یہ 2007ء کی بات ہے۔
میں نے عمران خان کی سیاست سے متاثر ہوکر ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا '' سیاست کا خان ِاعظم‘‘۔ مذکورہ کالم کو جب عمران خان نے پڑھا تو انہوں نے ٹیلی فون کرکے میرا شکریہ ادا کیا اور اس کے ساتھ انقلابی اور اپنی تبدیلی کی سیاست کے بارے میں بنیادی نکات بیان کئے ۔اس سے قبل عمران خان نے ذاتی طور پرمجھ پرایک احسان کیاتھا،جس کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا۔2003ء کے آغاز میں میرے والد غلام سرورمیر کا ایک آپریشن ہوا جس کی رپورٹس سے پتہ چلا کہ انہیں کینسر کا مرض لاحق ہے ۔ان دنوں پاکستان کے نامورکالم نگار اورتجزیہ نگار ہارون الرشید ، عمران خان اور پی ٹی آئی کے صحافتی سرپر ست اعلیٰ ہوا کرتے تھے ۔ہارون صاحب گذشتہ بیس بائیس سال سے مجھ سے شفقت رکھتے ہیں۔ان کے توسط سے عمران خان نے مجھ سے وعدہ کیاکہ وہ میرے والد کے علاج معالجہ پر آنے والے اخراجات اپنے کسی ڈونر کے ذمے لگائیں گے۔ابھی یہ فیصلہ کیاجانا تھاکہ میرے والد کو شوکت خانم میموریل ہسپتال داخل کیاجائے گا یا حسب ِضرورت گھر سے لایاجائے گا، وہ اپنے خالق ِحقیقی سے جاملے۔عملی طور پر عمران اور ان کا ہسپتال میرے والد کے لئے مسیحائی نہ کرسکا مگر عملوں کا دارومدار چونکہ نیتوں پر ہوتاہے ٗ اس خیال سے کپتان اور ہسپتال جیسے ان کے کار ِخیر لئے ہمیشہ دعا گورہاہوں۔
عمران خان کی کپتانی میں 1992ء میںپاکستان نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا ، اس کے فوری بعد عمران خان نے کینسر ہسپتال کے لئے طوفانی مہم شروع کی اور چند سالوں میں شوکت خانم میموریل ہسپتال کا آغاز کردیا ۔1995ء میں عمران نے جمائما سے شادی کی اور 1996ء میں پی ٹی آئی کی بنیاد رکھ کر عملی سیاست کا آغاز کردیا۔ کپتان کی شادی کی اننگز تو ناکام ہوگئی مگرسیاست کی گرائونڈ میں وہ خوب جم کرکھیلے۔ ابھی وہ یہ میچ جیتے تو نہیں ہیں مگر اقتدار کے کھیل میں ہاٹ فیورٹ ضرور ہیں۔ مجھے عمران خان کا 1997ء والا الیکشن بھی یاد ہے جب نون لیگ نے ہیوی مینڈیٹ حاصل کیاتھا اورپی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئی تھیں ۔ اداکار سہیل احمد کا ادا کیا وہ عالمگیر جملہ مجھے بھولتا نہیں ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نون لیگ کے جیتنے کے فول پروف انتظامات مکمل تھے مگر اس کے باوجود پیپلز پارٹی اور بعض دیگر سیاسی جماعتوں نے ہزاروں ووٹ حاصل کئے تھے ۔جبکہ نجی نیوز چینلز پر قائم کئے گئے الیکشن سیل پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ووٹوں کی تعداد بالترتیب 72،90اور 155 بتارہے تھے ۔تب سہیل احمد نے کہاتھاکہ... باقی سیاسی جماعتوں کے تو ووٹ بتائے جارہے ہیں اورعمران خان کے سکور ز بتائے جارہے ہیں۔
میں نے لاہور میں عمران خان کے وہ جلسے بھی دیکھے ہیں جنہیں ''خشک سونامی ‘‘ کاعنوان دیاجاسکتا تھا ۔غالبا ً2008ء کی بات ہے ، ایک شام اپنے دوست قاضی سعید کو ملنے لاہور کے علاقہ جوہر ٹائون گیا تو عمران خان کو خطاب کرتے دیکھا جو سڑک سے چند فٹ کے فاصلے پر بنائے گئے سٹیج پر تقریر کررہے تھے۔ اس چھوٹے سے پارک میں ٹانواں ٹانواں بندہ دکھائی دے رہاتھا اور ماحول سائیں سائیں کررہاتھا ۔30اکتوبر 2011ء کو لاہور مینار پاکستان کے کھلے صحن میں عمران نے جو جلسہ کیا، اسے گیم چینجر قراردیا جاتاہے۔ عمران کے سیاسی قد کو ان کی جدوجہد نے تو انلارج کیا ہے لیکن اس کو ضرب در ضرب بڑھانے میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتوں کا بھی ہاتھ ہے جو عوام کے لئے کچھ بھی نہیں کرسکیں۔عوام کا اس بحث سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ وہ یہ یاد رکھیں کہ پیپلز پارٹی کے 5سالہ دور میں اسٹیبلشمنٹ ، عدالت ، صحافت اور خود نون لیگ نے ان کی مشکیں کس کر انہیں مارا تھا ،طرہّ یہ کہ پیپلز پارٹی نے خود بھی منیرنیازی والے سارے شوق پال رکھے تھے :
کجھ اُنج وی راہواں‘ اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ ساہنوں مرن دا شوق وی سی
نون لیگ کے سارے شوق بھی پیپلز پارٹی والے ہیں، ان کا ''انجام‘‘ بھی ان سے مختلف دکھائی نہیں دیتا۔دوسری طرف عمران خان کی باکس آفس پوزیشن اس طرح مستحکم ہوچکی ہے کہ وہ جاوید ہاشمی کے مقابلے میں عامر ڈوگر کو سپورٹ کریں تو وہ 20ہزار ووٹ کی لیڈ سے جیتتے ہیں ۔اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار جاوید صدیقی کی ضمانت ضبط ہوگئی جیسے کبھی 97ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے اکثر امیدواروں کی ہوگئی تھیں۔ ہماری تاریخ ہے کہ ہم سیاسی مخالف کو غدار اورڈاکو سے چھوٹا ''رتبہ ‘‘ عطا نہیں کرتے ۔ ابھی کل کی بات ہے جب خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف ''علی بابا‘‘ کو سڑکوں پر گھسیٹا کرتے تھے اور میاں نوازشریف نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف کالا کوٹ پہن لیاتھا۔پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف میموگیٹ سیکنڈل، لانگ مارچ ، دھرنے اور کنٹینر کے ساتھ اسلام آباد میں لنگر انداز ہونے سے کم نہیں تھا۔ امید ہے پیپلز پارٹی اپنے تازہ دم لیڈر بلاول بھٹوکے پیچھے چلتے ہوئے منزل ِ مراد پاجائے گی اور یہ سفر اٹھارہ انیس سال پر محیط بھی نہیں ہوگا۔عمران خان کے بعد اگلا سیاسی ہیروبلاول ہوگا۔
اب اس تبدیلی کی بات کرلیتے ہیں جس کا وعدہ کیا جارہا ہے۔ جاویدہاشمی کی ہار اور عامر ڈوگر کی جیت ! کیا یہ اس تبدیلی کا ٹریلر ہے جو تیزی سے وطن عزیز میں بسنے والے انسانوں کا مقدر بننے جارہی ہے؟بقول عمران اگلاسال الیکشن کا ہے ،فرض کریں آنے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کلین سویپ کرجاتی ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس جیت کے بطن سے کتنا بڑا انقلاب جنم لے گا ؟ اس متوقع تبدیلی میں پہلانام عامر ڈوگر کا لکھ لیتے ہیں جو جاوید ہاشمی کو شکست دے کر تبدیلی کے افق پر ستار ہ بن کر چمکے ہیں۔ تبدیلی اور انقلاب کے آسمان پر باقی ماندہ چمکنے والے متوقع چاند اور ستارے کچھ یوں ہوسکتے ہیں قبلہ شیخ رشید ، شاہ محمود قریشی ، اسد عمر، مسٹر گلزار خان( پشاور کے ار ب پتی خاندان کے چشم وچراغ )غلام سرور خان ، شفقت محمود، عبدالعلیم خان،اعظم سواتی ( جے یو آئی ایف کی ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے اور امریکہ میں ان کاشمار ارب پتیوں میںہوتا ہے )ڈاکٹر شیریں مزاری
(2008ء تک انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز کی سربراہ اور دہشت گردی کی جنگ کی مخالف ،بعد ازاں پی ٹی آئی جوائن کرلی ) خورشید محمود قصوری (پاکستان کی تھری پیس سیاست کے امین ہیں۔آپ جنرل ریٹائرڈ مشرف کے وزیر خارجہ تھے اورآپ کے دور میں ڈرون حملے شروع ہوئے اور آپ کے ہی دور میں ڈالر لے کر امریکہ کو مطلوبہ بندے سپلائی کئے گئے۔ اب قصوری صاحب بھی پی ٹی آئی میں تبدیلی کا روشن ستارہ سمجھے جا رہے ہیںاورجہانگیر ترین ان سے کون واقف نہیں ہے ۔آپ جنرل مشرف کے معتمد ِ خاص رہے اور اب پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان کومتحرک کرنے میں اپنے خصوصی طیارے کے ہمراہ ''حرکت تیز تر کئے ہوئے ہیں‘‘)۔کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کو الیکشن پر خرچہ کرنے کے لئے ہر بار کوئی ''اللہ کا بندہ ‘‘ چاہیے ہوتا ہے ۔انہیں عامر ڈوگر کی شکل میں غائبی امداد مل گئی ہے۔اگرچہ تبدیلی کے اس نئے نظامِ شمسی کے شمس خود عمران خان ہوںگے لیکن تبدیلی کے اس افق پر خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی اپنے ماہتابی اور ہلالی حجم( پہلے یا دوسرے دن کا چاند) کے ساتھ چمکیں گے جن پر اقربا پروری کاالزام لگایاجاتاہے۔
نوازشریف ، چوہدری نثار علی خان، اسحاق ڈار، سرتاج عزیز، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، عابدشیر علی ،رانا مشہود ، رانا ثنا ء اللہ، ماروی میمن اور حمزہ شہبازکی جگہ درج بالاشخصیات حکومت میں آکر کتنی بڑی تبدیلی کا باعث بنیں گی؟ عمران خان ، نواز شریف کے مقابل سیاست کے بھی بہتر کھلاڑی ثابت ہوسکتے ہیں مگر کپتان یہ تو جانتے ہوں گے کہ ورلڈ کپ ایک بہترین ٹیم کے ساتھ ہی جیتا جاسکتا ہے۔بندہ ء صحافی ''سیاست کے خانِ اعظم ‘‘ سے زیادہ غریب کے مقدرکی جیت کے لئے دعا گو ہے ۔