تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     22-10-2014

پاکستان کو درپیش اہم مسائل اور ان کا حل

پاکستان برصغیر کے مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان تھا ۔ یہ خلافت کے خاتمے کے بعد دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی پہلی نظریاتی ا سلامی ریاست تھی جس کے قیام کا مقصد اسلام کے مسلّمہ اصولوں پر عمل پیرا ہو کر عوام الناس کے مسائل کو حل کرنا تھا ۔ اس مملکت کے حصول کے لیے حضرت محمد علی جناحؒ ،حضرت علامہ محمد اقبال ؒ،مولانا محمد علی جوہر ؒ،مولانا ظفر علی خانؒ اور دیگر اکابرین نے ایک لمبے عرصے تک جدوجہد کی اور با لآخر مسلمانان ِ برصغیر ایک علیحدہ مملکت کے حصول میں کامیاب ہوئے ۔اس مملکت کے قیام کے حوالے سے جدوجہد اور قربانیوں کے بعد اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ یہ مملکت مسلمانان ِہند کے دکھوں کا مداوا ثابت ہو گی لیکن اپنے قیام کے بعد سے لے کر اب تک پاکستان کو مختلف طرح کے بحرانوں کا سامنا ہے۔ پاکستان کو در پیش مسائل کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کے اہم مسائل درج ذیل ہیں :
1۔نظریاتی یا قومی ریاست کا مسئلہ :قیام پاکستان کا مقصد مسلمانانِ ہند کے سیاسی اور اقتصادی حقوق کا حصول تھا جو کہ متحدہ ہندوستان میں ان کو جدوجہدکے باوجود حاصل ہوتے نظر نہیں آرہے تھے لیکن ان سیاسی اور اقتصادی حقوق کی فراہمی کے ساتھ ساتھ پاکستان کا قیام ایک نظریاتی اسلامی ریاست کے طور پر ہوا تھا جس میں قرآن و سنت کی بالا دستی کو یقینی بنانے کی یقین دہانی قائداعظم سمیت تحریک پاکستان کے تمام نمایاں قائدین نے کروائی تھی لیکن بدقسمتی سے اپنے قیام کے دن سے ہی پاکستان میں اس بحث کا آغاز ہو گیا تھا کہ یہ ایک نظریاتی ریاست ہے یا قومی ؟پاکستان کی نمایاں سیاسی جماعتوں نے آئین او ر قرار داد مقاصد میں کرائی گئی یقین دہانیوں کے باوجود اس کو قومی ریاست کے طور پر چلانے کی جدوجہد کی ۔ اس کثیر القومی ریاست میں قومی یا نظریاتی ریاست کی بحث سود مند ثابت نہ ہو ئی اور ملک لسانی اور قومی کشمکش کا شکار ہوکر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ۔1971ء کا سانحہ اگرچہ سیاست دانوں کی آنکھیںکھولنے کے کافی تھا لیکن سقوط ِ ڈھاکہ کے بعد بھی یہ بحث جاری و ساری رہی اور پاکستان کے قوانین نہ تو صحیح معنوں میں مغربی بن سکے اور نہ ہی کامل طریقے سے شریعت کی پیروی ہو سکی ۔ کچھ پالیسی سازوں نے انگریزی قوانین میںبعض مقامات پر ترمیم کرکے ان کواسلامیانے کی جدوجہد کی جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی اور ملک کی سمت کے حوالے سے مذہبی سیاسی جماعتوں اورقومی سیاسی جماعتوں میں فکری تنازع تاحال جاری و ساری ہے ۔1973ء کا آئین اس اعتبار سے مثالی آئین تھا کہ اس پر تمام سیاسی ،علاقائی و مذہبی جماعتوں کا اتفاق تھا لیکن اس اتفاق کے باوجود 1973ء کے آئین کی تشریح میں اختلاف بر قرار رہا ۔ نظریاتی طور پر تو آئین کی نمایاں شقیں قرآن وسنت کی بالادستی کی ضمانت دیتی ہیں لیکن حقیقی معنوں میں آج بھی پاکستان نفاذ اسلام کی منزل سے کوسوں دور ہے ۔
2۔سیاسی عدم استحکام : پاکستان سیاسی ساخت کے اعتبار کے حوالے سے وفاقی پارلیمانی ریاست ہے ۔ ملک کی تما م سیاسی ، مذہبی اور طبقاتی جماعتوںکواپنے اپنے منشورکے لحاظ سے انتخابات میں حصہ لینے کا پورا حق حاصل ہے لیکن پارلیمانی نظام پر اتفاق کرنے کے باوجود پاکستان 67بر س میں سیاسی طورپر مستحکم نہ ہو سکا۔ اس کی دو وجوہ ہیں :
1۔سیاسی عمل میںانقطاع: پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک کئی مرتبہ سیاسی عمل انقطاع کا شکار ہوااور آئین کی جگہ طویل عرصے تک ملک میں مارشل لاء مسلط رہا ۔سیاسی جماعتوں کی توانائیوں کا بڑا حصہ آمریتوں کے خلاف جدوجہد کرنے میں صرف ہوتا رہا۔
2۔انتخابی دھاندلیاں او ر نتائج کو قبول نہ کرنا: سیاسی عد م استحکام کی دوسری بڑی وجہ انتخابی بے ضابطگیاں ہیں جوکئی مرتبہ اتنی ہمہ گیر ہوتی ہیں کہ متاثرہ فریق باغیانہ روش پر اتر آتاہے اور سیاسی عمل پر عدم اعتما د کا نتیجہ حکومتوں کے خلاف تحریکوں کی شکل میں نکلتا ہے ۔ انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنا بھی دھاندلی کی طرح ایک خطرناک عمل ہے ۔ 1970ء میں عوامی لیگ کی فتح کو قبول نہ کرنے کے نتائج انتہائی مہلک نکلے اور انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کے عمل نے لسانی منافرت کو دو چندکر دیا۔نتیجتاً ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔
1977ء کے انتخابات میں قو می اتحاد کی بڑی تحریک کاسبب بھی پیپلز پارٹی پر انتخابی دھاندلی کے الزامات تھے ۔یہ تحریک بعد ازاں پر تشدد سول نافرمانی پر منتج ہوئی اور ذوالفقار علی بھٹومرحوم کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے ۔1977ء کے بعد2013ء کے انتخابا ت بھی اس اعتبار سے متنازع ٹھہرے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمرا ن خان نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو غیر آئینی قرار دے دیا ۔مسلم لیگ(ن) کی حکومت اگرچہ ختم نہیں ہوئی لیکن انتخابی دھاندلی کے متواتر الزامات نے اس کی سیاسی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے اور عملی طور پر ایک مرتبہ پھر ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار نظر آ رہا ہے ۔اگر مستقبل میں انتخابی دھاندلیوں پر قابو پالیا جائے اور انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے کے حوالے سے تما م جماعتوں اور طبقات کی تجاویز پرسنجیدگی سے عمل کیا جائے تو ملک کو سیاسی طور پر مستحکم کیا جا سکتا ہے ۔
3۔اقتصادی مسئلہ : پاکستان کی کوئی حکومت بھی پاکستان کے اقتصادی مسائل پر قابو نہیں پا سکی حالانکہ پاکستان زرخیز اور معدنی وسائل سے مالا مال ملک ہے ۔پاکستان کے روپے کی قدر میں گزرتے ہوئے برسوں کے ساتھ ساتھ متواتر کمی واقع ہو رہی ہے ۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو اس وقت تسلی بخش قرار دے دیا جاتا ہے جب وہ روپے کی قدر کو ڈالر ،یورو یا پاؤنڈ کے مقابلے میںگرنے سے روک لے ۔تاحال ایسا نہیں ہو سکا کہ پاکستان کے روپے کی قدر میں قابل قدر اضافہ ہو سکے۔
بھارتی او ر بنگالی کرنسی جوکہ پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ہر اعتبار سے کمزور ہوا کرتی تھیں اس وقت پاکستانی روپے کے مقابلے میں مضبوط سے مضبوط تر ہو تی جارہی ہیں۔ روپے کی گراوٹ کی بنیادی وجہ ہمارے امیرسیاسی طبقے کے سرمایے کی بیرون ملک منتقلی ہے ۔پاکستان کی غیر مستحکم صورتحال کو دیکھ کر بہت سے نمایاں سرمایہ داراپنا سرمایہ یورپ ،امریکہ اور عرب ریاستوں میں منتقل کر چکے ہیں اور ستم بالا ئے ستم ،سرمایے کو بتدریج بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں بھی منتقل کیا جا رہا ہے ۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ڈھاکہ میں سرمایہ داروں کو وہ ماحول میسر ہے جوپاکستان میں موجود نہیں ۔پاکستان کے حکمرانوں کو اقتصاد ی سرگرمیوں کو بہتر بنانے کے لیے اپنے رویوں کو بدلنا پڑے گا۔ ملک میں موجود ٹیکسوں کے نظام میں نمایاں تبدیلی لانا ہو گی تاکہ ملک سے سرمایے کے انخلاء کو روکا جا سکے۔ اگر حکومتوں نے اس سلسلے میں مؤثر اقدامات نہ کیے تو کینیڈا ،برطانیہ اورآسٹریلیا کے امیگریشن قوانین کی وجہ سے سرمایے کے ساتھ ساتھ ملک کے ذہین لوگوں کی بڑی تعداد بھی بتدریج ان ممالک میں منتقل ہو تی چلی جائے گی ۔
4۔بدامنی اور لاقانونیت کا مسئلہ :ملک کئی عشروںسے بدامنی اور لا قانونیت کا شکار ہے جس کی بڑی وجہ پولیس کی ناقص کارکردگی ہے ۔ پولیس کی کمزور کارکردگی کی نمایاں وجہ سیاسی بھرتیاں اور سیاسی بنیادوں پر تقرریاں اور تبادلے ہیں ۔ملک میں امن و امان کو بہتر بنانے کی بجائے حکومتیں پولیس کوسیاسی حریفوں کو ہراساں کرنے اور حزب اختلاف کے اجتماعات رکوانے کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔ اگر پولیس کے محکمے کو سیاسی مداخلت سے پاک کر دیا جائے ،اس کو اپنے اہداف کے حصول کے لیے خودمختار بنا دیا جائے اور اس میں تقرریوں اورتبادلوںکے اختیارات محکمے کو دے دیے جائیں جو میرٹ اور پیشہ ورانہ خدمات کی بنیاد پر افسران کو ترقی دے تو ملک میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہو سکتی ہے ۔ 
5۔فرقہ واریت : ملک کئی عشروں سے فرقہ واریت کا بھی شکار ہے ۔کتنی ہی قیمتی جانیں بلا وجہ نفرت کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں ۔ اس مسئلے کے پائدار حل کے لیے حکومتوںنے ترجیحی بنیادوں پر کوئی اقدامات نہیں کیے ۔ملی یکجہتی جیسا مؤثر ادارہ بھی تمام مکاتب فکر کے جید علماء کی اپنی کاوشوں سے کام کر رہا ہے ۔اگر ملک میں صحابہ کرام ؓ ، اہل بیت عظام ؓ اور امہات المومنین ؓکی حرمت کے حوالے سے تیار کیا گیا ملی یکجہتی کونسل کا ضابطہ اخلاق نافذ کرکے تکفیری فتاویٰ کی روک تھام کو یقینی بنا دیا جائے تو ملک میں بہت حد تک فرقہ وارانہ اختلافات کا قلع قمع ہو سکتا ہے ۔اگر مذکورہ مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کو شش کی جائے تو پاکستان کا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved