تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     22-10-2014

ازلی جنگ

زندگی کی مختلف اقسام ایک دوسرے کو ہلاک کر دیتی ہیں ۔ انسان ہی سب درندوں پہ غالب ہے لیکن جب نظر نہ آنے والی بلائوں سے سامنا ہو تو ایک مدّت تک کے لیے وہ بے بس ساہو کر رہ جاتاہے ۔ ایبولا ایسی ہی ایک خوں آشام ڈائن ہے جو چار ہزار افریقیوں کا لہو پینے کے بعد دنیا بھر میں اپنے پائوں پھیلانا چاہتی ہے ۔ ایسا لگتاہے کہ آدمی اور نادیدہ دشمنوں کی یہ جنگ ہمیشہ جاری رہے گی ۔ 
پولیو اور ڈینگی کو ہم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ۔ ایبولا ابھی اجنبی ہے ۔یہ اس قدر خطرناک ہے کہ ایڈز کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جا رہا ہے ۔ اس وقت ، جب دنیا سینکڑوں کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنے والے جہازوں کی بدولت سکڑ سی گئی ہے ، افریقی قاتل کو یہاں پہنچے میں زیادہ وقت نہ لگے گا۔احتیاط کی جتنی ضرورت آج ہے ، پہلے شاید کبھی نہ تھی ۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف پاکستان فی الحال اس کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ۔ ہوائی اڈوں پہ خصوصی اقدامات ، بالخصوص افریقی ممالک سے آنے والے باشندوں کی جانچ پڑتال نہ کی گئی تو بڑی خرابی ہوگی ۔ 
پولیو، ایڈز ، ڈینگی اوراب ایبولا ، سب نظر نہ آنے والی ان نیم جاندار مخلوقات کی بدولت ہیں ، جو وائرس کہلاتی ہیں ۔ وائرس ایک بڑی عجیب شے ہے ۔اسے آپ زندہ کہہ سکتے ہیں اور نہیں بھی ۔ 
انسانی تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو جہاں کہیں اس کا ذکر ہوگا، ساتھ آپ کو خون کے دھبّے ملیں گے ۔ ایک وقت تھا کہ دنیا میں سالانہ پچاس لاکھ افراد پولیو وائرس کے ہاتھوں ہلاک یا معذور ہو رہے تھے ۔ عام طور پر یہ ریڑھ کی ہڈی اور اس سے نکل کر پورے جسم میں پھیلنے والی تاروں (Nerves)کے اس نظام کو نقصان پہنچاتاہے ، جس کے ذریعے ہم حرکت کرتے ہیں ؛لہٰذا یہ معذوری کا سبب بنتاہے ۔ ریڑھ کی ہڈی اور نروز اس مرکزی اعصابی نظام کا حصہ ہیں ، جس کے اوپر انسانی جسم کی عمارت تعمیر ہوتی ہے ۔ اس نظام کاایک دوسرا اور سب سے شاندار حصہ کائنات کی اعلیٰ ترین تخلیق یعنی انسانی دماغ ہے ۔ اسی دماـغ کا نچلا حصہ سانس لینے اور دل دھڑکانے جیسے وہ بنیادی احکامات جاری کرتاہے ،چند لمحات بھی زندگی جن کے بغیر جی نہیں سکتی۔ اس نظام میں پولیو کی مداخلت کا مطلب موت تھااور1950ء کی دہائی میں موت کی یہ قسم بہت سستی تھی ۔
پھر عالمی کوششوں سے ویکسین کی دو ایسی اقسام تیار کی گئیں ، جنہوں نے کرّئہ ارض سے پولیو کاتقریباً خاتمہ کردیا۔ آج پاکستان سمیت ، یہ صرف تین ممالک میں پنپ رہا ہے ۔ ہمارے ہاں اس کے پھیلائو کی وجہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور تحریکِ طالبان
سمیت مختلف دہشت گرد تنظیمیں ہیں ۔ میرا اشارہ آپ سمجھ گئے ہوں گے ۔ چند برس قبل ہی کی تو بات ہے کہ سی آئی اے کے مرتّب کردہ مشہورِ زمانہ منصوبے کے تحت امریکی ایجنٹ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اسامہ بن لادن کی تلاش میں اس کی مدد کی تھی ۔ امریکی اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ کا سراغ لگا چکے تھے لیکن اس وقت تک انہیں اس کی وہاں موجودگی کے بارے میں شک تھا۔ اسامہ کی ایک بہن برین کینسر کے علاج کے دوران بوسٹن میں مر چکی تھی ۔امریکیوںنے ا س کے دماغی خلیات سے ڈی این اے حاصل کر لیا تھا!تو ویکسین انجیکشن کے بہانے اسامہ کے بچوں کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے گئے اور ان کا موازنہ اس کی بہن سے کیا گیا۔عربی النسل ڈی این اے نے بھانڈا پھوڑا اور وہیں سے دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کے قتل کی راہ ہموار ہوئی ۔ حقیر تنخواہ کے عوض پولیو ویکسین پلانے والے ہمارے بہن بھائیوں کے لیے یہ مہم بڑی خوفناک ثابت ہوئی ۔ 2011ء کے بعد ان میں سے ساٹھ کو قتل کر دیا گیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ افغانستان اور نائجیریا کے علاوہ اب پاکستان میں بھی یہ بری طرح پھیل رہا ہے ۔ 
بعض لوگ اس سازشی تھیوری پہ یقین رکھتے ہیں کہ ایبٹ آباد واقعہ ایک ڈرامہ تھا۔ امریکی خوامخواہ پاکستانی حدود کے 120میل اندر گھس آئے تھے ۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹر واپس جانے کے بعد اسامہ کی بیوائوں سمیت، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے وہاں سے بہت سے افراد کو حراست میں لیا تھا۔ ملک بدر کرنے سے پہلے پاکستانی عدالتوں نے ان کے بیانات قلمبند کیے تھے ۔ یہاں یہ یاد رکھیے کہ ان دنوں پاک فوج اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے ۔ 
سو کلو کے جسم سے مچھر ذرا سا خون چوس لے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اگر اس حقیر مخلوق کے جبڑوں میں ڈینگی وائرس موجود ہو تو آپ کو بے حد تکلیف سے گزرنا ہوگا۔ خیر ڈینگی میں شرح اموات بے حد کم ہے ۔ ایڈز اور ایبولا کے شکار بدقسمت ہوتے ہیں ۔ ایبولا میں موت کا خطرہ 90فیصد تک ہوتاہے ۔ ایڈز کے پھیلائو میں سب سے بڑی وجہ قریبی جسمانی تعلقات ہیں ۔ ایبولا تو چھوت کی بیماری ہے ۔ با آسانی ایک سے دوسرے آدمی میں منتقل ہوتی ہے ۔اور تو اور اس وائرس کا بڑا شکار معالج او ر نرسیں ہیں ۔ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد یہ خلیے میں خرابی پیدا کرتاہے ۔ اسے اس بات پہ مجبور کرتاہے کہ وہ خود ہی اس وائرس کو ہزاروں کی تعداد میں جنم دینا شروع کر دے۔ خرابی در خرابی!
بہت سی بیماریوں وائرس نہیں بیکٹیریا پھیلاتے ہیں۔ ٹائیفائیڈ، ملیریااور ٹی بی لیکن میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ وائرس بڑی منحوس شے ہے ۔ یہ تو بیکٹیریا کے اندر گھس کر اس کی زندگی بھی عذاب کر ڈالتاہے ۔ 
انسان اور ہاتھی گھوڑوں کے علاوہ ، پھولوں او ردرختوں کے علاوہ ، خداکے ان دیکھے ہاتھ نے نادیدہ اشیا بھی تخلیق کی ہیں ۔ مثبت اور منفی ، ہماری زندگیوں میں وہ دونوں اثرات رکھتی ہیں ۔ دودھ کو دہی میں یہی بدلتی ہیں ۔ یہی مردہ اجسام کو نگلتی چلی جاتی اور اسے بے حد بدبودار بنا دیتی ہیں ۔ جہاں تک ایبولا کا تعلق ہے ، مجھے معلوم ہے کہ اجتماعی انسانی حکمت اس کا علاج بھی ڈھونڈ نکالے گی اور یہ برسوں نہیں مہینوں کی بات ہے ۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وائرس سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہ خود کو زیادہ بہتر بناتے اور نت نئی شکلیں اختیار کر کے دوبارہ حملہ آور ہوتے ہیں ۔ ہماری اور اس کی یہ جنگ ہمیشہ جاری رہے گی ۔ انشاء اللہ انسان ہی سرخرو ہوگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved