اس عہد کے عارف نے یہ کہا تھا: جدوجہد جہاں نہ ہو، وہاں مقدرات حکومت کرتے ہیں۔
اس خیال ہی سے وحشت ہوتی ہے مگر کیا کیجیے۔ آپریشن کا وقت آجائے اور مریض انکار کرتا رہے تو زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ 1971ء میں ایسے ہی ایام تھے‘ آج سے کچھ زیادہ سنگین جب انتخابی نتائج کی بنیاد پر اقتدار منتقل کرناتھا۔ یحییٰ خان مگر لیت و لعل سے کام لیتے رہے کہ اقتدار میں حصہ چاہیے تھا اور ملک ٹوٹ گیا۔ وزیراعظم محمد نوازشریف اگرچہ یحییٰ خان ہرگز نہیں۔ الیکشن جیت کر وہ آئے ہیں لیکن طرز عمل ان کا وہی ہے۔ ضروری فیصلوں کو ملتوی کیے جاتے ہیں۔ حاصل اس کا بڑھتی پھیلتی افراتفری اور بے یقینی ہے۔
اسلام آبادمیں یہ ہوا کہ ایک کے بعد دوسرے آئی جی نے ذمہ داری سنبھالنے سے انکار کردیا۔ غیر ملکی سربراہوں ، خاص طور پر چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوا۔ اسلام آباد سیکرٹریٹ اور لاہور کے صوبائی سیکرٹریٹ میں خبروں کی تلاش میں مٹر گشت کرنے والے اخبار نویسوں کا کہنا ہے کہ افسر شاہی شش و پنج کا شکار ہے۔ قوت عمل اس کی مفلوج ہورہی ہے۔
حکومت کو لاحق خطرہ ٹل گیا۔ مارشل لاء کا بظاہر کوئی اندیشہ نہیں۔فوجی قیادت نے سبق سیکھ لیا ہے اور امید ہے کہ وہ حماقت کا ارتکاب نہ کرے گی۔ اس مرحلے پر اگر اس نے اقتدار سنبھالا تو خواہ عارضی طور پر حالات بہتر ہوجائیں‘ آخر کار اس کے نتائج المناک ہوں گے۔
خیال یہ تھا کہ خطرہ ٹل جانے کے بعد وزیراعظم ضروری اقدامات کریں گے مگر وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ حکمران جماعت کے کسی رہنما سے بات کریں تو وہ اتنی ہی بے بسی کا اظہار
کرتا ہے جتنا کہ کوئی عام آدمی۔ اطلاعات یہ ہیں کہ خود وزیراعظم کے بھائی شہبازشریف اس صورتحال سے پریشان ہیں۔ ان کے قریبی حلقوں سے بات کیجیے تو ان تجاویز سے وہ اتفاق کرتے ہیں، جو ملک کے خیر خواہ پیش کرتے ہیں۔ وفاقی کابینہ کی تشکیل نو، عسکری قیادت کے ساتھ خوش دلانہ مکالمہ اور بلدیاتی الیکشن کا انعقاد۔ سب سے بڑھ کر عام آدمی کی زندگی سہل بنانے کے وہ اقدامات ، جن کے لیے زیادہ سرمائے کی نہیں ، پہل قدمی اور حسن انتظام کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ملک بھر، خاص طور پر پنجاب کی مارکیٹ کمیٹیوں میں ماحول کو بہتر بنانے کی ضرورت ، سبزی کی قیمت جس سے کم ہوسکے۔ اسی طرح مجسٹریٹوں کا تقرر تاکہ دوسری غذائی اجناس کے نرخ معمول پر لائے جاسکیں۔ ایسے کچھ اور اقدامات بھی تجویز کیے جاسکتے ہیں مگر پیش کسے کیے جائیں؟... ایسا لگتا ہے کہ شیر لسی پی کر سو گیا ہے۔
وزیراعظم اور ان کے مشیروں کا خیال شاید یہ تھا کہ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے بتدریج سوکھ (Wither away)جائیں گے۔ ایسا ہی ہوا مگر اپنی حکمت عملی انہوں نے تبدیل کرلی اور ان کی جگہ ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسوں نے لے لی۔ اس وقت جب یہ سمجھا جارہا ہے تھا کہ بڑے بڑے عوامی اجتماعات کا انعقاد اب مشکل نہیں، ناممکن ہے۔ ملتان میں جاوید ہاشمی ایسے شخص کی شکست سے یہ بات با انداز دگر واضح ہوئی کہ حکومت کس قدر نامقبول ہے۔ خدا کی پناہ، عامر ڈوگر ایسے امیدوار سے وہ ہار گئے۔ جذبات جب کھولنے لگتے ہیں تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ بڑے پیمانے کی دھاندلی کا منصوبہ بنایا نہ گیا۔ ایسا طوفان اٹھتا کہ دھرنوں کو لوگ بھول جاتے۔ جاوید ہاشمی کا کہنا یہ ہے کہ ایک تہائی سے بھی کم نتائج پر انہوں نے شکست تسلیم کرنے کا جو اعلان کیا، اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ کسی دماغ میں فتور پیدا نہ ہو۔ خواجہ سعد رفیق نے سچ کہا کہ ایک سو شاہ محمود اور ایک سو عامر ڈوگر بھی جاوید ہاشمی کے برابر نہیں ہوسکتے۔ (کون اس بانکپن سے جیل کاٹ سکتا ہے؟) تصویر کا دوسرا پہلو مگر یہ ہے کہ ملتان کی رائے عامہ نے اس شخص کو مسترد کردیا اور فوراً ہی۔ صوبائی وزراء کی نگرانی میں ارکان اسمبلی اور سرکاری افسروں کی ایک ٹیم نے اوپر کی زمین نیچے اور نیچے کی اوپر کردی مگر زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ مسلم لیگ کے آدھے ووٹر بھی پولنگ سٹیشنوں تک پہنچ نہ سکے ۔ کیوں نہ پہنچ سکے؟
ایک اداس اور کھویا کھویا سا وزیراعظم۔ حکومت کو نامقبول ہی ہونا تھا کہ اول تو وہ پرلے درجے کی بے عملی کا شکار تھی۔ سوکر اٹھی تو ایک نجی چینل کے معاملے پر ایسا موقف اختیار کیا کہ عسکری قیادت تن کر سامنے کھڑی ہوگئی۔ وفاقی وزراء نے جلتی پر تیل ڈالا اور ایک کے بعد دوسرا خودکش حملہ کیا۔ جو لوگ چار حلقوں میں ازسرنو گنتی پر آمادہ نہ تھے،بالآخر تحریک انصاف کے چھ میں سے پانچ مطالبات ماننے پر آمادہ ہوگئے۔ عمران خان نے اس پر یہ کہا کہ اس کی مذاکراتی ٹیم شوق سے بات کرتی رہے۔وزیراعظم کا استعفیٰ لیے بغیر وہ نہ ٹلیں گے۔
بے شک دھرنے ناکام رہے مگر جلسے ؟ آئے دن وہ اعلان کرتے ہیں کہ نون لیگ ایسا ایک اجتماع ہی کردکھائے۔ دو ہفتے قبل وزیراعظم نے اعلان کیا کہ جب نون لیگ کے حامی میدان میں اتریں گے تو عمران خان کو '' لگ پتہ‘‘ جائے گا۔ پھر انہوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ چودھری نثار علی خان کی ناراضی تو قابل فہم ہے مگر اب احسن اقبال ایسے وزراء بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ لے دے کے پرویز رشید، خواجہ محمد آصف اور خواجہ سعد رفیق ہیں۔ ان میں سے اوّل الذکر کی تو کوئی ساکھ ہی نہیں۔ خواجہ آصف کا زور شور بھی ختم ہوچکا۔ فقط سعد رفیق ہیں جو خم ٹھونک کر بات کرتے ہیں یا کبھی کبھار وزیراعلیٰ شہبازشریف اور رانا ثناء اللہ ۔ محاورہ یہ ہے کہ اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونکے گا۔ ظاہر ہے کہ تین چنے بھی نہیں۔ رہ گئے حنیف عباسی ، مشاہد اللہ خان اور طلال چودھری قسم کے لوگ تو ان کا تاثر ایسا نہیں کہ عوامی آرا پر اثر انداز ہوسکیں۔ حنیف عباسی کتنا ہی چیخیں چلائیں۔ ان پر ایفی ڈرین کا مقدمہ ہے۔ جب تک فیصلہ صادر نہیں ہوجاتا، شکوک و شبہات کی وہ زد میں رہیں گے۔ مشاہد اللہ اور طلال چودھری دلیل کم دیتے اور جھگڑا زیادہ کرتے ہیں۔ قائل کرنے کی صلاحیت ان میں کوئی نہیں۔ خاص طور پر طلال چودھری، جن کے بارے میں یہ انکشاف کیاگیا کہ قاف لیگ کے دور میں وہ چودھری پرویز الٰہی کی گاڑی کے سامنے بھنگڑا ڈالا کرتے تھے۔ طلال صاحب کیا واقعی؟
زرداری صاحب نے میاں محمد نوازشریف کی مدد کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہے، الٹا خود بھی زد میں آگئے۔ بخشوانے گئے تھے نماز، روزے گلے پڑے۔ بلاول بھٹو کے معرکتہ الآرا خطاب کا نتیجہ یہ ہے کہ ایم کیوایم حکومت سے الگ ہوگئی۔ فوری طور پر نئے صوبے تشکیل دینے کے بارے میں ان کا موقف نا درست ہی مان لیجیے مگر سیاست کرنی انہیں خوب آتی ہے۔ بحران پیدا کرنے کے وہ بادشاہ ہیں۔ وہ سوال جو عمران خان سے پوچھا جارہا تھا کہ وزیراعظم نوازشریف کا احتساب کرنے سے پہلے وہ پختونخوا میں اپنا کھاتہ ملاحظہ فرمائیں‘ اب زرداری صاحب اور ان کے فرزند ارجمند سے کیا جارہا ہے۔ سندھ میں آپ نے کون سا چاند چڑھایا ہے کہ دوسروں کے منہ آتے ہیں۔ میاں نوازشریف پر بھی انہوں نے تنقید کی اور بظاہرسخت تنقید۔ عام تاثر مگر یہ ہے کہ ان کا اصل ہدف عمران خان تھے ۔ اس طرح کے معرکے میں تحریک انصاف کو کون ہرا سکتا ہے‘ جو اپنے طرز عمل میں دوسری ایم کیوایم ہے۔ اس کے لوگ تو ہم ایسوں کو گالیاں بکتے ہیں، حریفوں کو کہاں معاف کریں گے۔
غیر جانبدار اخبار نویسوں میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن میں نون لیگ اب بھی فتح یاب ہوسکتی ہے کہ تحریک انصاف میں دھڑے بندی بہت ہے۔ دوسرے ضروری اقدامات کرلیے جائیں تو ممکن ہے کہ بالآخر سیاسی استحکام بھی پیدا ہوسکے۔ وزیراعظم مگر لمبی تان کر سو رہے ہیں۔
اس عہد کے عارف نے یہ کہا تھا: جدوجہد جہاں نہ ہو، وہاں مقدرات حکومت کرتے ہیں۔