احتجاجی سیاست نے کون سی کسر چھوڑی تھی کہ اب کھیل کا میدان بھی ناطقہ بند کرنے پر تُل گیا ہے؟ پہلے ایشین گیمز میں انتہائی ناقص کارکردگی کا دُکھ جھیلا۔ لے دے کر ویمن کرکٹ میں کچھ عزت رہ گئی کہ گولڈ میڈل نصیب ہوا۔ مردانہ ہاکی میں ہم فائنل تک پہنچے۔ بھارت سے شکست ہوئی مگر قوم زیادہ بے مزا نہ ہوئی کہ سخت نامساعد حالات کا سامنا کرکے بھی قومی ہاکی ٹیم نے کچھ بُری کارکردگی نہیں دکھائی۔
اب تان ٹوٹی ہے کرکٹ پر۔ متحدہ عرب امارات کو پاکستانی کرکٹ کے گھر کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ بڑی ٹیمیں ہمارے ہاں آنے سے گریز کر رہی ہیں۔ اور ہمیں کرکٹ بھی یو اے ای کے میدانوں میں کھیلنا پڑ رہی ہے۔ یہ بات ہمارے لیے انتہائی شرم ناک ہے مگر دُنیا کی ہٹ دھرمی بھی اپنی جگہ کہ وہ ہم سے بدتر ممالک میں تو کھیل لیتی ہے مگر ہمارے ہاں کھیلنے کے معاملے میں ہم سے کھیلتی ہے۔ یہ تماشا کئی سال سے ہو رہا ہے اور فی الحال ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
آسٹریلیا سے ایک ٹی ٹوئنٹی اور تین ون ڈے میچ ہم ہار گئے۔ مسلسل چار مقابلوں میں شکست۔ یہ تو ون ٹو کا فور ہوگیا۔ ایسا وائٹ واش ہوا کہ سارے ارمان دُھل دُھلاکر اب کھونٹی پر لٹکے ہوئے ہیں!
دنیا بھر میں کھیلوں کے ذریعے دل بہلایا جاتا ہے۔ لوگ پریشانیاں دور کرنے کے لیے کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں یا پھر کھیلوں کے مقابلے دیکھتے ہیں۔ ہم بھی ایسا ہی کرتے آئے ہیں مگر اب نتیجہ کچھ کا کچھ نکلتا ہے۔ احمد فرازؔ نے کہا ہے ؎
تیری باتیں ہی سُنانے آئے
دوست بھی دِل ہی دُکھانے آئے
ہمارے ہاں اب کھیلوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ تماشائی بن کر کوئی مقابلہ دیکھیے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود تماشا یا تماشے کا حصہ بن گئے ہیں۔
ہاکی ٹیم کی شان و شوکت اور عزت و حشمت کو تو خاصی جامع منصوبہ بندی کے ذریعے ناکامی اور گمنامی کی قبر میں دفنادیا گیا ہے۔ سکواش کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیا گیا ہے۔ ہم سکواش میں شاندار ماضی رکھتے ہیں۔ وہ شاید اِس حقیقت کی بدولت کہ سکواش کے مقابلے خالص انفرادی سطح پر ہوتے ہیں۔ اگر سکواش میں بھی ٹیم ایونٹ ہوا کرتے تو ہم بہت پہلے عالمی سطح سے رُخصت لے چکے ہوتے۔ سکواش میں جو غیر معمولی ٹیلنٹ ہمارے پاس تھا اُسے نہایت اہتمام سے بے حِسی کے سمندر میں غرق کیا جاچکا ہے۔
کرکٹ کا معاملہ یہ ہے کہ اِسے پورے اہتمام کے ساتھ زندہ رکھا گیا ہے۔ کماؤ پُوت کے ناز تو اُٹھائے ہی جاتے ہیں۔ اِس کھیل نے قوم کو کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو، اپنے اربابِ بست و کُشاد کو تو بہت کچھ دیا ہے۔ اور کیا چاہیے؟
ایک زمانے سے قوم کا حال یہ ہے کہ کرکٹ کے مقابلوں کو پورے ذوق و شوق سے دیکھتی ہے اور پھر ایسی مایوس ہوتی ہے کہ اُس پر ترس آنے لگتا ہے۔ کرکٹ کے ہر بڑے بین الاقوامی مقابلے کے بعد قوم زبانِ بے زبانی سے کہتی ہے ؎
کِس تمنّا سے تُجھ کو چاہا تھا
کِس محبّت سے ہار مانی ہے!
ایک بار پھر ایسا ہی ہوا ہے۔ قومی کرکٹرز قوم کی آنکھوں کے تارے رہے ہیں۔ آج بھی نئی نسل اُنہیں مثالیوں کے رُوپ میں دیکھتی ہے۔ کرکٹ کا شوق رکھنے والے بچے خود کو شاہد آفریدی اور عمر اکمل کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ مگر جب بیشتر معاملات میں نتیجہ ڈھاک کے تین پات کی صورت برآمد ہوتا ہے تو اُمیدوں پر اوس پڑ جاتی ہے، دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ جاتے ہیں! جن پر پیار آرہا ہوتا ہے پھر اُنہی پہ خار آنے لگتا ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف حالیہ سیریز میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
تھوڑی سی توجہ سے دیکھنے پر کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہمارے کرکٹرز میں ٹیلنٹ کی کمی ہے نہ ولولے کی۔ تربیت کی کمی تو پائی جاسکتی ہے مگر یہ کمی جوش و جذبے سے پوری کی جاسکتی ہے۔ سری لنکن کرکٹرز نے اپنی تربیت اور تکنیک میں پائی جانے والی کمی ولولے ہی کی مدد سے پوری کی تھی اور انٹر نیشنل کرکٹ میں جگہ بنائی تھی۔ ہمارا معاملہ کچھ اور ہے۔ باقی سب تو ٹھیک ہے۔ مگر سیاست نہیں جاتی۔ اختلافات ہیں کہ دم نہیں توڑتے۔ انا ہے کہ بوریا بستر گول کرنے کا نام نہیں لیتی۔
ایک زمانے سے کرکٹ ٹیم میں گروپنگ ہے۔ اب یہ پھر اُبھر کر سامنے آگئی ہے۔ یہ تو آپ نے بھی سُنا ہوگا کہ کسی کھلاڑی کی جگہ نہ بن رہی ہو مگر اُسے ٹیم میں شامل کرلیا جائے۔ یہ آپ نے کہاں دیکھا ہوگا کہ جو ٹیم میں جگہ پانے کے قابل نہ ہو اُسے کپتان یا نائب کپتان بنادیا جائے!
جو رُجحانات پورے معاشرے میں پائے جاتے ہیں وہی قومی کرکٹ ٹیم میں بھی جلوہ افروز ہیں۔ کبھی کوئی گروپ حاوی ہو جاتا ہے اور کبھی کوئی۔ کپتان اگر بہتر پوزیشن میں ہو تو اپنی مرضی سے ''اپنی طرف‘‘ کے لوگوں کو ٹیم میں شامل کرتا ہے۔ اور یہ بھی ہوا ہے کہ کوئی کپتان نہ بھی ہو مگر ذاتی کارکردگی کی بنیاد پر بہت مضبوط پوزیشن میں ہو تو اپنی مرضی کے کھلاڑیوں کو in کراکے سُکون کا سانس لیتا ہے!
کیا اِس بنیاد پر ٹیمیں کامیاب ہوا کرتی ہیں؟ کہیں ایسا دیکھا تو نہیں۔ کسی زمانے میں آسٹریلیا کی ٹیم میں علاقائی بنیاد پر تعصب پھیل گیا تھا۔ کئی کھلاڑی اِس تعصب کی نذر ہوئے۔ ڈین جونز اِس کی ایک واضح مثال ہے۔ علاقائی بنیاد پر پنپنے والے گروپوں نے آسٹریلوی کرکٹ کو ڈسنا شروع کردیا تھا۔ مگر پھر کرکٹ کے سیاہ و سفید کے مالک خطرے کو بھانپ گئے اور صورت حال کو بدل کر دم لیا۔ کبھی سری لنکن کرکٹ میں بھی ایسی ہی صورت حال نے جنم لیا تھا مگر پھر معاملات پر قابو پالیا گیا۔ بھارتی کرکٹ میں بھی علاقائیت ایک طاقتور عنصر کے طور پر کارفرما رہی ہے مگر وہاں کوئی اپنی مرضی کے کھلاڑی کو ٹیم میں لاتا بھی ہے تو خالص ٹیلنٹ کی بنیاد پر۔ ممبئی اور دہلی کے کھلاڑی ٹیم پر چھائے رہے ہیں مگر اپنی صلاحیت کے بل پر۔ کسی چھوٹی ریاست کا کھلاڑی اُبھرے تو اُس کی راہ میں بالعموم دیواریں کھڑی نہیں کی جاتیں۔ ویسے بھی سوا ارب لوگوں میں 11 کھلاڑی منتخب کرنے ہوں تو ڈنڈی مارنے کی گنجائش کم ہی رہ جاتی ہے کیونکہ ہر معاملے کو پرکھا اور تولا جارہا ہوتا ہے۔
کرکٹ کا ورلڈ کپ سَر پر کھڑا ہے اور ہم اب تک اختلافات کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اب تک یہی طے نہیں ہو پایا کہ کپتانی کا تاج کِس کے سَر پر سجایا جائے۔ جب کپتانی کا مرحلہ طے نہیں ہو پایا ہے تو کھلاڑیوں میں یک سُوئی کیونکر پیدا ہوسکتی ہے؟
اگر آپ کو یاد نہ ہو تو ہم یاد دلاتے ہیں کہ 1992ء کے ورلڈ کپ سے قبل بھی قومی ٹیم کی کچھ ایسی حالت تھی۔ اختلافات کی گُڈّی خاصی اُونچی اُڑ رہی تھی۔ ٹورنامنٹ کے ابتدائی پانچ میچ کھیلنے کے بعد پاکستان کے محض 3 پوائنٹس تھے۔ کرکٹ دیکھنے والوں نے اندازہ لگالیا تھا کہ دال میں کچھ کالا نہیں ہے بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔ پھر اِس دال کو سفید کرنے کے لیے ایک مذاکراتی ٹیم آسٹریلیا بھیجی گئی تھی جس نے کھلاڑیوں کو ساتھ بٹھاکر قوم کے عزت کے واسطے دیئے اور اختلافات ختم کرکے قوم کے لیے کھیلنے کا عہد لیا۔ اِس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔
قوم کرکٹ کی دیوانی ہے۔ جن پر خار آیا ہوا ہے اُنہیں پھر پیار کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ مگر وہ بھی کچھ کرکے دکھائیں، ساری توانائی آپس کی لڑائی پر ضائع نہ کریں۔ آپ سادہ لوحی کہہ لیجیے مگر ہم سوچ رہے ہیں اللہ کرے قومی کرکٹ کے اندرونی اختلافات کے بطن سے ایک بار پھر ہمارے لیے ورلڈ کپ پیدا ہو! جس نے کائنات کا یہ میلہ سجایا ہے اُس کے لیے خار کو پیار میں بدلنا کون سا مشکل ہے!