شاعرِ افلاس ساغر صدیقی نے کہا تھا ؎
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
یہ شاعر کا ذاتی تجربہ تھا‘قلبی واردات یاجگ بیتی‘ کچھ بھی سمجھ لیجیے ۔ ممکن ہے ساغر نے غم دنیا کو غم یار میں شامل کیا ہو کہ ع
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
ہمارے عہد کے غریب پر ور سوشل ورکر عبدالستار ایدھی کو گزشتہ روز ذاتی طور پر یہ تجربہ ہوا ‘8ڈاکو ایدھی فائونڈیشن ہیڈ آفس میں گھسے اور سماجی کارکن سے نو کروڑ روپے نقد اور پانچ کلو سونا گن پوائنٹ پر لے گئے۔یہ غریبوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ایک فقیر کی کمائی تھی جو ڈاکو لوٹ کر لے گئے۔آصف علی زرداری کے ولی عہد بلاول زرداری کو اس شرمناک واقعہ سے دھچکا لگا ہے اور وہ حیران ہے '' کوئی پاکستانی اس حد تک بھی گر سکتا ہے کہ مفلس اور نادار لوگوں کے لیے جمع کی گئی رقم بندوق کے زور پر لوٹ لے‘‘۔
جن بدبختوں نے ایدھی کو لوٹا انہوں نے اپنی عاقبت خراب کی‘ پتہ چلا کہ اب بنک ڈیفالٹرز ‘ ٹیکس چور اور فنڈز خور اشرافیہ کی طرح ڈاکوئوں نے بھی اپنے بزرگوں کی روایات اور چوری ڈاکے کی اخلاقی اقدار کو ترک کر دیا ہے۔ ورنہ کسی زمانے میں مشہور تھا کہ نامی گرامی ڈاکو امیروں اور طاقتوروں کو لوٹ کر غریبوں میں بانٹتے ہیں۔ اپنے زمانے کے نامور اور شہرہ آفاق سلطانہ ڈاکو ‘ محمد خان ڈاکو اور کئی دیگر کے بارے میں اساطیری کہانیاں زبان زدعام ہیں۔ سندھ کے ڈاکوئوں کی تو شہرت ہی یہ تھی کہ وہ کسی بیوہ ‘یتیم‘ مولوی‘ اُستاد اور سید کے مال پر ہاتھ صاف نہیں کرتے ۔مگر شائد یہ ماضی کے قصے کہانیاں ہیں۔ اب ڈاکو اپنے بزرگوں کے بجائے سکہ بند سیاسی رہنمائوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں گھپلوں سے باز آتے ہیں نہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (EOBI) میں غریب سرکاری ملازمین کی زندگی بھر کی جمع پونجی کو لوٹنے میں مضائقہ سمجھتے ہیں اور نہ اوگرا کا 82ارب روپیہ ہڑپ کرنے پر شرم محسوس کرتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام پیپلز پارٹی کی حکومت نے شروع کیا۔ مقصد غریب خاندانوں بالخصوص مفلس خواتین کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا تھا مگر آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور حکومت میں تین ارب پندرہ کروڑ روپے کی کثیر رقم تشہیری مہم پر خرچ کر دی گئی۔ یہ رقم کہاں اور کس طرح خرچ ہوئی، دفتری ریکارڈ خاموش ہے جبکہ ایک ارب چھیالیس کروڑ روپے ایک اشتہاری کمپنی کو دیئے گئے۔ اس اشتہاری کمپنی کو تشہیری مہم کے لیے منتخب کرنے کی کوئی توجیہہ اب تک سامنے نہیں آئی۔
بیاسی ارب روپے کے اوگرا سکینڈل میں پیپلز پارٹی کے سابق قائم مقام چیئرمین مخدوم امین فہیم ملوث ہیں جن کے اکائونٹ میں ایک کثیر رقم منتقل ہوئی مگر مخدوم صاحب لاعلم رہے۔ جبکہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن میں غریبوں کی کمائی لوٹنے والوں نے دلاورفگار کا مشورہ مانا ؎
لے کے رشوت پھنس گیا ہے
دے کے رشوت چھوٹ جا
کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے پلی بارگین کر لی۔ رقم غریب پنشنرز کی لوٹی گئی جو ہر سال پنشن کی شرح میں اضافے کے لیے شور مچاتے ہیں مگر شنوائی نہیں ہوتی ،فائدہ حکمرانوں کے چہیتے افسروں نے اٹھایا اور لوٹ مار کے بعد اصل زر کی واپسی کی یقین دہانی پر چھوٹ گئے۔
دو سابق وزراء اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویزاشرف رینٹل پاور اور ٹڈاپ (TDAP)کیس میں نیب کو مطلوب ہیں جبکہ موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو حدیبیہ پیپرز ملز اور اثاثہ کیس میں نیب کی مہربانی سے ریلیف مل چکا ہے۔ کسی نے کک بیکس سے مال کمایا ،کسی نے ٹیکسوں کے اخفاء ،چوری اور دیگر ذرائع سے ‘نقصان مفلس نادار عوام کو پہنچا اور غریبوں کو جو مالی فائدہ ہو سکتا تھا، وہ بھی ان مالداروں نے اپنی جیب میں ڈال لیا۔
چند روز قبل بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافے اور بعض ناروا اضافی ٹیکسوں کا نوٹس لیتے ہوئے عدالت عالیہ نے ظالمانہ اضافی ٹیکس ختم کرنے کا تاریخی فیصلہ دیا‘ ابھی اس فیصلے پر عملدرآمد کی نوبت نہ آئی تھی کہ حکومت نے ایکو ولائزر سرچارج کے نام سے تیس پیسے فی یونٹ کا ایک نواز شاہی ٹیکس عائد کر دیا۔ یہ فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کا متبادل ہے۔ جو غریب سو یونٹ بجلی خرچ کرتا ہے وہ تین سو روپے مزید ادا کرے گا، تاکہ ہمارے حکمران اپنے اندرون و بیرون ملک شاہانہ دوروں‘قیام و طعام اور اندرون ملک عیش و عشرت کے اخراجات فراخدلی سے کر سکیں اور انہیں اس مقصد کے لیے ذخیرہ اندوزوں ،ناجائز منافع خوروں اور ٹیکس نادہندگان پر کوئی ٹیکس نافذ نہ کرنا پڑے کہ یہ موجودہ حکومت کے سپورٹر اور ووٹر ہیں‘نواز شاہی ٹیکس صرف ایماندار صارف ادا کریں گے، میٹر ریڈر سے مل کر بجلی چوری کرنے والوں کو بھلا کیا پروا۔
عربی میں کہتے ہیں الناس علی دین ملو کہم(لوگ اپنے حکمرانوں کے پیرو کار ہوتے ہیں )۔ جس معاشرے میں حکمران اور بااثر لوگ ڈاکہ زنی، جیب تراشی اور لوٹ مار شعار کریں ،ٹیکس چوری‘ فنڈز خوری میں ملوث ہوں اور یتیموں‘ بیوائوں ‘ مفلسوں اور معذوروں کی امداد کے لیے قائم اداروں کے اثاثوں اور بچتوں پر ہاتھ صاف کرنے لگیں وہاں کے ڈاکو عبدالستار ایدھی کے دفتر پر دھاوا بولنے میں جھجک کیوں محسوس کریں اور غریبوں کے مال کو مال غنیمت کیوں نہ سمجھیں۔
مزدور شاعر احسان دانش مرحوم نے اپنی خود نوشت سوانح ‘‘جہان دانش‘‘ میں اندرون شہر کے ایک جیب تراش گرو کا واقعہ لکھا ہے ''شاگر د نے شام کو خلیفہ(جیب تراشوں کا گرو) کے سامنے سوا دو روپے رکھ دیئے۔ خلیفہ چلایا ''خبیث سارے دن میں سوا دو روپے‘ بے ایمان کس غریب کو مار دیا؟‘‘ ۔شاگرد نے کہا ''کیا بتائوں خلیفہ! میں نے تو کئی ہزار پر ہاتھ مار دیا تھا مگر وہ کم بخت انگریز نکلا۔سوچا کہ قیامت کے دن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم سے شکایت کی کہ آپ کے امتی نے میرے امتی کی جیب کاٹی تھی تو حضورؐ کو ملال ہوگا۔ یہ خیال آتے ہی میں نے بٹوہ واپس کر دیا۔ایک سیٹھ کی جیب ٹٹولی مگر اس کی جیب سے صرف سوا دو روپے نکلے‘‘۔خلیفہ نے شاگرد کی پیٹھ ٹھونکی، دس روپے انعام دیا اور کہا '' خدا تیرا ایمان روشن کرے، تو نے امت کی لاج رکھ لی‘‘۔اب وہ زمانہ لد گیا جب جیب تراش ‘راہزن اور ڈاکو بھی واردات کرتے ہوئے اپنے پیشہ کی اخلاقیات کو ملحوظ رکھتے اور ایسی گھٹیا حرکت نہ کرتے جس سے ان کاسفلہ پن ظاہر ہو مگر جب سیاست اور حکمرانی میں اصول‘ ضابطے‘ قاعدے‘ قرینے اور اخلاقی اقداروروایات کا پاس لحاظ ختم ہوا‘ مخدوم‘ سردار‘ جاگیر دار‘ وڈیرے ‘ خان اورچودھری سفلے پن پر اترے‘صدر‘وزیر اعظم ‘ گورنر ‘ وفاقی اور صوبائی وزراء کے ندیدہ پن کی داستانیں عام ہوئیں‘ ملازمتیں بکنے ‘ قومی خزانہ لٹنے اور سرکاری املاک اپنوں میں ریوڑیوں کی طرح بٹنے کی کہانیاں ذرائع ابلاغ کی زینت بنیں تو پیشہ ور لٹیروں نے بھی ریت رواج چھوڑ رہبروں اور رہنمائوں کی پیروی شروع کر دی۔ اب کسی غریب کا گھر سلامت ہے نہ کھوکھا دکان اور نہ ایدھی صاحب کا ہیڈ آفس۔حکمران اشرافیہ میں کسی کو عوام کے سامنے شرمندگی کی فکر ہے، نہ ڈاکوئوں کو روزِ قیامت اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کے روبرو ندامت کا خیال۔
آدمی گلہ مگر کس سے کرے اور دوش کس کو دے ۔ہر طرف اندھیر نگری ہے اور چوپٹ راج ۔شاعر کے خیال میں ؎
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
مگر یہ سلطانیٔ جمہور کا زمانہ ہے صرف سلطان سے نہیں انہیں تخت پر بٹھانے والے عوام بھی ذمہ دار ہیں جو ووٹ دیتے وقت کسی کا ماضی دیکھتے ہیں نہ کردار اور نہ لوٹ مار کی عادت ۔ یہاں پوری قوم یرغمال ہے اور اس کی جمع پونجی دن دیہاڑے لوٹی جا رہی ہے ۔ ایدھی صاحب خدا کا شکر ادا کریں کہ آنے والے ڈاکو تھے‘ لوٹ کر چلے گئے‘ کسی سیاسی بھتہ خور کے ہتھے چڑھتے تو نقصانِ مایہ و شماتت ِ ہمسایہ کے علاوہ جان کے زیاں کا بھی خطرہ تھا۔ حکیم سعید مرحوم کا حشر یاد رکھیں۔!