے پاس اس وقت ایک ڈالر ہو تو اسے اس کے بدلے میں بازار سے پاکستانی کرنسی کے 102 روپے ملیں گے۔یہ ہے وہ پارلیمنٹ اور آئین جس کے بارے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ فرماتے ہیں کہ ''عمران خان اور
ڈاکٹر قادری دونوں مل کر اسلام آباد کے وزیر اعظم ہائوس، ایوان صدر سمیت سب کچھ جلا دیں لیکن اس آئین کے ایک ایک صفحے کی حفاظت کیلئے ہم اپنی جانیں دے دیں گے۔ اس کو جلانے یا مٹانے کی کسی نے کوشش کی تو اس کے ہاتھ توڑ دیئے جائیں گے‘‘۔
پیپلز پارٹی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید کی ایک تقریر سنانا چاہتا ہوں جواپوزیشن کے علم میں اس لئے نہیں ہو سکتی کہ وہ بہت بعد میں پیپلز پارٹی کے ساتھی بنے ہیں۔لاہور سے پیپلز پارٹی کے پرانے جیالے اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے سینئر
لوگوں کو یاد ہو گا کہ جنرل ایوب خان کے استعفیٰ اور یحییٰ خان کے مارشل لاء کے بعد ملک میں آج ہی کی طرح آئین اور جمہوریت کی باتیں کی جارہی تھیں جیسے اب ہم سب کو اپوزیشن لیڈر اور پارلیمنٹ کے باقی بڑوں کی زبانوں سے سننے کو مل رہی ہیں ۔ اب تاریخ یاد نہیں آ رہی لیکن 1969ء کی ایک شام تھی جب پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو لاہور ایئرپورٹ سے نیلا گنبد تک ایک جلوس کی صورت میں لاہور پہنچے تھے اور جی پی او چوک میں انہوں نے عوام کے ایک بہت بڑے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا '' آج ہر طرف آئین آئین کی باتیں کی جا رہی ہیں۔۔۔آئین کوئی چپلی کباب ہے جس سے عوام کا پیٹ بھر جائے گا‘‘۔ غریب کو روٹی دو ،غریب کو مکان دو، غریب کو کپڑا دو کیونکہ اس کے بغیر آئین ادھورا ہے۔ اس آئین کی کہیں بھی عزت نہیں جو غریبوں کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھے۔
کیا پاکستان کے آئین میں یہ گنجائش ہے کہ نندی پور پاور پروجیکٹ جس پر329 ملین ڈالر لاگت آنی تھی اس پر قوم کے سرمائے سے847 ملین ڈالر خرچ کر دیئے جائیں؟ اور اگر تیار کئے گئے نندی پور پاور پراجیکٹ کو گیس کی بجائے ڈیزل پر چلایا گیا تو پاکستانی قوم کو اس سے حاصل ہونے والی بجلی قیمت اپنے بلوں میں41 روپے فی یونٹ کے حساب سے ادا کرنی پڑے گی؟۔ اور جب اسی طرح کی با قاعدگیوں کو پورا کرنے کیلئے لوگوں کو چار پانچ گنا بجلی کے بل بھیجے جاتے ہیں تو ایک صف ماتم بچھ کر رہ جاتی ہے۔۔۔۔ رحیم یار خان کی اس عورت کو جس کے گھر میں ایک واشنگ مشین‘ دو پنکھے اور چار بلب تھے اسے تیس ہزار روپے کا بل کیوں بھیجا گیا؟ کیا پاکستان کے آئین میں گنجائش ہے کہ وہ غریب عورت واپڈا کے دفاتر میں صبح سے شام دھکے کھانے کے بعد اپنی مجبوری کے ہاتھوںمایوس ہو کر تیس ہزار روپے بجلی کا بل ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے خود کشی کر لے؟ ۔ اسی عورت کی طرح کا ایک غریب مزدور جو لاہور کے ایک درزی خانے میں کام کرتا ہے اسے اس ماہ27 ہزار روپے بجلی کا بل بھیجا گیا ہے۔ کرائے کے چھوٹے سے مکان میں رہنے والا وہ د س سے بارہ ہزار روپے ماہوار تنخواہ پانے والا اب صبح شام لیسکو کے دفاتر کے دھکے کھا رہا ہے لیکن ابھی تک ا س کی کوئی بات ہی نہیں سن رہا ۔۔۔اگر کل کوا س نے بھی مجبور ہو کر اپنی جان سے کھیلنے کی کو شش کی تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟۔لیسکو،وزیر پانی و بجلی یا وہ لوگ جو بیرون ملک 90 ملین ڈالر میں ایک گروسری مارکیٹ کی چین کے حصص خرید رہے ہیں ؟