تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-10-2014

ہت تیرے کی

الناس علیٰ دین ملوکہم۔ رعایا بادشاہوں کے نقوش پہ چلتی ہے ۔ پھر یہ ہے کہ زوال ہمہ گیر ہوتاہے ۔معاشرے کے سمندر میں حسنِ کردار کے جزیرے ہوتے بھی ہیں مگر کچھ زیادہ نہیں ۔ 
چوتھی جوتی کا ذکر بعد میں ، پہلے ان چار کی روداد جو سامنے پڑی ہیں ۔دکانداروں کے حسنِ اخلاق میں جھلکتی ذہانت و فطانت اور اپنی حماقت کی یاد دلاتی ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ پاپوش نگر میں یہ مسافر چار بار ڈسا گیا اور حیران ہے کہ اپنے سوا قصور وارکسے ٹھہرائے۔ 
سال میں پانچ سات دفعہ کراچی جانا ہوتا ہے۔ اس دیار میں جودل میں آباد ہے اور ہمیشہ آباد رہے گا۔ شاعر نے اسے روشنیوں کا شہر کہا تھا ؎
خیر ہو تیری لیلائوں کی ان سب سے کہہ دو 
آج کی شب جب دئیے جلائیں ، اونچی رکھیں لو
کالم نگاری اب کارِ دگر ہے ۔ کم از کم ہر دو ماہ بعد اگر آپ کراچی، کوئٹہ ، لاہور اور پشاور کا رخ نہیں کرتے تو تحریر تشنہ رہے گی ۔ اخبارات اور ٹی وی سے بہت کچھ معلوم ہو سکتاہے مگر سب کچھ نہیں۔ ایک عشرہ ہوتاہے ، یارِ عزیز شعیب بن عزیز نے ایک نکتہ بیان کیا۔Locale (مقام) ایک اہم چیز ہے ۔ یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ غور وفکر کرتے ہوئے آپ کھڑے کہاں ہیں۔ لاہو رکی دنیا دوسری ہے ، کراچی کی الگ۔ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں اسلام آباد کا نقطۂ نگاہ عجیب اور اجنبی سا لگتا ہے۔ ملتان میں بعض حقائق کچھ نئے زاویوں سے کھلتے ہیں ۔ اہلِ کشمیر کے احساسات کا ادراک مظفر آباد اور میر پورہی میں ممکن ہے۔ ملک کے مالی دارالحکومت میں اس عظیم الجثہ شہر کے اسرار ہی 
آشکار نہیں ہوتے بلکہ اسلام آباد اور لاہور کے بارے میں بھی مستند خبریں ملتی ہیں ۔ کراچی کا بڑا کاروباری بے خبر رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اسے اربوں کی سرمایہ کاری کرنا ہوتی ہے ، خاص طور پر بازارِ حصص کے لوگ۔ ان میں سے بعض کے اینٹنا اخبار نویسوں سے بلند تر ہیں ۔ جس دن اے آر وائی پر پابندی لگی ، برادرم عقیل کریم ڈھیڈی نے مجھ سے کہا: یہ حکم برقرار نہ رہے گا۔ دلیل انہوں نے ایسی دی کہ فوراً ہی یقین آگیا۔ برسبیلِ تذکرہ ایک بار ان سے پوچھا : آپ کی تعلیم کتنی ہے ؟ بولے : کچھ بھی نہیں ، سکول ہی میں کاروبار کا آغاز کر دیا تھا۔ کراچی جائوں تو کوشش کرتا ہوں کہ کم از کم ایک شام لازماً ان کے ساتھ گزاروں اور ایک پیر پگاڑہ صبغت اللہ شاہ راشدی کے دولت خانے پر ۔ چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں ۔ 
کراچی میں میرے سب سے عزیز دوست نجیب بالگامی ہمیشہ نہیں ملتے ، جنہوں نے زندگی کے بدترین اور بہترین کھانے کھلائے۔ ان میں سے ایک تھائی لینڈ کا دسترخوان تھا۔ تھائی کھانا جب بھی کھایا، ہر بار پچھتایا ۔ یہ بات سمجھ میں نہ آسکی کہ املی کھانے والی چھوکریوں کے سوا کون ان کھٹے کھانوں کی داد دے سکتاہے ۔ نجیب صاحب کاکہنا مگر یہ ہے کہ یہ ریستوران بہت مقبول ہے ۔ اس شہر کے شرفا میں املی خوروں کا سا ذوق کیسے پیدا ہو گیا؟ جی چاہتاہے کہ یہ سوال عصرِ رواں کے نثر نگار جناب مشتاق احمد یوسفی سے پوچھاجائے ، جن کی تازہ کتاب نے کل شب سونے نہ دیا۔ برادرم طاہر سرور میر نے اس کی اشاعت کا مژدہ سنایا تھا اور ازراہِ کرم وہی خرید لائے ۔ 
اس خیال سے مگر انہیں زحمت نہیں دیتاکہ واقعی زحمت نہ ہو ۔پچھلے برس بوٹ پہنے کراچی جانا ہوا تو چپل خریدنے کی ضرورت پڑی ۔ نجیب صاحب نے ایک دکان کے سامنے گاڑی روکی۔ ایک سے ایک شاندار چپل، جیسی کہ عہدِ قدیم کے عرب پہنا کرتے ۔ ایک سے ایک شاندار ڈیزائن اور ایک سے ایک خلیق دکاندار۔ چند ماہ کے وقفے سے دوسری اور تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا۔ اس خیال سے جی خوش ہوتا رہا کہ جس آدمی کے پاس پائوں پوشیدگی کے لیے عمر بھر ایک ہی بوٹ اور ایک چپل رہی ، اب کم از کم اس باب میں وہ مالدار ہے ۔ دوستوں کے لیے بار ہا رحیم یار خاں سے سنہری جوتے (کھسّے )منگوائے مگر اپنی طبیعت کبھی آمادہ نہ ہو سکی ۔ عجیب سا لگتاہے ، نمائشی سا۔ 
کوئی دن میں ایک چپل ٹوٹ گئی ۔ فکر کی کیابات ، دو عدد مزید موجود تھیں ۔ ہفتے بھر کے بعد دوسری بھی اور یا للعجب ، پھر تیسری ۔
چوہدری نثار علی خاں کا فرمان ہے کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی تمیز ختم ہو جائے تو معاشرہ برباد ہو جاتاہے ۔ ایف آئی اے کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ارشاد کیا کہ اس ادارے کو امریکی ایف بی آئی اور بھارتی سی بی آئی کی طرز پر ڈھالا جائے گا۔ اثر ورسوخ سے آزادجو کرپٹ ، بدعنوان اور ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے والوں پہ ہاتھ ڈالتے ہیں ۔ انہوں نے ہدایت کی کہ ایف آئی اے میں جن 62کرپٹ افسروں کی نشان دہی کی جا چکی، انہیں گھر بھیج دیا جائے ۔ کیا واقعی ؟ نادرا کے چیئرمین طارق ملک کی طرح راتوں رات؟ عالمی سطح پر نادرا کا لوہا منوانے والے طارق ملک بدعنوانی نہیں ، سرکار کو ناخوش کرنے کے مرتکب ہوئے تھے ۔ عدالتی حکم کے باوجود انہیں ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ بالکل برعکس نرگس سیٹھی منصب پہ براجمان رہیں، جو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو جائز طریقوں سے روپیہ کمانے کے گر سکھایا کرتی تھیں ۔ محترمہ فہمیدہ مرزا شادکام ہیں، جنہوں نے بینکوں سے 50کروڑ روپے معاف کرائے ۔ آصف علی زرداری خورسند ہیں، جنہیں شہباز شریف نے لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پہ گھسیٹنا، الٹا لٹکانا تھا۔ ایک مولوی صاحب جو زرداری صاحب کے بعد وزیراعظم نوازشریف کی ناک کا بال ہیں، جنہوں نے شہدائے کارگل کے لیے مختص زمینوں میں سے اپنا حصہ وصول کیا۔ بحریہ کا وہ افسر بھی ، جس نے الاٹ کردہ زرعی اراضی کو ناقص قرار دے کر ڈیرہ اسمٰعیل خان میں کمرشل زمین پائی۔ کارِ خیر میں پختون خوا کے وزیرِ مال کو شریکِ کار کیا بلکہ پٹواریوں اور تحصیل داروں کو بھی ۔چوہدری صاحب پسند کریں تو تمام متعلقہ سرکاری دستاویزات اور نیب کے ریفرنس کی ایک نقل ان کی خدمت میں پیش کی جا سکتی ہے ۔ 
چوتھے جوتے کا قصہ اور بھی دلچسپ ہے۔ بلال الرشید کے کمرے کا فرش لکڑی سے بنا ہے ۔ زیادہ صاف رکھنے کے لیے وہ اپنے جوتے باہر اتار دیتے ہیں ۔ ایک بہت ہی خوبصورت سی چپل ایک دن دکھائی دی ۔ پہن کر دیکھی تو دل شاد ہوگیا۔ اس قدر آرام دہ گویا ریشم کی بنی ہے ۔ پشاور کی نمک منڈی سے کبھی ایک پشاوری چپل لایا کرتا۔ امریکہ جانا ہوا تو بہت دن تو وہی پہنے رکھی ۔ بلال کا کہنا تھا کہ مہنگی تو بہت ہے مگر اتنی ہی آرام دہ ۔ مجھے بالی کا وہ بوٹ یاد آیا جو عزیزم محمد امین نیویارک سے لائے تھے۔ ازراہِ حماقت کسی کو دے دیا کہ 6ہزار کے سوٹ کے ساتھ بائیس ہزار کا جوتا جچتا نہیں ۔ پرسوں پرلے روز اس چپل کا انگوٹھا اور انگلیاں تھامنے والا فیتہ دراز ہوگیا۔ غور سے دیکھاتوتلا پھٹ گیا تھا۔ ہت تیرے کی۔ 
بخدا کراچی کے دکانداروں پر ہرگز کوئی غصہ نہیں ۔ فرصت نہیں ملتی وگرنہ خریداری اسی شہر میں کرنی چاہیے۔ دام نسبتاًکم، دکاندار خوش اخلاق۔ بگاڑ کراچی نہیں ، ہرشہر میں ہے ۔ خالد مسعود خان سے میں اتفاق نہیں کر سکتا۔ منافقت فقط ملتان میں نہیں، ہر کہیں ہے ۔ جیسا کہ ایک کے بعد دوسرے اخبار نویس نے لکھا : عبد الستار ایدھی کے دفتر پہ یلغار کرنے والے ڈاکوئوں کو مطعون کرنے والے حکومتوں کی حالتِ زار بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ 
ضدّی آدمی ہیں ۔ایف آئی اے کو ممکن ہے کہ چوہدری صاحب قدرے بہتر بنا لیں ۔ سامنے کی حقیقت مگر یہ ہے کہ حکمران طبقہ اگر پورے کا پورا بد عنوان ہو تو ماتحتوں اور عامیوں کی اصلاح کارے دارد ہے۔ 
الناس علیٰ دین ملوکہم۔ رعایا بادشاہوں کے نقوش پہ چلتی ہے ۔ پھر یہ ہے کہ زوال ہمہ گیر ہوتاہے ۔معاشرے کے سمندر میں حسنِ کردار کے جزیرے ہوتے بھی ہیں مگر کچھ زیادہ نہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved