تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     20-10-2014

قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت

علم وہنر اور غورو فکر سے روشن ،توازن سے استوار یا خود فریبی ،محبت یا نفرت کا شکار، عقل کبھی تنہا نہیں ہوتی ۔پھر یہ بھی ہے کہ ہر گروہ کی مہلت مقرر ہوا کرتی ہے۔ پیپلزپارٹی کا آخری وقت شاید قریب آ پہنچا ۔ ع
قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت
کراچی کے جلسہ ٔعام سے پیپلزپارٹی اپنا مقصد جزوی طور پر ہی حاصل کرپائی ۔ دس لاکھ کا ہدف تھا۔ تیاری اور سرگرمی ایسی کہ کم از کم تین لاکھ کی حاضری کا امکان تھا۔ڈیڑھ لاکھ ہی جمع ہوسکے۔ ان میں سے بھی تیس سے چالیس ہزار پولیس والے ۔ کراچی میں پیپلزپارٹی کے حامیوں نے اور بھی زیادہ سرد مہری کا ثبوت دیا، جہاں کورنگی، لانڈھی اور بعض دوسرے علاقے اس کے مضبوط گڑھ ہیں۔ بلاول بھٹو کا خطاب پر جوش اور توقع سے بہتر تھا مگر سامعین کا ردعمل اس سے ہم آہنگ نہ تھا۔شاید وقتی طور پر پارٹی سے فرار کا عمل رک جائے ۔ یہ کہنا البتہ مشکل ہے کہ کب تک ۔یہ سوال بھی ہے کہ اگر سندھ میں عالم یہ رہا تو پنجاب میں کیا ہوگا، جہاں طاقت کا مظاہرہ زرداری صاحب کی اولین ترجیح ہے ۔میدان جنگ یہی ہے اور تحریک انصاف طوفان کی طرح امڈتی چلی آتی ہے۔
بلاول بھٹو کے خطاب سے بھی یہ نکتہ آشکار تھا کہ اصل مسئلہ ان کا عمران خان ہیں۔ آئندہ الیکشن کے حوالے سے بھی انہوں نے وہی کچھ کہا ، تحریک انصاف کی مہم جس کی بنیاد ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ باپ بیٹے کے اعصاب پر کپتان سوار ہے ۔اس نتیجے میں پارٹی لیڈروں پر بھی، جن کا لہجہ اس باب میں اب تلخ سے تلخ تر ہے۔ سینیٹر سعید غنی ایسے شخص نے عام طور پر الفاظ کے انتخاب میں جو احتیاط سے کام لیتے ہیں، تحریک انصاف کی روش کو ''منافقت ‘‘ 
کہا اور اس پر اصرار کرتے رہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان کی پارٹی اب دوسری پارٹیوں ایسی ہے۔ وہی حربے اور وہی انداز۔ سستی مقبولیت کی وہی آرزو اور عامر ڈوگر ایسے وہی امیدوار ۔ اگر یہ منافقت ہے تو نون لیگ اور پیپلزپارٹی پہلے ہی سے اس کا شکار ہیں۔ نمک کی کان میں سب کے سب نمک ہوچکے ؛ باایں ہمہ واضح ہے کہ پہل قدمی اب تحریک انصاف کے ہاتھ میں ہے۔ اسی لیے تو عامر ڈوگر بھاگ کر اس قافلے میں شامل ہوئے ۔ مرغانِ بادنما ہوا کا رخ آدمی سے پہلے پہچانتے ہیں ۔
ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ تحریک انصاف نون لیگ سے بڑی پارٹی بن چکی۔ بلدیاتی الیکشن اگر ہوسکے تو یہ بات واضح ہوگی ۔ اپوزیشن بہرحال وہی ہے۔ پیپلزپارٹی یہ اعزاز کھوچکی تھی۔ کراچی کے جلسۂ عام کے بعد اس تأثر پہ مہر لگ گئی۔
تحریک انصاف کے ایک حامی کا تبصرہ یہ تھا: کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔ چوہا تو نہیں ''دھاڑتا ‘‘ہوا ایک لیڈر برآمد ہوا، اس ادراک کے ساتھ کہ حکومت کے بارے میں نرم رویّہ اگربرقرار اور باقی رہا تو تباہی لائے گا۔تحریک انصاف کی مقبولیت سے وہ پریشان نظر آیا۔ لاڑکانے کا جلسۂ عام اگر غیر معمولی ہوا تو زرداری خاندان کی نیندیں اچاٹ ہوجائیں گی۔ 
یہ احساس پارٹی لیڈروں کی تقاریر میں کارفرماتھا۔ اسی لیے شاید اعتزاز احسن نے کہا کہ پرانے لیڈر اپنی اننگ کھیل چکے ۔ یوسف رضا گیلانی سمیت دوسروں نے ان کی تائید کی۔ کیا ان کا اشارہ منظور وٹو کی طرف تھا، جو جماعت کے مخلص کارکنوں میں بری طرح نامقبول ہیں؟... ان صاحب سے نجات حاصل کرنا ہوگی؛ اگرچہ اس کے باوجود پنجاب میںپارٹی کی فصل شاید ہری نہ ہوسکے ۔عوامی احساسات کی نمائندگی جس تندہی سے عمران خان کررہے ہیں، پیپلزپارٹی کی قیادت نہیں کرسکتی... اور وجوہات واضح ہیں۔
بلاول بھٹو نے جو مؤقف اختیار کیا ہے...اور ظاہر ہے کہ سوچ سمجھ کر ، وہ کچھ زیادہ مدد کرنے والا نہیں۔ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بے نظیر بھٹو کا پیہم حوالہ دے کر ترس کا جذبہ جگانے کی انہوں نے کوشش کی،انگریزی میں اسے Victimhood Cardکہا جاتا ہے ۔ اس میں کامیابی کا امکان کچھ زیادہ نہیںبلکہ تحریک انصاف کے متحرک کارکنوں کی طرف سے جوابی یلغار کا خطرہ بھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو مقبول تھے۔ ایک لیڈر کے طور پر ان کی ہیبت اور اہلیت غیر معمولی تھی ۔عمران خان بھٹو کے ذکر میں اسی لیے محتاط رہا کرتے ہیں۔مگردنیا سے اٹھے انہیں 35برس بیت چکے ۔ ایک پوری نسل پل کر جوان ہوگئی، کل ووٹروں کا جو تقریباً ستر فیصد ہوگی۔ اس نسل نے بے نظیر کو ضرور دیکھا تھا جو پرعزم تھیں مگر کوئی کارنامہ ان کا نہیں تھا۔مالی بے قاعدگیوں کے ان پر سنگین الزامات تھے۔ بھٹو کارڈ 1988ء میں برت لیا گیا ۔بے نظیر بھٹو کے المناک قتل کا فائدہ 2008ء کے الیکشن میں اٹھالیاگیا۔ اس کے بعد فیصلہ زرداری صاحب کی کارکردگی پر ہوا،سندھ حکومت میں جس کا تسلسل جاری ہے ۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ ملک کی بدترین حکومت ہے۔ کرپشن اس میں کوئی عیب ہی نہیں۔ امن وامان کی حالت بدترین ہے۔ نئی صوبائی حکومت قائم ہونے کے بعد پولیس کو بہتر بنانے کی بجائے اسے بگاڑنے اور برباد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اولین تین ماہ کے اندر صرف خیرپور میں 9ایس پی بدلے گئے۔ اگرالیکشن 2013ء میں سندھ میں وہ کامیاب ہوسکی تو سبب یہ تھا کہ اس کا کوئی حریف ہی نہ تھا۔ تحریک انصاف یا نون لیگ نے صوبے میں کام کیا ہوتا تو حالات مختلف ہوتے۔
اعتزاز احسن نے ڈھنگ کی بات کہی۔ ترقی پسندانہ بنیادوں پر پارٹی کی تشکیل نو۔ مظلوم طبقات ، مزدورں، کسانوں اور خواتین کے حقوق کی جدوجہد۔ فیصلہ مگر نعروں پر نہیں،سندھ حکومت کی کارکردگی پر ہوگا ۔پورے کے پورے ماضی کا اسے جائزہ لینا ہوگا۔ خود تنقیدی کا ایک بھرپور عمل۔ کیا وہ اس قابل ہے؟ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران زرداری صاحب نے پشاور ، بلوچستان اور مظفر گڑھ میں بلاول ہائوس تعمیر کرنے کااعلان کیا۔ نظر انداز کردیجیے کہ روپیہ کہاں سے آتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ایک عوامی جماعت کا سربراہ اس انداز فکر کا متحمل کیسے ہوسکتا ہے؟ شاہانہ انداز فکر کا؟ میاں محمد نوازشریف کو شدید تنقید کا سامنا ہے کہ نیویارک کے ایک مہنگے ہوٹل میں وہ رہائش پذیر کیوں ہوئے۔ ایسے میں زرداری صاحب کا یہ طرز عمل عوامی شعور کا مذاق اڑانے کے مترادف نہیں؟ ع
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
وقت بدلتا ہے اور اس کے ساتھ سیاسی قیادت کو بدلنا ہوتا ہے۔ نون لیگ کے لیڈر محسوس کرتے اور نج میں اظہار کرتے ہیں کہ جلاوطنی کے آٹھ برسوں نے شریف خاندان کی قوت ادراک کو متاثر کیا ہے۔ عوامی نفسیات میں در آنے والی تبدیلی کا انہیں اندازہ اور احساس نہیں ۔ زرداری صاحب تو اس سے بھی آگے بڑھ گئے ۔ وہ گویا ابھرتے ہوئے سرگرم درمیانی طبقے کا تمسخر اڑا تے ہیں۔ 
بلاول بھٹو کے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جو تیزوتند جملے تراشنے میں ان کی مدد کرتے ہیں، مگر یہ طرز عمل حد سے زیادہ سادگی ، سہل کوشی اور خود فریبی کو بھی جنم دیتا ہے۔ اخبار میں خبر چھپ جاتی ہے اور ٹی وی پہ تذکرہ ہوتا ہے۔ تجزیہ کرنے والے مگر تجزیہ کرتے ہیں اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انہیں احمق بنایا جارہا ہے۔ ایسے لیڈروں کا انجام معلوم ۔یوں بھی لیڈر سے زیادہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے نقّال محسوس ہوتے ہیں۔کیا دلیپ کمار کے نقّال کو دلیپ کمار سی پذیرائی مل سکتی ہے؟
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ میڈیا اور عدالتوں کی آزادی کے بعد شعبدہ بازی کی سیاست بہت دن باقی نہیں رہتی۔ سیاست کا بہت شعور نہ بھی ہو تو عقل عام سے اس نکتے کا ادراک ممکن ہے ۔ علم وہنر اور غورو فکر سے روشن یا خود فریبی کا شکار۔ عقل مگر کبھی تنہا نہیں ہوتی۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہر گروہ کی مہلت مقرر ہوا کرتی ہے۔ پیپلزپارٹی کا آخری وقت شاید قریب آ پہنچا ۔ ع 
قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved