تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     21-10-2014

کلنٹن‘ بش‘ اوباما اور کشمیر

لائن آف کنٹرول ، سیا لکوٹ اور شکر گڑھ کے مختلف سیکٹروں سے متصل پاکستانی حدود میں بھارتی فوج کی مسلسل گولہ باری پر اقوام عالم بے حس و حرکت ہیں۔ دنیا کے ہر اصول اور قانون کو نظر انداز کئے جانے پر کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ اقوام متحدہ ، امریکہ اور برطانیہ سمیت سب طاقتیں بھارت کے آگے بے بس ہو چکی ہیں؟۔کیا وہ پاکستان کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس؟ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنی انتخابی مہم میں دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بر صغیر میں عرصۂ دراز سے حل طلب مسئلہ کشمیر ان کے ایجنڈے میں شامل ہے، مگر انتخاب جیتنے کے بعد جب وہ نئی دہلی ائر پورٹ پرپہنچے تو نا معلوم'' دہشت گرد‘‘ نے مقبوضہ کشمیر کے گائوں چائی سنگھ پورہ میں '' 21/3‘‘ کروا کر انہیں اور ان کی بیٹی چیلسی کوخاموشی سے واپس بھارت جانے پر مجبور کر دیا۔ 
موجودہ امریکی صدر اوباما نے بھی اپنی انتخابی مہم میں بر صغیر کی دو ایٹمی قوتوں کے درمیان دہکتے آتش فشاں کشمیر کی آگ ٹھنڈی کرنے کا وعدہ کیا تو '' دہشت گردوں‘‘ نے ممبئی میں ''26/11‘‘کروا دیا۔ امریکی اور برطانوی پالیسی ساز کیا اب بھی سمجھتے ہیں کہ بھارت کشمیر پر بامقصد بات چیت کیلئے سنجیدہ ہے ؟کیا وہ نریندر مودی اور بی جے پی کو اعتماد میں لینے کیلئے مخلص ہیں؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے بنیادی اختلافات پر ان کی سوچ واقعی مثبت ہے ؟۔ 
کشمیر اور دوسرے تصفیہ طلب امور پر پاک بھارت با مقصد تصفیہ کی راہ میں 26/11 کی دہشت گردی کی تکرار بھارتی حکومت کی طرف سے نئی بات نہیں ہے۔ جب سیا چن سے بھارتی فوج کی واپسی کا تصفیہ ہونے کو تھا ، نئی دلی میں پارلیمنٹ پر حملے کی ''فرینڈلی شوٹنگ ‘‘ کو بہانہ بنا یا گیا۔ 21 مارچ 2000ء میںجب امریکی صدر بل کلنٹن اپنے وعدے کے مطا بق کشمیر کے ممکنہ حل کیلئے بھارت پہنچے تو اگلی صبح چائی سنگھ پورہ کے بے چارے36 سکھوں کے خون کی ہولی کھیل کر پورے بھارت میں پاکستان مخالف مظاہروں کی یورش کر دی اور بھارتی قیادت نے امریکی قیادت کو یہ کہتے ہوئے راہ فرار اختیار کرلی کہ ان حالات میں کشمیر پر کوئی بات کرنا بی جے پی کے لیے سیا سی خود کشی ہو گی۔ مارچ 2006ء کو واشنگٹن میں امریکہ کی سابق سیکرٹری آف سٹیٹ میڈلین البرائٹ کی کتاب'' THE MIGHT AND THE ALMIGHTY'' کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے بل کلنٹن یہ کہتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے کہ کاش مارچ 2000ء میں پاکستان اور بھارت کا دورہ نہ کرتا۔ سابق امریکی صدر نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ افسوس ان کے دورۂ ہندوستان کی ابتدا مقبوضہ کشمیر کے گائوں چائی سنگھ پورہ میں 36بے گناہ اور معصوم سکھوں کے سفاکانہ قتل عام سے کی گئی۔ امریکی سی آئی اے، پینٹگان،سینیٹ اور کانگریس کا ریکارڈ گواہ ہے کہ امریکی صدر کلنٹن کا یہ دورہ برصغیر مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف انتہائی اہم قدم تھا، جسے بھارتی ایجنسیوں نے سبو تاژ کر کے رکھ دیا۔سکھوں کے قتل عام کے فوری بعد 22 مار چ 2000ء کو بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے قومی سلامتی کے مشیر برجیس مشرا نے فوری طور پر اکانومسٹ لندن سے کہا کہ چائی سنگھ پورہ میں36 سکھوں کے قتل عام نے بھارت اور امریکہ کو اور قریب کر دیا ہے لیکن اس کے چھ سال بعدسابق بل کلنٹن نے شدید دکھ کا اظہار کیا۔21مارچ 2000ء کی صبح بل کلنٹن جب ڈھاکہ سے نیو دہلی پہنچے تو بھارتی میڈیا کے سوال پر عالمی پریس کے سامنے کھل کر کہا کہ تحریک کشمیر دہشت گردی نہیں ہے۔ ان کے اس بیان کو دنیا کے تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز نے شہ سرخیوں سے شائع کیا۔ جس پر بھارتی پالیسی ساز تلملا اٹھے اور امریکی صدر کے ہمراہ آئے ہوئے عالمی میڈیاکی آنکھوں میں دھول 
جھونکنے کیلئے بھارتی فوج نے ایک وحشیانہ کھیلا، اس کے لیے نوے فیصد سکھوں اور دس فیصد مسلمانوں کی آبادی والے مقبوضہ کشمیر کے ایک چھوٹے سے گائوں چائی سنگھ پورہ کا انتخاب کیا اور 22 مارچ 2000ء کی صبح بھارتی ملٹری انٹیلی جنس نے وہاں کے 36 سکھوں کو دو قطاروں میں کھڑا کر کے گولیوں سے اڑا دیا۔اگلے دن چائی سنگھ پورہ کی چھوٹی سی مسجد میں پہلے سے گرفتار کشمیریوں کو جدید اسلحہ سمیت ہلاک کر کے وہاں پھینک دیا اور ایک جعلی مقابلہ بنا کر ساری دُنیا کو ٹی وی چینلوں کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ یہ کارروائی پاکستانی مجاہدین کی تھی اور جنہیں بھارتی فوج نے ختم کر دیا ہے۔ تاہم، عالمی میڈیا اس پر مطمئن نہیں تھا کیونکہ سنگھ پورہ کی مسجد سے صرف تین لاشیں بر آمد ہوئیں ۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ جس گائوں کی آبا دی کا کل دس فیصد مسلمان ہوں، اس میں تین کشمیری مجاہد کس طرح90 فیصد آبا دی کو بغیر ہاتھ پائوں باندھے قتل کر سکتے ہیں؟جبکہ بھارتی فوج کا کیمپ بھی اس گائوں سے صرف دو کلو میٹر کے فا صلے پر تھا جس کی کمان بریگیڈئیر آر کے کروال کر رہے تھے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج اور تین لاکھ پیرا ملٹری فورس تعینات ہونے کے با وجود بھارتی فوج اس قتل عام کے آٹھ گھنٹے بعد
سنگھ پورہ پہنچی؟۔صرف دو کلومیٹر دور صبح کے وقت ان تک مشین گنوں کی فائرنگ کی آوازیں کیوں نہ پہنچیں؟۔بھارتی ایجنسیاں اور ان کا میڈیاپاکستان کو دنیا میں بد نام کرنے کیلئے سکھوں اور نچلی ذات کے ہندئووں کی خود ہی بلی چڑھا کر شور مچانا شروع کر دیتا ہے۔ مثلاًجب خالصتان تحریک زوروں پر تھی تو بھارتی ایجنسیوں نے کینیڈا سے بھارت آنے والا ائیر انڈیا کا طیار ہ فضا میں تباہ کر دیا، جس میں عملہ سمیت 300 افراد ہلاک ہو گئے۔ بھارتی را نے فوری طور پر اس کی ذمہ داری پاکستان اور سکھ حریت پسندوں پر ڈالنے کی کوشش کی تاکہ کینیڈا میں مقیم سکھوں کی تنظیموں کو دہشت گرد ثابت کر دیا جائے لیکن جب عالمی ایجنسیوں نے اس سانحہ کی تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ بھارتی انٹیلی جنس نے اس طیارے میں ٹائم بم نصب کرنے کے بعد انڈین ائیر فورس کا سامان اس طیارے میں لادنے کے بہانے شیڈول سے ہٹ کر ایک گھنٹہ زائد صرف کر دیا جس کی وجہ سے طیارہ سٹاپ اوور کیلئے لیٹ ہو گیا۔ اس طرح وہ طیارہ اور تین سو مسافرپاکستان اور سکھ حریت پسندوں کو بدنام کرنے کیلئے بھارت کی تیار کی گئی بلی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ چانکیہ کے پیروکاروں نے کشمیر، سیاچن اور سرکریک کو کبھی سمجھوتہ ایکسپریس کبھی مالے گائوں، اجمیر شریف، پونابیکری، مکہ مسجد ، کبھی پارلیمنٹ تو کبھی ممبئی کے 26/11 کی صورت میں تیار کی جانے والی سانپ سیڑھی کا کھیل بناکر رکھ دیا ہے۔۔۔۔! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved