تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     20-10-2014

نوشتۂ دیوار

اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت وفاق میں واضح اکثریت اور صوبۂ پنجاب میں بھاری اکثریت کے ساتھ قائم ہے، مگر اتھارٹی کا فقدان ہے۔ جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آفیسرز کوتلاشی دے کر اور اپنا سرکاری لائسنس یافتہ ریوالور دھرنے والوں کے حوالے کرکے اپنی ڈیوٹی کے مقام پر جانا پڑے ، تو اس سے قانون کی بے بسی کا ہر کوئی بہ آسانی اندازہ لگا سکتا ہے۔ یہ ایک المیہ بھی ہے اور لمحۂ فکریہ بھی، اس امر کی سنگینی اور دیر پااثرات کے بارے میں کوئی غور نہیں کررہاکہ ہمارے جمہوری نظام کے لئے کیسی روایت قائم کی جارہی ہے اوراس کے نتائج کیا ہوں گے۔ اور جو دام بچھا یا جارہا ہے، اُس میں آگے چل کر کون کون پھنسے گا؟۔ سرِدست اس پر غور کرنے کی کسی کے پاس فرصت نہیں ہے۔ بہرحال یہ نوشتۂ دیوار ہے۔ 
حکومتی ترجمان اپنے بیانوں میںبظاہر بااعتماد ہونے کا تأثر دیتے ہیں اور کبھی استہزا کا انداز بھی اختیار کرتے ہیں ، لیکن اندرسے وہ بھی بے یقینی کا شکار ہوں گے۔ایسے حالات میں بیورو کریسی بھی تذبذب کا شکار ہوجاتی ہے، کیونکہ جب پبلک اجتماعات میں برسرِ عام حکومتی منصب پر فائز کسی سول سرونٹ یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ذمّے دار کو نام لے کر دھمکی دی جارہی ہو کہ ''تمہیں بھی دیکھ لیں گے‘‘ ، تو وہ کب تک استقامت دکھائے گا۔ 
ایسے حالات میں معیشت کا پہیہ بھی یکسوئی کے ساتھ رواں دواں نہیں رہ سکتا، سرمایہ دار، صنعتکار اور تاجر طبقہ ویسے بھی بہت زیادہ حسّاس ہوتاہے اور اگر وہ عدمِ تحفظ کا بھی شکار ہوجائے، تو وہ طویل المیعاد منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں رہتا ہے کہ ع:'' کہیں ایسا نہ ہوجائے ، کہیں ویسا نہ ہوجائے‘‘۔ اسی لئے کہاجاتاہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں سرمایہ دار بین الاقوامی شہری ہوتاہے، یہ اُڑتی چڑیا ہوتی ہے اور محفوظ گھونسلے کی تلاش میں ہوتی ہے، جہاں اسے تحفظ اور امان ملے، یہ اپنا سرمایہ لے کر وہاں پہنچ جاتاہے، سرمائے اور سرمایہ دار کا استقبال کرنے کے لئے ساری دنیا تیار رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ برطانیہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا اور امریکہ وغیرہ میں بھی کوئی تارکِ وطن ایک مقررہ مقدار میں سرمایہ لے کر جائے،تو اسے وہاں فوراً قانونی حیثیت مل جاتی ہے۔ افریقہ ودیگر پسماندہ ممالک میں تو وہاں کے حکمران حصہ دار بھی بن جاتے ہیں یا رشوت لے کر ہر ممکن تحفظ دینے کے لئے تیار ہوتے ہیں ۔ بنگلہ دیش ، سری لنکا، دبئی ، جنوبی افریقہ اور تنزانیہ وغیرہ کی طرف ہمارے سرمائے کی پرواز کا سلسلہ جاری ہے، کیونکہ وہاں انہیں عزت بھی ملتی ہے اور تحفظ بھی ۔ 
لہٰذا جناب عمران خان اور اُن کی پالیسی ساز ٹیم سے گزارش ہے کہ وہ بڑے صنعتکار وں اور سرمایہ داروں کو یقین دلائیں کہ وہ بے دھڑک سرمایہ کاری کے منصوبے بنائیں، اُن سب کو اِن کے مجوزّہ ''نئے پاکستان‘‘ میں پورا پورا تحفظ ملے گا اور بیرونِ ملک سے سرمایہ لے کر آنے والے پاکستانیوں کو مراعات اور ہر قسم کا تحفظ دینے کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی جائے گی۔ اس اعتماد سازی کے لئے انہیں ٹیکس نہ دینے ، یوٹیلیٹی بلزنہ دینے اور اپنے سول نافرمانی کے اعلان کو برسرِعام واپس لیناچاہئے۔ نتائج پر غور کئے بغیر دیر پااور منفی اثرات کے حامل کسی اقدام کا اعلان اول توہونا نہیں چاہئے اور اگر ایسا اعلان کربھی دیا گیا ہے، تو غلطی کا احساس ہونے پر بلا تاخیر اس کی تلافی ضروری ہے ،یہ سُبکی کی بات نہیں ہے بلکہ یہ قیادت کی بالغ نظری اور بڑے پن کی علامت ہوتی ہے،کیونکہ آپ کو اختلاف کا حق حکمران سیاسی قیادت سے ہے، نہ کہ ملک وقوم اور اس کے دیرپامفادات سے۔
حکمرانوں سے بھی ہماری گزارش ہے کہ وہ نوشتۂ دیوار پڑھیں، وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا رُجحان میگا منصوبوں کی طرف ہے، کیونکہ ان کے نقوش تادیر برسرزمین ثبت رہتے ہیں اور عام حالات میں فی نفسہٖ یہ ملک کے اقتصادی ڈھانچے کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میٹروبس، کراچی تالاہور اور گوادر تا چین موٹروے کے اعلانات اُن کی ایسی سوچ اور اُفتاد طبع(Mindset)کا مَظہر ہیں۔
اس وقت سیلاب سے تحفظ کا میگاپروجیکٹ بھی ملک کے لئے ناگزیر ترجیحی صورت بن چکا ہے، یعنی سیلابی دریاؤں کے اطراف ایسے مضبوط بندباندھنا جو ممکنہ طور پر آئندہ عشروں میں آنے والے سیلابوں کو اپنے بطن میں سَمو سکیں اوراُن کی تباہی کے امکانات کو معدوم یا انتہائی حدتک محدود کرسکیں ۔ ذاتی طور پر تو میں خود بھی میگا پروجیکٹس کے حق میں ہوں، ذرا سوچئے ! اگرآج تربیلا ڈیم اور منگلاڈیم نہ ہوتے تو زراعت کے لئے پانی کی دستیابی تودور کی بات ہے، کراچی سمیت بہت سے علاقے پینے کے پانی کو ترس رہے ہوتے،لیکن اس کے لئے پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی ہونی چاہئے،جو اعلیٰ بیوروکریٹس اور اچھی ساکھ رکھنے والے محب وطن معاشی ماہرین کی مشاورت سے ایسے میگامنصوبوں کی ترجیحی فہرست مرتب کرے۔ 
اسی طرح ملک میں بڑے شہروں کے انفراسٹرکچر کو آئندہ دس بیس سال کی ضروریات کا پیشگی تخمینہ لگا کر ترقی دینا اورشہری ضروریات کے ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنابھی ضروری ہے، لیکن اس کے لئے لازم ہے کہ صوبے اپنے پنج سالہ منصوبے میں کم ازکم ہر سال ایک بڑے شہر کو اپنا ہدف بنائیں ، اس سے دوسرے شہروں کے رہنے والوں میں احساسِ محرومی بھی پیدا نہیں ہوگا، ہر ایک کو پیشگی معلوم ہوگا کہ ہماری باری بھی آنے والی ہے اور یہ بھی کہ کب آئے گی، اس طرح سے منفی پروپیگنڈے کا بھی سدِّباب ہوگا۔ 
اسی طرح بجلی کی پیداوار کے منصوبے بھی ناگزیر ہیں ، بلکہ یہ اس وقت کا سب سے اہم شعبہ ہے، جو پوری قوم کی توجہ کا محتاج ہے اور اس کی تفصیلات اور ترجیحی فہرست بھی پارلیمنٹ کی کمیٹی کے توسط سے مرتب ہونی چاہئے اور ایسی کمیٹی کے اجلاس مسلسل اور کسی تعطل کے بغیر جاری رہنے چاہئیں ، کیونکہ ہمارے ملک میں کمیٹی اور کمیشن کانام بہت بدنام ہے اور لوگوں کو پختہ یقین ہوتاہے کہ یہ معاملات کوٹالنے،صیغۂ راز میں رکھنے اور عوام کے جذبات کو فرو کرنے کا ایک حربہ ہے ، عوام کا یہ خدشہ یا الزام کافی حدتک درست بھی ہے۔
اس کالم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ حکومت کو باور کرایاجائے کہ بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں لوگوں کی پہنچ یا قوتِ خرید سے ماورا ہوتی جارہی ہیں ۔ ان اشیائے ضرورت میں سرچھپانے کے لئے مکان، اشیائے خوراک ، بجلی ، گیس اور علاج کے لئے دوائیں اور بچوں کی تعلیم شامل ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ملک کے بیشتر علاقوں میں بجلی اورگیس نہیں تھی، مگراب صورتِ حال اِس کے برعکس ہے۔ حالات بدلنے سے راحت کی بہت سی چیزیں لوگوں کی ضرورت بن جاتی ہیں اور کسی نعمت کے ملنے کے بعد اس سے محرومی لوگوں کے لئے ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔دراصل اب لوگ آسائش کے طلب گار ہیں اور جب وہ حکمرانوں اور معاشرے کے بالائی طبقات ، جن کو آج کل اَشرافیہ کہا جاتاہے، کے طرز زندگی کو دیکھتے ہیں ،تو ان کا جذبۂ محرومی دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہوجاتاہے اور کوئی بھی اسے بہ آسانی بے قابو جذبات میں ڈھال سکتا ہے اور آج کل یہی منظر ہم دیکھ رہے ہیں ۔ جذبات کی رومیں بہنے والوں کے پاس یہ سوچنے کی فرصت نہیں ہوتی کہ آنے والے دودھ اور شہد کی نہریں کہاں سے جاری کریں گے، نہ ہی وہ قول وفعل اور گفتار اور کردار کے تضاد پر نظر رکھتے ہیں ، جس کی طرف ہمارے بعض اہلِ نظر متوجہ کرتے رہتے ہیں ۔ پس معاشرے کے زیریں طبقات کو اشیائے ضرورت میں زرِ اعانت دینے کے بارے میں حکومت کو سوچنا چاہئے۔
عامر ڈوگر صاحب ملتان سے جیت کرایم این اے بن گئے اور اِسے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے تبدیلی کی لہر سے تعبیر کیا ہے، بلکہ دعویٰ کیاہے کہ تبدیلی آگئی ہے، نہ کسی نے عامر ڈوگر صاحب کے ماضی کو کھنگالا، نہ ان کے ماضی کی سیاسی وابستگی پر توجہ دی ہے۔ آپ غور کریں کہ اگربالفرض یہی عامرڈوگر صاحب پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جیت کر اسمبلی میں پہنچتے، تودھاندلی زدہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ڈاکوؤں، چوروں اور کرپٹ لوگوں کے ساتھی کہلاتے ، لیکن اب ماشاء اللہ بپتسمہ ہوگیا ہے اور وہ نئے پاکستان کے معماروں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں ،ع : '' تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا، خوب ہوا‘‘۔
لہٰذا آنے والے دنوں میں قومی انتخاب خواہ موجودہ حکومت کے دورانئے کی تکمیل پر 2018ء میں ہوں یا اس سے پہلے وسط مدتی انتخاب ہوجائیں،آپ تحویلِ قبلہ اور مرجعِ عقیدت کی تبدیلی کے یہی مناظر دیکھیں گے ۔یہی قابلِ انتخاب (Electables) پرندے مختلف آشیانوں کی طرف آپ کو محوِپرواز نظر آئیں گے۔ اسی لئے بہتر ہے کہ بہت بڑی توقعات نہ باندھی جائیں،کیونکہ پھر جب امیدوں کا آبگینہ ایک ایک کرکے کرچی کرچی ہوگا، تواُس کا صدمہ بھی اتنا ہی شدید ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved