تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     22-10-2014

ایک بُری خبر

میں آج آپ کو ایک بُری خبر سنانے چلا ہوں۔ بہت بُری کیونکہ بُری خبر سے ہی خیر کا کوئی پہلو نکل سکتا ہے، اس لیے ہمیں بُری خبریں ایک دوسرے کو سناتے رہنا چاہیے۔ اگرچہ اچھی خبر کے اپنے فضائل ہیں لیکن نقصان بھی کیونکہ یہ آپ کو کچھ عرصے کے لیے خوش تو کر سکتی ہے لیکن یہ آپ کو لاپروا بھی بناتی ہے؛ چنانچہ دونوں طرح کی خبریں آتی جاتی رہنی چاہئیں کہ اس سے ایک توازن بھی قائم رہتا ہے۔ شاید کچھ افراد اسے بُری خبر کہنے یا سمجھنے سے انکار ہی کردیں؛ تاہم‘ میں اسے ایک بُری ہی خبر سمجھ کر آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک یہ یقینی طور پر بُری ہے۔ 
اور‘ وہ یہ کہ شاعری (غزل) سے جدید طرزِ احساس منہا اور غائب ہوتا چلا جاتا ہے حالانکہ اسے آگے بڑھنا اور پھلنا پھولنا چاہیے تھا تاکہ شعر میں وہ تازگی ارزانی ہو سکے جو اس کی بنیادی ضرورت ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ شعر ایک بار پھر دو جمع دو چار ہو کر رہ گیا ہے‘ یعنی سراسر میٹر آف فیکٹ‘ جبکہ شعر تو میٹر آف فیکٹ ہوتا ہی نہیں کہ اس سچ کے ساتھ جب تک جھوٹ یا عدم امکان کی ملاوٹ نہ کی جائے وہ شعر ہونے ہی سے انکار کر دیتا ہے جبکہ اس کی بنیاد ہی معروضوں پر ہوتی ہے۔ آپ اسے ہوائی قلعے تعمیر کرنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ 
برصغیر کے سب سے بڑے شاعر مرزا بیدلؔ دہلوی نے جو کہا تھا کہ 'شعرِ خوب معنی ندارد‘ تو اس سے ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ عمدہ شعر میں معنی ہوتے ہی نہیں بلکہ صرف اور صرف یہ کہ یہ معنی اور طرح کے ہوتے ہیں یا ہونے چاہئیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ اگر آپ نے معنی کو معنیٔ موجود سے آگے نہیں بڑھایا تو سمجھ لیجیے کہ کچھ بھی نہیں کیا اور آپ کو کوئی اور کام کرنا چاہیے۔ کم از کم آپ معنی کی نوعیت ہی تبدیل کردیں کہ اس کی ایک صورت معنی کی تقلیل بھی ہے‘ اور شعر میں جو الفاظ آپ استعمال کرتے ہیں ان سے دونوں طرح کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 
اس عمل کا ایک نتیجہ تو یہ نکلے گا کہ شعر بے معنویت کے قریب ہوتا چلا جائے گا‘ یعنی اس میں وہ سیدھے سادے معنی نہیں رہیں گے جو اس شاعری سے برآمد ہوتے ہیں جس کے بارے میں اس تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ شعر کو گورکھ دھندہ ہی بنا کر رکھ دیا جائے؛ تاہم آپ اسے تھوڑا بہت گورکھ دھندہ بنانے کی کوشش تو کریں‘ یعنی حسبِ توفیق۔ اور‘ یہ اس کے لیے کوئی نسخۂ کیمیا نہیں ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ ایک ٹوٹکا ہی کہہ سکتے ہیں کہ شاعری میں نوبت اب ٹوٹکوں تک ہی آ پہنچی ہے جنہیں بہرحال آزمایا جا سکتا ہے ،جس سے شعر اندر اور باہر سے کچھ تبدیل ہوتا دکھائی دے۔ 
شعر میں کچھ کہنا ضروری نہیں ہوتا کہ بعض اوقات کچھ کہے بغیر بھی شعر بن سکتا ہے۔ شعر میں کوئی پیغام دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ کام اب تک اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ مزید کچھ کہنے کو باقی رہ ہی نہیں گیا اور اس نے اب باقاعدہ قاری بیزار شاعری کی حیثیت اختیار کر لی ہے اور اردو غزل صحیح معنوں میں ایک زوال کی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ چنانچہ اب وہی شعر قدرے تازہ لگتا ہے جس میں اگر کچھ بھی نہیں تو کم سے کم کہنے کی کوشش کی گئی ہو‘ اور وہ بھی ایک غیر روایتی طریقے سے۔ بصورت دیگر یہ معاملہ ایسا ہے کہ شاعر الگ پریشان ہے کہ اس کی کتاب بکتی نہیں ہے‘ اور پبلشر الگ‘ اور کچھ اگر بکتی ہے تو فکشن کی کتاب۔ 
یہ بھی ضروری نہیں کہ شاعری میں لوگوں کے مسائل ہی بیان کیے جائیں کیونکہ یہ کمی سیاسی بیانات کے ذریعے ہی پوری ہو رہی ہے اور سستی شہرت کے لیے شاعر کو اس کام میں نہیں پڑنا چاہیے کہ دیگر فنونِ لطیفہ کی طرح شاعری تو کچھ خاص آدمیوں ہی کے لیے ہوتی ہے‘ بلکہ اب تو معیار آہستہ آہستہ یہ بنتا جا رہا ہے کہ شاعری زیادہ تر اپنے لیے ہوتی ہے یا دوسرے شاعروں کے لیے۔ البتہ جس شاعری سے گزارا کیا جا رہا ہے‘ وہ اس وقت میرا موضوع نہیں ہے بلکہ اس سے تنگ آ کر ہی یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں کہ اس نے نہ صرف شاعری کے معیار کو دھچکا لگایا ہے بلکہ اہل قاری میں اضافے کی بجائے اس میں کمی کا باعث بھی ہے۔ 
سو‘ جس جدید طرزِ احساس پر نئی غزل کی بنیاد رکھی گئی تھی وہ ہم نے گویا خود ہی اس کے نیچے سے کھینچ لی ہے اور وہ عمارت یا دیوار دھڑام سے زمیں بوس ہو گئی ہے۔ شعراء نے تجرید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے‘ اور شعر کو سادگی سے ہمکنار کرنے کی کوشش میں بالکل بے کیف اور بے مزہ بنا کر رکھ دیا ہے جبکہ میں خود بھی ایسے شعراء میں شامل ہو سکتا ہوں لیکن میں مایوس اس لیے نہیں ہوں کہ ان حالات میں کبھی کبھار کوئی چمکدار شعر آنکھوں کو روشن کر جاتا ہے جس میں زیادہ زور لگا کر بات نہ کہی گئی ہو اور جُگالی بھی نہ لگے‘ مثلاً جو اشعار مجھے کچھ عرصے سے ہانٹ کرتے رہتے ہیں‘ ان میں سے کچھ یہ ہیں: 
مجھے تخریب بھی نہیں آئی 
توڑتا کچھ ہوں‘ ٹوٹتا کیا ہے 
(مقصود وفاؔ) 
جتنا اُڑا دیا گیا 
اُتنا غبار تھا نہیں 
(ذوالفقار عادل) 
جو تجھے پیش کرنا چاہتا تھا 
پھول وہ ہاتھ پر کھِلا ہی نہیں 
(ضیاء حسین ضیاءؔ) 
میں پکڑتے پکڑتے ڈوب گئی 
مجھ سے کچھ گر پڑا تھا پانی میں 
(رخشندہ نویدؔ) 
کچھ اس قدر تھی گرمیِ بازارِ آرزو 
دل جو خریدتا تھا اسے دیکھتا نہ تھا 
(کشور ناہید) 
بیشک ان اشعار میں وہ طریق واردات بروئے کار نہیں لایا گیا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے‘ لیکن اس کے باوجود بات ذرا مختلف طور پر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو دل کو لگتی بھی ہے‘ اور یہ بھی ہے کہ ہماری شاعری بالعموم اس طرح سے بھی نہیں کی جا رہی ہے اور تاثیر و تازگی سے سراسر خالی شاعری میں ہی کُشتوں کے پشتے لگائے جا رہے ہیں۔ کہیں پہلے بھی عرض کر رچکا ہوں کہ آج کے شاعر کا مسئلہ صرف دوسروں سے مختلف ہونا ہے جس میں وہ کامیاب ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی۔ اس کے لیے اسے اور باتوں کے ساتھ ساتھ اپنے شعر کو جدید طرزِ احساس کا تڑکا بھی لگانا ہوگا جسے اس نے نظرانداز کر رکھا ہے کیونکہ شاعری کی موجودہ زبوں حالی کا اور کوئی علاج کہیں نظر بھی نہیں آتا‘ اور اسے ڈھونڈ نکالنا کچھ ایسا ناممکن بھی نہیں ہے! 
آج کا مقطع 
رکھتے ہیں واپسی کا کوئی راستہ، ظفرؔ 
اس طرح کشتیاں تو جلاتا نہیں کوئی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved