تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     18-10-2014

کچھ تازہ وارد رسائل

نیرنگِ خیال
1924ء میں جاری ہونے والا یہ ماہانامہ حکیم محمد یوسف حسن کی یاد میں شروع کیاگیا اور جو شاعر سلطان رشک کی ادارت میں باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ اس لحاظ سے شاید برصغیر کا یہ قدیم ترین جریدہ ہے جو شروع سے ہی راولپنڈی سے نکل رہا ہے۔ پطرس بخاری اور نیرنگ خیال کے عنوان سے ڈاکٹر اسد فیض کے مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بے مثل مزاح نگار کے مضامین پہلے پہل اسی رسالے میں شائع ہوا کرتے تھے جبکہ ان مضامین کی فہرست بھی درج کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں مرحوم کے مضمون '' بائیسکل ‘‘ کا اصل متن بھی شامل کیاگیا ہے جو اس پرچے کے فروری مارچ 1930ء کے شمارہ میں شائع کیاگیا تھا اورجو بعد میں غالباً '' مرزا کی بائیسکل‘‘کے عنوان سے ان کی واحد کتاب '' مضامین پطرس عرف پطرس کے مضامین ‘‘ میں شامل کیاگیا۔ چنانچہ ایک عرصے کے بعد اس مضمون سے ایمان تازہ کرنے کا ایک موقع میسر آیا۔ پطرس عام زندگی میں بھی بلا کے بذلہ سنج واقع ہوئے تھے ،اس ضمن میں متعدد واقعات ان سے منسوب ہیں، مثلاً جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل تھے تو کنہیا لال کپورفرسٹ ایئر میں داخلے کے لیے جب انٹرویو کی خاطر پیش ہوئے تو انہوں نے شیروانی اور چست پاجامہ پہن رکھا تھا ،جسے دیکھ کر پطرس بولے۔
'' کپور صاحب،آپ واقعی اتنے لمبے ہیں یا آج کوئی خاص اہتمام کرکے آئے ہیں ؟‘‘
ایک بار جب وہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر تھے تو ایک سیاسی و سماجی شخصیت ان سے ملنے کے لیے آئی جنہوں نے اپنا تعارفی کارڈ اندر بھیجا تو پطرس نے انہیں بلوا لیا۔ موصوف نے اپنا تعارف کرایا تو پطرس نے کہا کہ براہ کرم کرسی پر بیٹھ جائیے، لیکن جب وہ اپنا مزید تعارف کروانے لگے کہ میں فلاں فلاں اور فلاں بھی ہوں تو پطرس نے کہا۔
'' براہ کرم دو کرسیوں پر بیٹھ جائیے!‘‘
انہی دنوں ایک بار انہیں وائسرائے سے ملاقات مقصود تھی۔ آکر انہوں نے اپنا تعارف کرایا کہ میں آل انڈیا ریڈیو کا ڈائریکٹر جنرل ہوں اور مجھے وائسرائے سے ملنا ہے تو خاتون سیکرٹری نے کہا کہ آپ کل آئیے۔ پطرس دوسرے دن گئے تو خاتون کے سوال پر انہوں نے کہا کہ آل انڈیا ریڈیو کا ڈائریکٹر جنرل ہوں اور وائسرائے سے ملنا ہے تو سیکرٹری نے پھر کہا کہ آپ کل آئیے ۔ اگلے روز پطرس پھر گئے تو سیکرٹری سے بولے۔
'' میں آل انڈیا ریڈیو کا ڈائریکٹر جنرل ہوں، مجھے وائسرائے سے ملنا ہے اور اب میں کل آئوں گا‘‘ اس پر سیکرٹری ہنس پڑی اور ملاقات کروادی۔
پرچے کے دیگر مندرجات میں مضامین، افسانے اور شاعری ہے۔ قیمت 80روپے ہے۔
کتابی سلسلہ '' زیست‘‘
یہ اس سلسلے کا ساتواں شمارہ ہے جسے کراچی سے ڈاکٹر انصار شیخ نکالتے ہیں۔ اس کا حصہ نثر خاصا وقیع ہے جس میں مقالات کے شعبے میں اس خاکسار کے علاوہ محمد حمید شاہد، ڈاکٹر انور سدید، رئوف نیازی، ڈاکٹر ممتاز احمد خان، رفیق سندیلوی، مرزا سلیم بیگ، ناصر عباس نیئر، ڈاکٹر ضیاء الحسن اور فہیم شناس کاظمی کی نگارشات شامل ہیں جبکہ سفرنامہ سلمیٰ اعوان کا تحریر کردہ ہے اور افسانوں میں اسد محمد خان، ڈاکٹر رشید امجد، سلطان جمیل نسیم ، علی تنہا، اے خیام، رئوف نیازی ، طاہر نقوی، عذرا اصغر، محمد سعید شیخ، شیرشاہ سید، شہناز پروین ، سلمیٰ اعوان، محمد امین الدین، پرویز انجم، جمیل احمد عدیل اور دیگران کی تحریریں ہیں۔
تراجم کا حصہ بھی خاصا اہم ہے جبکہ سلطان جمیل نسیم نے خاکہ لکھا ہے۔ گوشۂ منٹو میں تین مضامین اور مرحوم کا افسانہ 'پھُندنے ‘‘شامل ہے۔ منظومات کا حصہ واجبی ہے اور قیمت 400روپے ہے۔
ماہنامہ الحمرا لاہور
اسے کوئی 14سال سے شاہد علی خان ، مولانا حامد علی خان کی یاد میں نکال رہے ہیں۔ موجودہ شمارہ اس کا خاص نمبر ہے۔ حصہ نثر کے لکھنے والوں میں قاضی جاوید ، مصطفیٰ کریم، انور سدید، جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال اور پروفیسر ابوالکلام قاسمی، مشفق خواجہ ، جمیل احمد رضوی، اعزاز احمد آذر، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر نگار سجادظہیر، پروفیسر رئیس ، جمیل یوسف، غالب عرفان، حسن عسکری کاظمی، ڈاکٹر ناصر بلوچ کے گوشہ عبدالوہاب خان سلیم پر مضامین ہیں۔ جبکہ رپور تاژ اور آپ بیتی وغیرہ کے شعبے میں مسعود مفتی، بشریٰ رحمن، اسلم کمال، پروفیسر جمیل آذر، پروفیسر منظور مرزا ، نیلم احمد بشیر، سلمیٰ اعوان، تسنیم کوثر اور نسیم سکینہ صدف کے مضامین جبکہ '' محیط املا‘‘ پر محیط اسماعیل کا مضمون ہے۔ افسانوں میں عباس رضوی ، حنیف باوا، طلعت سلیم اور احسن بن مجید شامل ہیں۔ گوشہ مزاح نگاری میں ظفر علی راجا، ڈاکٹر بدر منیر، پروفیسر مظفر بخاری ، مقبول رضوی اور کتابوں پر تبصرے ہیں۔ حصہ شاعری ہے اور قیمت 100روپے۔
الزبیر
یہ رسالہ بہاولپور سے ڈاکٹر شاہد حسن رضوی شائع کرتے ہیں جبکہ یہ اردو اکیڈمی بہاولپور کی پیش کش ہے اور شمارہ نمبر 4,3۔حصہ مقالات میں محمد افتخار شفیع کا مضمون بعنوان '' مجید امجد اور پاک و ہند محاربے ۔ایک مطالعہ ‘‘خاصے کی چیز ہے۔ اس کے علاوہ معمول کے مضامین، شاعری، کہانیاں ، انشائیہ اور مزاح کے تحت تحریریں اور خصوصی مطالعہ ،نقد و نظر کے عنوان سے مضامین اور تبصرے ہیں اور جو ٹھوس مطالعہ فراہم کرتے ہیں۔''بین الجامعاتی اردو کنسوریم ‘‘کے عنوان سے اداریہ اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی مجلس مشاورت میں شمس الرحمن فاروقی اور ڈاکٹر تحسین فراقی سمیت کئی معتبرین شامل ہیں۔ قیمت 300روپے۔
مہینہ وار پنجابی ادب
معیاری پنجابی رسالوں کے قحط میں یہ پرچہ غنیمت شمار ہوتا ہے جس کی مجلس ادارت میں قاضی جاوید ، سعید بھٹہ ، پروین ملک اور مشتاق صوفی شامل ہیں۔ تازہ شمارہ کوئی 6ماہ کے وقفے کے بعد آیا ہے۔ یہ رسالہ اکادمی ادبیات پاکستان ، اسلام آباد اور محکمہ اطلاعات پنجاب کے تعاون سے شائع کیا جاتا ہے۔ حصہ مضامین میں سعید بھٹہ کا '' لیجنڈز آف پنجاب‘‘ حنا خان کا '' کچھ قصہ مرزا صاحباں بارے ‘‘ اور احمد نواز الغنی کا مضمون '' ست گھرے داست ‘‘ خاصے کی چیزیں ہیں۔ کہانیوں میں خالد حسین ، زبیر احمد ، ایم وائی قیصر، سیدہ ظل سبحانی ، زاہد حسین اور وحید رضا بھٹی کی تحریریں ہیں جبکہ حصہ شاعری میں آصف ثاقب ، احسان رانا ، شفیق قریشی اور عرفان ملک ہیں۔ قیمت فی پرچہ 100روپے ہے۔
آج کا مقطع
جھلکی نہیں وہ سانولی صورت ابھی‘ ظفرؔ
ہم نے اس آئینے کو نکھارا تو ٹھیک ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved