یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد‘ قومی سیاست میں جو ٹھہرائو آنا چاہیے تھا‘ وہ ابتدائی دور میں آ چکا تھا۔اگر نئی حکومت‘ نوازشریف کے روایتی انداز میں‘ تیزرفتاری سے اصلاحات شروع کر دیتی‘ تو ممکن تھا وہ ٹھہرائو‘ استحکام میں تبدیل ہو جاتا۔ اس کی مثال نوازشریف کی سابقہ دو حکومتیں ہیں۔ 1990ء میں جب وہ پہلی مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنے‘ تو ان کے عزائم بڑے اور خیالات میں تازگی اور عزم تھا۔ انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے‘ برسوں سے منجمد معیشت کو متحرک کر کے‘ نئی راہوں پر ڈال دیا۔ بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے شروع کئے‘ جن کا عوام سے براہ راست تعلق تھا۔ نئی نئی سکیموں کی بھرمار کر دی‘ جو معاشی سرگرمیوں میں اضافے کا باعث بنیں۔ روزگار کے دروازے تیزی سے کھلنے لگے۔ وہ پہلا اور آخری موقع ‘ نوازشریف کے دور اقتدار ہی میں آیا‘ جب پاکستانی روپے کی قیمت بھارت سے بڑھ گئی تھی۔ ہم ایک خوشحال مستقبل کی طرف دیکھنے کے قابل ہو گئے تھے۔ قوم کی خوداعتمادی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ دوسری مرتبہ وہ پھر اصلاحات کی ایک طویل فہرست لے کر قوم کے سامنے آئے۔ انہوں نے قوم سے‘ اپنے پہلے ہی خطاب میں‘ 60 سے زیادہ اصلاحاتی اقدامات کی فہرست پیش کر دی اور جتنے وعدے کئے تھے‘ ان پر تیزرفتاری سے عملدرآمد بھی شروع ہو گیا۔ موٹروے جو نامکمل رہ گئی تھی۔ بی بی کی حکومت میں اس کی تعمیر روک دی گئی تھی‘ نوازشریف نے فوراً تعمیر کا رکا ہواکام دوبارہ شروع کر دیا۔ موٹروے اتنی تیزی سے مکمل کر دی کہ نئی حکومت کے دوسرے ہی سال میں‘ اسے ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا۔ میں نے انتہائی اختصار سے وہ فرق واضح کرنے کی کوشش کی ہے‘ جو 2013ء کے بعد کی نوازشریف حکومت اور اس سے پہلے کی دو حکومتوں میں ہے۔ اس مرتبہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے قوم سے خطاب ہی نہیں کیا۔ کسی بھی نومنتخب قومی لیڈر کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ عوام کو براہ راست اعتماد میں لے کر‘ نئے دورحکومت کے آغاز میں ہی ‘عوام کو اپنے منصوبوں اور پروگرام سے آگاہ کرے اور بتائے کہ وہ‘ اپنی نئی حکومت سے کیا کیا توقعات وابستہ کر سکتے ہیں؟ نوازشریف نے ایسے خطاب کے لئے قومی نشریاتی اداروں کا انتخاب کیا تھا۔ جبکہ متعدد نومنتخب لیڈر‘ کانگریس یا پارلیمنٹ میں خطاب کر کے یہی مقصد پوراکرتے ہیں۔ گویا دو بنیادی نوعیت کی فروگزاشتیںیا خطائیں ہو گئیں۔ ایک یہ کہ نوازشریف نے اپنے نئے دوراقتدار کی ابتدا میں عوام کو اعتماد میں لینے کی زحمت نہیں کی اور دوسری یہ کہ اپنے قلیل مدتی ایجنڈے کا اعلان نہیں کیا تاکہ عوام اپنی امیدوں اور توقعات کو انہی حدود کے اندر محدود رکھیں‘ جو منتخب لیڈر اپنے ایجنڈے میں بیان کر دیتا ہے۔ انسانی توقعات کا اپنا ایک نظام ہوتا ہے۔ لیڈر کا کام یہ ہوتا ہے کہ و ہ عوامی توقعات کو ‘ معینہ حدود میں رکھے۔ یعنی عوام اتنی ہی امیدیں اور توقعات وابستہ کریں‘ جن کا تعین کر دیا گیا ہو۔ جب آپ میدان کھلا چھوڑ دیتے ہیں‘ تو پھر عوامی توقعات کی نہ کوئی حد رہتی ہے‘ نہ حساب۔ وہ جو چاہتے ہیں‘ اسی کی آس لگا بیٹھتے ہیں اور لامحدود توقعات کو پوراکرنا کسی ملک کی انتظامیہ کے اختیار میں نہیں ہوتا۔
نوازشریف کے موجودہ دوراقتدار میں یہی کچھ ہوا۔ وزیراعظم نے عوامی توقعات کو لامحدود اور بے لگام چھوڑ دیا۔ عوام نے بھی اپنی خواہشوں کو بے لگام چھوڑ دیا‘ جیسا کہ ہوا کرتا ہے۔دوسری ستم ظریفی یہ تھی کہ نوازشریف نے ‘اپنے سابقہ ریکارڈ کے مطابق‘ عوامی مفادات سے‘ براہ راست تعلق رکھنے والے شارٹ ٹرم منصوبے‘ عوام کے سامنے پیش نہیں کئے۔ پیش کرنا تو دور کی بات ہے‘ شروع ہی نہیں کئے۔اپوزیشن نے رواج کے مطابق‘ عوام اور وزیراعظم کے مابین پیدا ہونے والے خلا میں‘ الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ عوام کو جو مشکل بھی پیش آتی‘ وہ اسے حکومت کی غلطی یا عوامی مسائل سے بے توجہی بنا کر‘ پیش کرتے رہے۔عوام میں حکومت کے غیرفعال ہونے کا تاثر پیدا ہوتا گیا۔ وزیراعظم نے ایک خطاب کے ذریعے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ خطاب بے موقع‘ غیر موثر اور تاخیر سے تھا۔ ٹرین چھوٹ چکی تھی۔ جب کوئی حکومت پہلے سال میں کچھ نہ کر پائے‘ تو پھر اس کے وعدوں پر اعتماد کی گنجائش کم رہ جاتی ہے۔ بے شک نوازحکومت نے عوام کی فوری تکالیف کو دیکھتے ہوئے‘ اپنی توجہ زرمبادلہ کے خطرناک حد تک گرتے ہوئے ذخائر کو بہتر بنانے پر مرکوز کردی۔ گردشی قرضوں کی فوری ادائی پر زور دیا۔ لوڈشیڈنگ کے تکلیف دہ دورانیے کم کرنیکی خاطر‘ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے توشروع کر دیئے، لیکن ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں‘ جس کے نتائج 15مہینے گزرنے کے بعد بھی عوام نے محسوس کئے ہوں۔ مایوسی اور غصے کے جذبات پیدا نہ ہوتے‘ تو کیا ہوتا؟ جمہوری حکومتوں کو لامحدود مدتیں نہیں ملا کرتیں۔ان کا عرصہ اقتدار چار پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوتا۔ انہیں آتے ہی ایسے کام کرنا پڑتے ہیں‘ جن سے عوام کو فوری فوائد پہنچنے لگیں۔ یہ فوری فوائد عوام کی مایوسیوں میں کمی کر دیتے ہیں اور آئندہ کیلئے اچھی توقعات کی گنجائشیں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ ایسا نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کے اندر‘حکومتی کارکردگی کے بارے میں‘ بے یقینی اور مایوسی پیدا ہونے لگی۔ حزب اختلاف نے اس کا پورا پورا فائدہ اٹھایا۔اس کا کام بھی یہی ہے۔
ہمارے ملک میں انتخابی نتائج ہمیشہ ہی متنازعہ رہے اور ایک دو جماعتیں ایسی ضروری ہوا کرتی تھیں‘ جو اپنے خلاف دھاندلی کا شور مچاتیں، لیکن عوام انہیں خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ 2013ء کے انتخابات ایسے تھے‘ جن کے نتائج پر ہر کسی نے شک و شبہ کا اظہار کیا۔ کسی نے کم‘ کسی نے زیادہ، لیکن نتائج پر کسی نے بھی اظہاراطمینان نہیں کیا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے‘ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے‘ جنہیں دوسروں کے مقابلے میں دھاندلی کی زیادہ شکایت تھی‘ قومی اسمبلی کے چار حلقے چن کر ‘ ان میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر دیا۔ یہ مطالبہ شروع میں ہی تسلیم کر کے‘ دوبارہ گنتی کا موقع دے دیا جاتا‘ تو میرے اندازے کے مطابق‘ اس میں حکومت کے لئے خطرے کی کوئی بات نہیں تھی۔ جن چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ ہوتا رہا‘ ضروری نہیں تھا کہ وہاں تمام کے تمام نتائج غلط ثابت ہوتے۔ ایک دو کا فرق یقینا پڑ جاتا۔ فرض کیا چاروں نتائج ہی غلط نکلتے‘ تو بھی
بلاتاخیر ضمنی انتخابات کا اعلان کر دیا جاتا۔ حکومت ان میں سے تین نہیں‘ تو کم از کم دو حلقوں میں آسانی سے کامیاب ہو سکتی تھی۔ حکومتی مشیروں نے ایوان اقتدار میں بلاوجہ کا جو خوف پیدا کر رکھا تھا ‘ اس میں ذرا بھی حقیقت نہیں تھی۔ فوراً ضمنی انتخابات کا معرکہ برپا ہو جاتا۔ چار حلقوں میں ضمنی الیکشن کے نتائج کچھ بھی ہوتے‘ نوبت یہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی‘ جہاں آج پہنچ چکی ہے۔ اب چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ قصۂ ماضی بن گیا ہے۔ فوری عوامی مفادات کے منصوبے شروع کرنے سے اب تک عوام کو جو فوائد پہنچ سکتے تھے‘ عوام انہیں کسی بھی سطح پر محسوس نہیں کر سکے۔ عوام کی نظر میں یہ حکومت کی عدم کارکردگی تھی۔ حکومت کی طرف سے مایوسی اور دوبارہ انتخابات کے مطالبے سے پیدا ہونے والی امیدوں نے‘ صورتحال کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔ اس صورتحال کا نکتہ عروج یہ تھا کہ دو چھوٹی جماعتوں کے دھرنوں نے‘ اپنی عدم کارکردگی سے پریشان حکومت کو بوکھلا دیا اور وہ افواہوں پر یقین کرتے ہوئے‘ یہ سمجھ بیٹھی کہ اس کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ اس نے ضرورت سے زیادہ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے‘ چیف آف آرمی سٹاف سے سہولت کاری کے لئے کہا۔ میڈیا میں اس کی کوریج ایسے انداز میں آئی ‘ جس سے تاثر پیدا ہو گیا کہ حکومت نے فوج سے مدد مانگ لی ہے۔ فوج کی طرف سے اس کی تردید آ گئی۔ حکومت نے اس کا فائدہ اٹھا کر‘ فوری طور سے سیاسی اقدامات شروع کرنے کے بجائے‘ پارلیمنٹ سے مدد مانگ لی۔ اپوزیشن نے ‘ حکومت کو سہارا دینے کے بہانے ‘ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو تقریریں کیں‘ ان میں حکومت کی حمایت سے زیادہ اس کی مخالفت نمایاں تھی۔ گو رسمی طور پر حکومت کی حمایت کی گئی، لیکن وہ بے فائدہ تھی۔ اس کے برعکس مولوی سراج الحق کی قیادت میں جو وفد‘ مفاہمت کے لئے مذاکرات کر رہا تھا‘ اس کی کامیابی کے آثار واضح تھے۔ بعض حلقوں کے مطابق عمران فوری استعفے کے مطالبے میں ردوبدل پر آمادہ ہو گئے تھے۔حکومت نے خود کو مضبوط سمجھتے ہوئے‘ مذاکرات میں دلچسپی ختم کر کے‘ خود ہی عدم استحکام کو طول دے دیا۔ مذاکرات کے نتیجے میں سمجھوتہ ہو جاتا‘ تو حکومت کو اعتماد کے ساتھ کام کرنے کاوقت مل جاتا، جس میں وہ تیزرفتاری سے اقدامات کر کے‘ اپنی کارکردگی سے عوام کو مطمئن کر سکتی تھی۔ حکومت نے خالص غیرسیاسی رویہ اختیار کرتے ہوئے‘ اپنے آپ کو خود ہی امتحان میں ڈال لیا۔ عدم استحکام برقرار رہا۔ ملتان کے ضمنی الیکشن کے نتیجے نے‘ بے یقینی میں اضافہ کر دیا۔آج حالت یہ ہے کہ حکمران مسلم لیگ کے سوا دیگر تمام جماعتوں نے متوقع نئے انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ جیسے جیسے سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا‘ حکومتی کارکردگی کی حالت مزید خراب ہوتی جائے گی۔ بہتر ہو گا کہ حکومت خود ہی پہل کر کے‘ وسط مدتی انتخابات کا اعلان کر دے اور 2015ء کے اواخر یا 2016ء کے اوائل میںکسی تاریخ کو وسط مدتی انتخابات پر اتفاق رائے کر لیا جائے۔ اس عرصے میں حکومت دوبارہ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے قابل ہو سکتی ہے اور بالفرض محال اسے اکثریت نہیںملتی‘ تو اپنے تیسرے دوراقتدار میں معینہ مدت سے پہلے حکومت ختم ہونے کا کیس لے کر ن لیگ‘ دوبارہ عوام میں جا سکتی ہے۔ اس کا کیس اتنا مضبوط ہو گا کہ مخالفین کے لئے‘ مسلم لیگ (ن) کو شکست دینا محال ہو جائے گا۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وسط مدتی انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہوں‘ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کو حکومت بنانے سے روکنا بہت مشکل ہو گااور یہی مسلم لیگ(ن) کی وہ طاقت ہے‘ جو اسے طویل مدت تک اقتدار میں رکھ سکتی ہے۔