تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     21-10-2014

سعودی عرب شناسی

سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات برادرانہ ہیں۔ وقت حاضر میں جب دونوں ممالک کے اردگرد سکیورٹی خدشات منڈلا رہے ہیں پاک سعودی تعاون کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ میں سعودی عرب میں سات سال بطور سفارت کار رہا ہوں اور وہاں کے نظام کو قریب سے دیکھاہے۔ سعودی عرب میں تقریباً دو ملین یعنی بیس لاکھ پاکستانی کام کررہے ہیں اور زرمبادلہ کی ترسیل کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہیں۔
میرا یہ مشاہدہ ہے کہ عام پاکستانی سعودی عرب کے بارے میں بہت ہی محدود معلومات رکھتا ہے۔ جیسے ہی سعودی عرب کا ذکر ہوتا ہے تو جو تصورات فوراً ذہن میں گھومتے ہیں وہ ہیں حرمین اور حج اور اسکے علاوہ تیل کی دولت۔ لیکن اس کے علاوہ سعودی عرب کی بہت سی خصوصیات ہیں جن کا ذکر عام قاری کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ سعودی معاشرہ تبدیل ہورہا ہے لیکن دھیرے دھیرے۔وہاں عام خیال یہ ہے کہ کوئی بھی اچانک تبدیلی سودمند ہونے سے زیادہ نقصان دہ بھی ہوسکتی ہے۔
پچھلے دنوں خبر پڑھی کہ سعودی خواتین کار ڈرائیونگ کا حق حاصل کرنے کے لیے پھر سے کوشاں ہیں تو میرے ذہن میں فوراً جنوری 1991ء کی یاد تازہ ہوگئی جب دوسری گلف وار ہورہی تھی۔ ریاض کا ایئربیس میزائلوں کا ہدف تھا اور ہمارا گھر ایئربیس سے زیادہ دور نہ تھا۔ درجنوں میزائل عراق سے داغے گئے لیکن ایک بھی ایئربیس کے اوپر نہ گرا البتہ ایک میزائل ہمارے کمپائونڈ کے خاصا قریب گرا۔ مجھے یاد ہے اکثر پاکستانیوں نے اپنی فیملیز کو ریاض سے دور شفٹ کردیا تھا۔ وہ دن کو ریاض میں کام کرتے تھے اور رات کو اپنے بچوں کے پاس ریاض سے باہر چلے جاتے تھے۔ اس لیے کہ میزائلوں کی بارش رات کو ہی ہوتی تھی۔ البتہ پاکستانی سفیر جناب ولی اللہ خویشگی، تمام افسر اور عملہ دوران جنگ سعودی دارالحکومت میں ہی رہے۔ مجھے یاد ہے کہ سول ڈیفنس کی ہدایات کے مطابق ہم رات کو گرائونڈ، فلور پر سیڑھیوں کے نیچے سوتے تھے۔ 
پوری دنیا میں سعودی عرب واحد ملک ہے جہاں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں۔ جنگ جاری تھی کہ ایک روز پتہ چلا کہ پچاس کے قریب سعودی خواتین ایک سپر مارکیٹ کی پارکنگ میں جمع ہوئیں اور ایک گروپ کی شکل میں ڈرائیو کرتی ہوئی ریاض کی سڑکوں پر آگئیں۔ زیادہ دور نہ گئی تھیں کہ پولیس نے روک لیا۔ چند گرفتاریاں ہوئیں حکومت اپنے موقف پر قائم رہی کہ خواتین کو گاڑیاں چلانے کی اجازت نہ دے گی۔ سعودی عرب کئی لحاظ سے ترقی پسند ہے اور کئی لحاظ سے قدامت پسند۔ اس قدامت پسندی کی بھی وجوہ ہیں جن کا ذکر ذیلی سطور میں آئے گا۔
اب خواتین کو ڈرائیونگ کی ممانعت دینا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ سعودی کلچرل مسئلہ ہے ۔باقی تمام اسلامی ممالک بشمول ایران اور پاکستان میں خواتین کاریں چلاتی ہیں بلکہ ہندوستان میں مسلم خواتین دوپٹہ اوڑھے موٹرسائیکل چلاتی بھی نظر آتی ہیں۔ بہرحال حالت جنگ میں سعودی خواتین جو ڈرائیونگ کا حق مانگ رہی تھیں ان کے دلائل وزنی تھے۔ ایک دلیل تو یہ تھی کہ نامحرم ڈرائیوروں کے ساتھ سفر کرنے سے بہتر ہے کہ خواتین خود کار چلائیں۔ دوسرا استدال یہ تھا کہ کچھ خاندان جن کے مرد زیادہ تر فوج میں تھے وہ فرنٹ پر گئے ہوئے تھے ایسی صورت میں یہ خاندان غیر محفوظ محسوس کررہے تھے ۔ شہر چھوڑنے کی صورت میں ضروری تھا کہ خواتین بچوں کو کار میں بٹھائیں اور محفوظ مقام پر لے جائیں لیکن حکومت نے اس وقت اس ڈیمانڈ کو نہیں مانا اور آج بھی خواتین کی ڈرائیونگ کے حق کے لیے کوشش جاری ہے اس لیے کہ زمانہ بدل چکا۔ بے شمار سعودی خواتین باہر سے پڑھ کر آئی ہیں، وہ ڈرائیونگ لائسنس رکھتی ہیں اور کاریں چلانا چاہتی ہیں۔
پورے سعودی عرب میں ایک بھی سینما نہیں، مگر ویڈیو کی دکانیں موجود ہیں۔ تازہ ترین بالی وڈ اور ہالی وڈ کی فلمیں دستیاب ہیں اور لوگ گھروں میں دیکھتے ہیں۔ ایک زمانے میں مصر اور لبنان میں بہت اچھی عربی فلمیں بنتی تھیں۔ آج کل عربی سینما زوال پذیر ہے لیکن ٹی وی سیریل بہت مقبول ہیں۔ پورے سعودی عرب میں کوئی چرچ نہیں، کوئی مندر نہیں۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ فوجداری مقدمات میں وہاں وکیل نہیں کیاجاسکتا۔ ایسے مقدمات میں طرفین خود ہی اپنی وکالت کرتے ہیں ۔جج اسلامی قوانین سے خوب واقف ہیں ۔میں نے اپنے سات سالہ قیام میں کبھی یہ نہیں سنا کہ کسی جج پر رشوت لینے کا الزام بھی لگا ہو۔ فیصلے جلد ہوتے ہیں اور سزائیں سخت۔ لہٰذا لا اینڈ آرڈر کی صورت حال تسلی بخش ہے۔ وکلا کا کام صرف سول تنازعات تک محدود ہے۔
سعودی عرب کو سمجھنے کے لیے اس عمرانی معاہدے کا ذکر ضروری ہے جو 1744ء میں آل سعود اور آل شیخ کے درمیان ہوا۔ آل شیخ محمد بن عبدالوہاب کے خاندان سے ہیں ۔وہ اپنے آپ کو اسلامی اقدار اور شرعی تشخص کا امین سمجھتے ہیں۔ اگر آپ کسی سعودی کو وہابی کہیں گے تو وہ آپ کی بات کا برامنائے گا اور استدلال یہ ہوگا کہ امام محمد بن عبدالوہاب نے کوئی نیا فقہی مسلک ایجاد نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا کہ شرک اور بدعت سے بچیں اور اس دین اسلام کی طرف رجوع کریں جو نبی اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کے وقت رائج تھا۔
اب ان وجوہ کی طرف آتے ہیں جو تبدیلی کی راہ میں حائل رہی ہیں۔ گوکہ اقتدار صحیح معنوں میں آل سعود کے ہاتھوں میں رہا ہے لیکن علماء کی اہمیت سعودی سوسائٹی میں مسلم ہے۔ وزارت تعلیم اور وزارت عدل میں آج بھی آل شیخ کا اثرو نفوذ واضح طور پر نظر آتا ہے۔ شاہ عبدالعزیز جو کہ ماڈرن سعودی عرب کے بانی ہیں، بہت دور تک سوچتے تھے۔ انہوں نے امریکہ اور مغربی ممالک سے قریبی تعلقات استوار کیے۔ ان کے زمانے میں سعودی عرب میں پہلی مرتبہ ٹیلی فون متعارف ہوا۔ علماء نے اس نئی ایجاد کی مخالفت کی۔ بادشاہ نے اپنے محل کے ایک کمرے میں ایک عالم دین کو بٹھایا اور اس سے کافی دور دوسرے کمرے میں دوسرے عالم کو۔ دونوں کمروں کے درمیان ٹیلی فون کا رابطہ تھا۔ بادشاہ نے ایک عالم دین سے کہا کہ وہ کلام پاک کی تلاوت کرے اور پھر دوسرے کے پاس جاکر پوچھا کہ اس کے کان میں کیا آواز آرہی ہے۔ اس تجربے کے بعد علماء قائل ہوگئے کہ سائنسی ایجادات کو نیک مقاصد کے لیے بھی استعمال کیاجاسکتا ہے۔
1970ء کی دہائی کے اوائل میں سعودی عرب میں تیزی سے ترقی ہونے لگی۔ جب بھی معاشرہ تیزی سے تبدیل ہونے لگے تو بنیاد پرست عناصر جدیدیت کی مخالفت کرنے لگتے ہیں۔ سعودی عرب میں ٹیلی ویژن کی بہت مخالفت ہوئی۔ 1975ء کی بات ہے شاہ فیصل حکمران تھے ،انہیں ان کے ایک بھتیجے نے شہید کردیا۔ قاتل کا موقف تھا کہ ٹی وی ایک ایسی ایجاد ہے جو کہ سعودی معاشرے میں بے حیائی کے فروغ کا سبب بنے گی حالانکہ یہ غلط بات تھی، آج بھی سعودی ٹی وی چینلز اسلامی اقدار کی پوری پاسداری کرتے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی کی بدولت آج ہم ہر وقت حرم مکی میں طواف اور مسجد نبوی کو دیکھ سکتے ہیں۔ پچھلے ماہ ریاض میں میری ایک سعودی یونیورسٹی پروفیسر سے ملاقات ہوئی ۔میں نے پوچھا کہ آپ صرف لڑکوں کو پڑھاتے ہیں ؟ جواب ملا کہ نہیں میں لڑکیوں کو بھی پڑھاتا ہوں البتہ وہ علیحدہ کمرے میں بیٹھتی ہیں اور کیمرے کے ذریعے لڑکیوں کے کلاس روم میں میرا لیکچر ایک سکرین کے ذریعے دیکھا اور سنا جاتا ہے۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج کا سعودی عرب جدید ٹیکنالوجی استعمال ضرور کررہا ہے لیکن اسلامی اقدار کے اندر رہ کر ۔سعودی عرب کا رقبہ پاکستان سے دوگنا ہے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔ 1960ء کی دہائی میں سعودی عرب کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا تھا مگر آج یہ ملک ترقی یافتہ ممالک کے گروپ ڈی 20کا ممبر ہے۔ ینبوع اور جبیل بہت بڑے صنعتی شہر ہیں۔ آل سعود نے اس وسیع و عریض ملک کو متحد اور ترقی کے سفر کو جاری رکھا ہے مگر اسلامی اقدار کو بھی مضبوطی سے تھاما ہوا ہے۔ قابل تحسین بات یہ ہے کہ ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب سپرنگ کے اثرات سعودی عرب تک نہیں پہنچے۔ خادم الحرمین شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کو صحیح معنوں میں رفاہی مملکت بنایا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ ہسپتال ،سکول اور یونیورسٹیاں عوام کی پہنچ میں ہیں۔ صحت، تعلیم اور مواصلات کا نظام بہت اچھا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کی رٹ چپے چپے پر ہے۔ آج کل ہونے والی حرمین کی توسیع تاریخ میں سب سے بڑی توسیع ہے۔
سعودی عرب پاکستان سے برادرانہ تعلقات رکھتا ہے اور برادر شناسی تمام پاکستانیوں کے لیے ضروری ہے مگر مکمل شناسائی کے لیے متعدد کالم درکار ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved