عمران خان نے جلسوں کو تو بچوں کا کھیل بنا کے رکھ دیا ہے۔ ایک جلسے کی تقریر ختم نہیں کرتے اور بتا دیتے ہیں کہ اگلے ہفتے‘ وہ فلاں شہر میں جلسہ کرنے جا رہے ہیں۔ جلسہ نہ ہوا‘ سبزیوں کی خریداری ہو گئی۔ ''یہ میں بازار گیا‘ سبزیاں خریدیں اور لو واپس بھی آ گیا۔‘‘حیرت تو یہ ہے کہ جہاں بھی وہ جلسے کا اعلان کرتے ہیں‘ وہاں کے لئے نہ تو گردونواح کے شہروں سے ٹرانسپورٹ چلاتے ہیں۔ نہ گلی محلوں میں اعلان کراتے ہیں۔ نہ اپنے منتخب ممبروںیا ٹکٹ ہولڈرز کے خصوصی اجلاس بلا کر‘ ان کی ڈیوٹیاں لگاتے ہیں۔ کھڑے کھڑے جلسے کا اعلان کر دیتے ہیں اور اگلے دن ایک جمے جمائے جلسے میں‘ پہنچ کر تقریر کر ڈالتے ہیں۔ نہ جانے ان کے ہاتھ کیا ترکیب لگ گئی ہے کہ کچھ کئے بغیر ہی‘ ان کے جلسوں کے میدان ہر عمر کے لوگوں سے بھر جاتے ہیں۔ اکثریت ٹین ایجرزکی ہوتی ہے۔ اس کے بعد جوانوں کا نمبر آتا ہے اور پختہ عمر کے لوگ بھی کثرت سے دکھائی دیتے ہیں۔ جلسوں میں خواتین کی شرکت کا جو نیا ریکارڈ‘ عمران خان نے قائم کیا ہے‘ اس سے پہلے کسی نے ایسا جلسہ ہی نہیں کیا تھا‘ جس میں خواتین کی بھاری تعداد شریک ہوئی ہو۔ سب سے پہلے بھٹو صاحب کے جلسوں میں خواتین نے آنا شروع کیا تھا، لیکن ان کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ہوتی تھی۔اس کے بعد میںنے نوازشریف کے جلسے دیکھے ہیں۔ ان میں بھی خواتین‘ اچھی خاصی تعداد میں آیا کرتی تھیں، لیکن جس کثرت اور جوش و خروش سے خواتین‘ عمران خان کے جلسے میں آتی اور باقاعدہ حصہ لیتی ہیں‘ و ہ اپنی مثال آپ ہے۔ حصہ لینے سے مراد یہ ہے کہ وہ باقاعدہ نعرے لگاتی ہیں۔ موسیقی کی دھن پر جھومتی ہیں۔ کبھی لڈی ڈالتی ہیں اور کبھی بھنگڑا۔
خواتین کی شرکت کے اعتبار سے‘ تو اب شاید ہی کوئی سیاستدان ان کا مقابلہ کر سکے۔ اتنے کم دنوں میں ‘ اتنے بھرپور جلسے کرنے کا اعزاز‘ بھٹو صاحب کے بعد صرف عمران خان کو ملا ہے۔ انہوں نے پچھلے چند ہی روز کے اندر‘ پانچ چھ جلسے تابڑتوڑ کھڑکا ڈالے اور ہر جلسے میں حاضرین کی تعداد ‘ گزشتہ جلسے سے زیادہ تھی اور اسلام آباد میں تو یومیہ جلسے کا سلسلہ‘ پچپن ساٹھ رو ز سے چل رہا ہے، جس میں وہ روز دو تقریریں کرتے ہیں۔ کئی بار تین سے زیادہ بھی ہو جاتی ہیں۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلے گا کہ پاکستان تو کیا؟ دنیا کے کسی لیڈر نے دو ماہ کے دوران‘ ایک سو سے زیادہ تقریریں نہیں کی ہوں گی۔ بھٹو صاحب نے 1970ء کی انتخابی مہم میں‘ ایک ایک دن میں چھ چھ تقریریں کی تھیں، لیکن ان کی تعداد بھی تیس چالیس تقریروں سے زیادہ نہیں تھی۔ نوازشریف کا ریکارڈ بھی اس کے قریب قریب ہے۔ صرف بھٹو صاحب جس طرح لاکھوں حاضرین کو مسمرائز کر لیتے تھے‘ اس کی دوسری مثال دیکھنے میں نہیں آئی۔ضیاالحق کے آمرانہ دور میں‘ بھٹو صاحب کی تمام تقریروں کا ریکارڈ ضائع کر دیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب کے پرستاروں نے نجی طور پر‘ ان کی چند تقریریں اپنے اپنے ذرائع سے محفوظ کر لی تھیں۔ ان دنوں ٹی وی چینلوں پر انہی کی فٹیج دکھائی جاتی ہے۔ ایک
فٹیج‘ جس میں وہ لوگوں سے پوچھتے ہیں ''مرو گے؟ ‘‘ یہ قذافی سٹیڈیم لاہور کے جلسے کی ہے۔ پورا سٹیڈیم حاضرین سے بھرا تھا اور چاروں طرف کی سڑکوں پر‘ لوگ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے‘ بھٹو صاحب کی تقریر سن رہے تھے۔ میں جلسوں کو ایک جگہ بیٹھ کر نہیں سنتا تھا۔ کچھ دیر سٹیج پہ رہتا۔ پھر میڈیا کے سیکشن میں چلا جاتا اور اس کے بعد باہر آ کر یہ دیکھتا کہ جلسہ گاہ سے دور‘ لوگ کہاں تک موجود ہیں؟ قذافی سٹیڈیم کا جلسہ بھی میں نے‘ اسی طرح پہلے سٹیڈیم کے اندر سے اور اس کے بعد سٹیڈیم کے چاروں طرف چکر لگا کر دیکھا تھا۔ جب بھٹو صاحب سوال کر رہے تھے کہ ''میرے ساتھ مرو گے؟‘‘ وغیرہ وغیرہ‘ تو سٹیڈیم کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ‘ اسی جوش اور ولولے سے بلند آواز میں‘ جواب دیتے تھے کہ ''ہاں!‘‘۔ بھٹو صاحب نے یہ سوال اپنی تقریر کے آخر میں کئے تھے۔ اس وقت میں سٹیڈیم سے باہر آ کر سڑک پر کھڑے لوگوں کے درمیان سے گزر رہا تھا۔ مجھے بھٹو صاحب کے سوال سنائی نہیں دیئے۔ مگر سڑک پر کھڑے لوگوں کی ''ہاں!‘‘ سن رہا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ بھٹو صاحب سٹیج سے سوال کر رہے تھے‘ جس کا جواب یہ لوگ دے رہے تھے۔ بھٹوصاحب کی اردو صاف نہیں تھی۔ وہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں تقریر کرتے، لیکن جس طرح‘ وہ حاضرین کو ٹرانس میں لے لیا کرتے تھے‘ اس کی دوسری کوئی مثال پاکستان میں موجود نہیں۔ خطیب کی پہلی خوبی یہ ہوتی ہے کہ جس زبان میں وہ تقریر کر رہا ہو‘ اسے اچھی طرح سمجھ اور بول سکتا ہو۔ بھٹو صاحب واحد مقرر تھے‘ جو ایسی زبان میں تقریریں کیا کرتے‘ جو انہوں نے نہ تو گھر میں سیکھی تھی' نہ سکول اور کالج میں۔ انگریزی انہوں نے باقاعدہ
پڑھی تھی ‘زبان پر پورا عبور رکھتے تھے۔ اس کی مثال ان کی انگریزی تقریریں ہیں۔ سندھی مادری زبان تھی۔ اس میں بھی وہ خوب بولتے تھے، لیکن جن تقریروں نے پورے ملک کے عوام کو بیدار اور منظم کیا‘ وہ سب کی سب اردو میں تھیں اور یہ زبان وہ اچھی طرح نہیں جانتے تھے۔ اس کے باوجود عوام کو یوں مسحور کرتے کہ لاکھوں کے مجمعے پر چپ چھائی ہوتی ۔ صرف نعرے لگتے یا صرف بھٹو صاحب بولتے۔
موجودہ لیڈروں میں‘ عمران خان تجربہ کار مقرر نہ ہونے کے باوجود‘ جتنی تیزی کے ساتھ تقریر کرنا سیکھے ہیں‘ وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ان کی دھرنوں سے پہلے کی تقریریں اور آج کی تقریریں سن لیں‘ فرق واضح محسوس ہو گا۔ نوازشریف نے تو تقریر کرنا ہی میرے سامنے سیکھا ہے۔ وہ طبعاً شرمیلے ہیں۔ نجی زندگی میں بھی باتونی نہیں اور بلند آواز سے بھی نہیں بولتے۔ شروع شروع میں تقریر کرتے ہوئے رکتے اور اٹکتے رہتے تھے اور پھر جو رواں ہوئے ‘ تو اچھے خاصے مقرر بن گئے۔ اب بھی وہ نجی محفلوں اور میٹنگوں میں‘ عام بول چال کے انداز میں باتیں کرتے ہیں، مگر جلسے میں مائیک پر آتے ہی‘ اتنی روانی سے بولنے لگتے ہیں‘ جیسے کہنہ مشق مقرر ہوں۔ حالانکہ تقریر کرنا انہوں نے وزیراعظم بننے کے بعد سیکھا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری پیشہ ور خطیب ہیں۔ اس برادری میں ایک سے ایک بڑھ کر مقرر موجود ہے۔ میں دوسرے خطیبوں سے‘ ان کا موازنہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ آصف زرداری کو خطیب ہونے کا دعویٰ نہیں۔ان کے ساتھ ایک ٹریجڈی ہو گئی تھی۔ جب کراچی میں دوران حراست ان کی جِیب کاٹنے کی کوشش میں زخمی کی گئی۔ زخم تو برسوں پہلے بھر چکا، لیکن بول چال میں وہ روانی باقی نہ رہی۔ زبان پر زخم لگنے سے پہلے‘ وہ روانی سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ اس وقت تقریریں کرتے‘ تو یقینا اچھی ہوتیں۔ اتفاق دیکھئے کہ انہوں نے تقریریں اس وقت شروع کیں‘ جب زبان میں خرابی آ چکی تھی۔
بلاول بھٹو زرداری‘ تادم تحریر لیبارٹری میںہیں، جہاں ان کی خطابت اور اردو‘ دونوں کی تراش خراش کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں باڈی لینگویج کی پریکٹس کرائی جاتی ہے۔آج شام کو وہ ایک تیارشدہ پروڈکٹ کی صورت میں‘ دنیا کے سامنے آئیں گے۔ ان کی پرفارمنس دیکھ کر پتہ چلے گا کہ وہ امتحان میں‘فرسٹ ڈویژن لیتے ہیں یا کوئی دوسری ڈویژن؟ وسط مدتی انتخابات کا اعلان تو صرف عمران خان نے کیا ہے، لیکن دوسروں کی تیاریاں دیکھ کر صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ آخرکار عمران خان کی مہم رنگ لائی اور وہ 2013ء کے الیکشن کو آئوٹ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔انہوں نے پانچ سال کی مدت پوری کرنے پر متحد‘ منظم ‘ متفق اور مستحکم پارلیمنٹ کو‘ قبل ازوقت انتخابات پر مجبور کر دیا۔ بے شک حکومت کی طرف سے ابھی آمادگی کے آثار ظاہر نہیں ہوئے، لیکن جس طرح دھرنوں نے حکومت کے کل پرزے ڈھیلے کئے اور اب جلسوںکی لہر چل پڑی ہے‘ یہ آگے بڑھتی رہی‘ تو انتظامیہ کے اعصاب بھی سن ہو جائیں گے۔ پنجاب اور اسلام آباد کی پولیس اور انتظامیہ کے رگ پٹھے تو پہلے ہی اکڑ چکے ہیں۔ جلسوں نے شہری انتظامیہ کو بے آرام کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے بعد ہڑتالوں اور جلوسوں کا مرحلہ آئے گا اور مجھے لگتا ہے کہ آخری مرحلہ شروع ہونے سے پہلے پہلے‘ حکومت قبل ازوقت انتخابات کے اعلان پر مجبور ہو جائے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کس پارٹی کا لیڈراپنی انتخابی مہم کی قیادت کس طرح کرتا ہے؟ ایک بات تو طے ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت کو عمران خان پہلے ہی متاثر کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ان کے سامنے وقت کی پابندی نہیں تھی۔ جس کا انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد‘ تمام پارٹیوں کے سامنے باقاعدہ فنشنگ پوائنٹ ہو گا۔ عمران خان‘ عوامی تائید و حمایت جیب میں رکھ کر‘ دوڑ شروع کریں گے اور دوسروں کو سارا کام‘ دوڑ شروع ہونے کے بعد کرنا پڑے گا۔دیکھنا یہ ہے کہ اب کس ملک کا ایجنٹ‘ حکومت بناتا ہے؟ پاکستان کے تمام لیڈر ایک دوسرے کو ‘کسی نہ کسی غیرملک کا ایجنٹ قرار دے چکے ہیں۔ اس میں کسی کو شک نہیں کہ آئندہ حکمران بھی کسی نہ کسی کا ایجنٹ ہوگا۔سوال صرف یہ ہے کہ کون اور کس کا؟ ایجنٹوں کی تفصیل ‘مصنف محمد حنیف نے‘ انٹرنیٹ کالم میںوضاحت سے بیان کی ہے۔