تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     19-10-2014

ہیجان

المیہ اور ہے۔ کوئی سوال نہیں کر سکتا۔ غور و فکر کی اجازت ہے اور نہ اختلاف رائے کی۔ ہیجان کی ماری ایک قوم جس کا کوئی رہنما نہیں اور جس کی منزل کا تعین ہونا باقی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ میدان جنگ میں سچائی سب سے پہلی مقتول ہوتی ہے۔ آج کے پاکستان میں صداقت شعاری کا غلغلہ بہت ہے، سچی بات مگر یہ ہے کہ بعض موضوعات پر اور بعض گروہوں کے بارے میں اظہار حق کی جرأت بہت بڑا خطرہ مول لینے کے مترادف ہے۔ تحریک انصاف اور علامہ طاہرالقادری کے دھرنوں کے بارے میں پوری بات لکھنا سہل نہیں۔ اسلامیہ کالج لاہور یا شاید امرتسر کے اس ادارے میں جہاں فیض احمد فیض پڑھایا کرتے، سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کہا تھا کہ کوٹ اور پتلونیں معاف کر دیتی ہیں مگر جُبے اور عمامے کبھی معاف نہیں کرتے۔ آج پون صدی بعد معاملہ اور بھی گمبھیر ہے۔ قال اللہ اور قال الرسول کہنے والوں میں سے ایسے ہیں جو زبان سے نہیں گولی سے جواب دیتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے ہی لبرل ہیں جو لڑاکا عورتوں کی طرح طعنہ زنی کرتے ہیں۔ جن کا طرز احساس یہ ہے کہ جو ان سے اختلاف کی جسارت کرے وہ جاہل اور گنوار: چنانچہ قابل نفرت ہے۔ ایک معروف اخبار نویس نے ان کے لیے لبرل فاشسٹ کی اصطلاح تراشی تھی اور بالکل بجا طور پر۔ تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے والے کٹھ ملا کی طرح اپنے وطن کے بارے میں ان کا رویہ عجیب و غریب ہے۔ ان میں سے بعض نے پاکستان کو کبھی دل سے قبول نہ کیا۔ خوف فساد خلق سے ٹی وی اور اخبار میں تو وہ دل کی بات نہیں کہہ سکتے مگر نج میں ان کا رویہ یکسر مختلف ہوتا ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو اور ان سے زیادہ کرم چند 
موہن داس گاندھی کی تعریف میں تو وہ داد کے ڈونگرے برساتے ہیں مگر قائد اعظم کی ستائش کبھی مجبوراً ہی کرتے ہیں۔ وہ بھی ان کے نظریات کو مسخ کرتے ہوئے۔ مثال کے طور پر اپنی پوری سیاسی زندگی میں قائد اعظم نے سیکولرازم کی اصطلاح کبھی استعمال نہ کی۔ قرآن کریم کو پاکستان کا دستور قرار دیتے اور اسلام کے معاشی نظام کی تجربہ گاہ کہا کرتے مگر دانش و بصیرت کے یہ پیکر ان کی ایک تقریر کو بنیاد بنا کر انہیں روایتی سیکولر ٹھہراتے ہیں۔
تئیس برس ہوتے ہیں، نام نہاد بائیں بازو کے ایک دانشور نے ناچیز سے یہ کہا: آخر کو نہرو ہی سچا ثابت ہوا۔ نہرو؟ جس کے سوشلزم کی بساط اس کے نواسے راجیو گاندھی نے لپیٹ دی، جس کی جمہوریت موروثیت میں ڈھلی اور جس کا سیکولر ازم کشمیر کے علاوہ بابری مسجد کے ملبے تلے سسک رہا تھا۔ 
ان دنوں یہ لوگ ملالہ یوسف زئی کو خراج تحسین پیش نہ کرنے والوں کے درپے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ گالی بکیں، وگرنہ کوئی کسر انہوں نے چھوڑی نہیں۔ کوئی ابہام نہیں۔ کسی بھی دوسرے شہری کی طرح اس کمسن بچی کو اپنی رائے رکھنے کا حق تھا، دہشت گردوں نے جس سے اسے محروم کرنے کی کوشش کی۔ کمال جرأت کا اس نے مظاہرہ کیا اور ڈٹی رہی۔ دہشت گردوں نے کہ نفرت کے سوا جو کوئی اثاثہ نہیں رکھتے، اسے قتل کرنے کی کوشش کی۔ سوشل میڈیا پر اکثر نے اس واقعے کو ڈرامہ قرار دیا۔ جہالت کا یہ ایسا عظیم الشان مظاہرہ تھا جیسا کہ بعض مولوی صاحبان کی طرف سے چاند پر اترنے کے واقعے کو افسانہ قرار دینے کا۔ غالباً ایسے ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن کریم ارشاد کرتا ہے: جہلا جب ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ انہیں سلام کر کے گزر جاتے ہیں۔
رہا نوبیل انعام تو کیا ملالہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتی۔ وہ ایک کمسن لڑکی ہے جسے ابھی حقائق کا ادراک کرنا ہے اور جو اپنے والد کے زیر اثر ہے۔ کیا وہ نوبیل انعام کی مستحق تھی؟ اس پر سوال یہ اٹھایا گیا کہ کیا اس کی خدمات عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر امجد ثاقب سے زیادہ ہیں۔ دلیل یہ دی گئی کہ اگرچہ اپنے موقف پر قائم رہ کر اس نے جرأت مندی کی مثال قائم کی مگر کوئی کارنامہ اس کا نہیں ہے۔ وہ ایک حادثے کا شکار ہوئی۔ ہمدردی اس سے ہونی چاہیے اور ہر صاحب انصاف کو تھی جو تعصبات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکتا ہے مگر کارنامہ؟ ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر امجد ثاقب اور عبدالستار ایدھی، خدمت خلق کو جنہوں نے عبادت سمجھا اور پوری کی پوری زندگیاں اس کی نذر کر دیں۔ جناب عبداللہ بن مسعود ؓ مسجد نبوی میں اعتکاف پذیر تھے کہ حاجت مند ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اٹھے اور اس کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ کسی نے تعجب کا اظہار کیا تو فرمایا کہ زندگی رہی تو اعتکاف آئندہ بھی ہو رہے گا، مگر ایک مجبور آدمی کی حاجت روا ئی لازم تھی۔ سرکار ؐ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ جو بندوں کے کام میں لگا رہتا ہے، اللہ اس کے کام میں لگا رہتا ہے۔ کتنی بے شمار زندگیاں ایدھی نے بچائی ہیں اور اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ ایک جان کو بچا لینا تمام بنی نوع انسان کو بچا لینے کی مانند ہے۔ جس خلوص اور استقلال سے ڈاکٹر ادیب رضوی نے عشروں تک گردے کے مریضوں کی خدمت کی ہے، طب کی تاریخ میں اس کی کتنی مثالیں ہوں گی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا کارنامہ ایسا ہے کہ الفاظ اس کے لیے کم پڑتے ہیں۔ جذبہ ایسا کہ اسے بیان کرنے کے لیے کوئی غالب، کوئی شیکسپیئر، کوئی اقبال درکار ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ ذاتی زندگی میں توازن، سادگی اور سچائی کی ایسی تصویر ہیں کہ عملی دنیا کی بجائے عہد رفتہ کی کسی کہانی کا کردار لگتے ہیں۔ دس ہزار روپے سے شروع ہونے والا ان کا ادارہ اب تک ایک لاکھ سے زیادہ کو غیر سودی قرض دے کر برسر روزگار کر چکا۔ 
ان کا کارنامہ بنگلہ دیش کے گرامین بینک سے کہیں افضل ہے، جو پندرہ بیس فیصد سے چالیس فیصد تک سود وصول فرماتا ہے۔ جس کے سربراہ پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ پھر نوبیل انعام عطا کرنے والوں کی خوردبین ایسی نگاہ ان پر کیوں نہیں پڑتی؟
ایک خوشگوار مکالمے کے دوران ممتاز برطانوی اخبار نویس نے مجھ سے کہا: کیا ملالہ پاکستان کی وزیر اعظم نہیں بن سکتی؟ وزیر اعظم؟... ابھی اس کی عمر 16 برس ہے اور ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ اس کی شخصیت کا جوہرکیا ہے؟ کیا محض جرأت و جسارت؟ یا کار سیاست کے لیے موزوں براق ذہن بھی، سرعت سے جو سوچ سکتا اور فیصلے صادر کر سکتا ہو۔ بہادر تو عمران خان بھی بہت ہیں اور مالی معاملات میں ایماندار بھی۔ عالمی کپ، شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی ایسے کارہائے نمایاں بھی انجام دے چکے۔ سرگودھا کے جلسہ عام میں مگر ان کے دائیں بائیں دو عدد گلو بٹ براجمان تھے۔ نمک کی کان میں اب وہ نمک بن چکے۔ ہر دل عزیز ہوتے ہی، روایتی سیاستدانوں کے سب ہتھکنڈے اور حربے برتنے لگے۔ ملتان کا عامر ڈوگر اب ان کا انتخاب ہے اور سینکڑوں دوسرے عامر ڈوگر... فرمایا: جو کام اللہ بندے سے لینا چاہتا ہے، وہ اس کے لیے سہل کر دیتا ہے۔ ملالہ کے باب میں ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ حیات کی اس بازی گاہ میں اس کا کردار کیا ہو گا۔
ہمارا نہیں، وہ مغرب کا انتخاب ہے۔ مغرب کو اپنے فیصلے صادر کرنے کا حق اور اختیار ہے۔ ہم پر یہ کیسے لازم ہو گیا کہ بہرحال اور مکمل طور پر اس کی پیروی کریں۔ ملالہ یوسف زئی کی بعض بڑی خوبیوں کے باوجود، اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔
المیہ اور ہے۔ کوئی سوال نہیں کر سکتا۔ غور و فکر کی اجازت ہے اور نہ اختلاف رائے کی۔ ہیجان کی ماری ایک قوم جس کا کوئی رہنما نہیں اور جس کی منزل کا تعین ہونا باقی ہے۔
پسِ تحریر: اپنے قدیم دوست جناب جاوید ہاشمی سے جمعہ کی شام ایک طویل ملاقات ہوئی، جس کے آخر میں انہوں نے یہ فرمایا: آج (یعنی جمعہ 17 اکتوبر) کو جو بکواس آنجناب نے میرے بارے میں لکھی ہے، وہ بڑی حد تک صحیح ہے۔ اگر کوئی پسند کرے تو روزنامہ دنیا کی ویب سائٹ پر ''کاروبارِ منافقت‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والا کالم پڑھ لے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved