عزیز بھٹی پولیس سٹیشن گلشن اقبال کراچی کے احاطے میں گزشتہ سات برس سے ایک ٹرک کھڑا تھا۔ یہ وہ ٹرک تھا جسے محترمہ بے نظیر بھٹو نے‘18اکتوبر 2007ء کو استعمال کیا۔ کئی برسوں کی جلاوطنی کے بعد‘محترمہ پاکستان آئیں تو پارٹی ورکرز نے ان کا فقید المثال استقبال کیا۔اس بہت بڑی ریلی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اسی لگژری ٹرک پر سوار تھیں۔ محترمہ کی خواہش پر ‘ اس ٹرک کو اس وقت خصوصی طور پر بنوایا گیا تھا۔پارٹی کے وفادار‘جناب ذوالفقار مرزا نے اپنی نگرانی میں اس کی تزئین و آرائش کروائی‘ یہ بلٹ پروف ٹرک پارٹی فنڈ سے خریدا گیا۔ بہترین واش روم‘ ٹی وی سیٹ‘اور آرام کے لیے بیڈ سمیت کئی سہولتوں کا حامل یہ ٹرک مکمل ائیرکنڈیشنڈ تھا۔ٹرک کیا تھا ایک چھوٹا سا لگژری اپارٹمنٹ تھا۔ جسے محترمہ بے نظیر بھٹو کے شایان شان بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی تھی۔
بڑے یادگار اور تاریخی لمحات تھے۔ محترمہ برسوں کی جلاوطنی کے بعد وطن لوٹی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے جذباتی اور پرعزم جیالوں میں بے پناہ جوش و خروش تھا۔ملک بھر سے ورکرز اپنی قائد کا استقبال کرنے کراچی پہنچے تھے۔محترمہ جس ٹرک میں سوار تھیں‘ اس کی حفاظت بھی‘ پیپلز پارٹی کے جانبار جیالے کر رہے تھے۔ کار ساز کے مقام پر دو خودکش دھماکے ہوئے، پہلے بتیاں بجھیں اور پھر دھماکوں کی آواز کے ساتھ ہی چیخ و پکار شروع ہو گئی ۔ اتفاق سے
دھماکے سے ایک لمحے پہلے محترمہ ٹرک کے اندر چلی گئیں ان کی جان تو بچ گئی۔ لیکن پارٹی کے 150کے قریب جیالے شہید ہوئے‘ اور ساڑھے چار سو افراد زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پہنچے۔اس کے بعد کی کہانی تاریخ کا حصہ ہے۔محترمہ سانحہ کارساز میں تو بچ گئیں لیکن راولپنڈی میں لیاقت باغ میں دہشت گردی کی نذر ہو گئیں۔2008ء میں پیپلز پارٹی کو ہمدردی کا بھرپور ووٹ ملا،حکومت بنائی۔ پورے پانچ سال مفاہمت کے زریں اصولوں کے مطابق حکومت کی۔مفاہمت کی چھتری کے نیچے ایک طرف ہوش ربا کرپشن سکینڈل بھی جنم لیتے رہے تو دوسری طرف عوام غربت مہنگائی اور مسائل کے بوجھ تلے دبتے چلے گئے۔ عوام کے لیے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی نظریاتی جماعت نے عوام کے لیے ان تین بنیادی ضروریات زندگی کا حصول بھی مشکل تر کر دیا۔2013ء کے انتخابات میں عوام نے پیپلز پارٹی کو اس طرح مسترد کیا کہ پنجاب سے اسے صرف دو سیٹیں ملیں تو بلوچستان سے ایک بھی سیٹ نہ حاصل کر سکی۔حقیقی معنوں میں پارٹی صرف سندھ تک محدود ہو گئی۔سیاست کے منظر نامے پر پاکستان
تحریک انصاف ایک مقبول عام جماعت بن کر ابھری۔گزشتہ دو مہینوں میں دھرنوں‘جلسوں اور عوامی رابطوں کے سفر میں تحریک انصاف نے نئے ریکارڈز قائم کیے اور حقیقی اپوزیشن پارٹی بن کر ابھری۔جبکہ‘پیپلز پارٹی کو کچھ تجزیہ کار ن لیگ کی بی ٹیم بھی کہنے لگے۔ عوامی رابطوں‘ عوامی سیاست اور عوامی نعروں کے ماحول میں پیپلز پارٹی کے نو آموز چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی جماعت کے تنِ نیم جاں میں نئی روح پھونکنے کی ٹھانی۔سیاسی طاقت کا مظاہرہ کراچی میں کرنے کا فیصلہ ہوا ۔ساتھ ہی یہ انوکھی خواہش بھی، کہ جلسہ گاہ تک جانے کے لیے بلاول وہی تاریخی ٹرک استعمال کرنا چاہتے ہیں جو سانحہ کارساز میں دہشت گردی کا نشانہ بنا تھا۔پارٹی چیئرمین کا کہنا تھا کہ وہ اس طرح سانحہ کار ساز میں جاں بحق ہونے والے پارٹی ورکروں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس وقت جو حال پیپلز پارٹی کا ہو چکا تھا اس سے بھی بدتر صورتحال اس ٹرک کی تھی۔ چاروں ٹائر پنکچر‘ایئرکنڈیشنر غائب‘ٹی وی سیٹ ندارد‘ واش روم ‘بیڈ روم اور سٹنگ روم کی تمام سہولیات گردش زمانہ کی نذر ہوچکی تھیں۔گزشتہ سات برس سے یہ ٹرک‘ دہشت گردی کی نذر ہونے والی کسی لاوارث گاڑی کی طرح گلشن اقبال کراچی کے تھانے کے باہر کھڑا تھا ،اہل دل اس بدنصیب ٹرک کو دیکھ کر وہی شعر گنگناتے تھے جو ممتاز شاعر احمد مشتاق نے برسوں بعد اپنی محبوبہ کے زوال آثار خدوخال کو دیکھ کر کہا تھا ؎
اسے کل راستے میں دیکھ کر حیرت ہوئی مجھ کو
یہی لو تھی کبھی جس سے چراغ عشق جلتا تھا
خیر اس ٹرک کو پارٹی فنڈ سے لاکھوں روپیہ لگا کر سواری کے قابل بنا دیا گیا اور بلاول زرداری اس پر جلسہ گاہ بھی پہنچے۔ وہاں عوام کا سمندر دیکھ کر انہیں حوصلہ ہوا کہ ابھی راکھ میں چنگاری باقی ہے یہ اور بات ہے کہ راکھ سے چنگاری ڈھونڈنے کے لیے پی پی پی کے ہر ایم این اے اور ایم پی اے نے خوب محنت کی تھی۔ہر ممکن وسائل استعمال کر کے‘ جلسے کو عوامی اجتماع بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ورنہ گوڈے گوڈے مسائل میں دبے ہوئے عوام کو اس سیاسی پارٹی کی اب کیا کشش ہو سکتی ہے‘ پارٹی چیئرمین بلاول نے اپنے خطاب میں ثابت کیا کہ وہ ابھی واقعی نوآموز اورتازہ واردِسیاست ہیں۔عوام لچھے دار تقریر سُن سُن کر تنگ آ گئے ہیں۔اب وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ برگد کے پیڑ کے نیچے اگنے والے پودے قدآور نہیں ہوتے، بلکہ کمزور رہ جاتے ہیں۔بلاول بھی مجھے برگد کے نیچے اگنے والے پودے کی طرح ہی لگتے ہیں۔ نانا ذوالفقار بھٹو‘ اور والدہ بینظیر بھٹو کی برگد کے پیڑ جیسی شخصیات کے زیر اثر وہ خود سوچنے‘ سمجھنے‘ پرکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔قطار در قطارخوشامدیوں کے نرغے میں گھرے ہوئے بلاول کی تاریخی تقریر زرداری صاحب کی ہدایات کی روشنی میں شیری رحمان لکھتی ہیں، جسے بلاول ٹیلی پر امپٹر سامنے رکھ کر پڑھتا ہے۔ بلاول کی اپنی شخصیت کہاں ہے؟25,26سالہ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ کی اپنی سوچ کے دروازے کیوں بند ہیں؟اگر اس سے اسی طرح لکھی ہوئی تقریریں رٹوا کر جلسوں میں لایا جاتا رہا، تو اس کی اپنی شخصیت مضحکہ خیز ہو جائے گی۔ چند لاکھ لگا کر پرانے ٹرک کی تزئین و آرائش تو ممکن ہے لیکن ایک ایسے شعلہ بیان مقرر کو تیار کرنا ممکن نہیں، جو عوام کی تقدیر بدلنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کا سنہری دور اور عروج بھی واپس لا سکے!