وزیراعظم نواز شریف فرماتے ہیں کہ وہ غلطیوں سے سیکھیں گے اور بہتر حکمرانی کریں گے۔
میں حیران ہوں کہ اب سیکھنے کو کیا رہ گیا ہے۔ نواز شریف کو تیسری دفعہ وزیراعظم بنے ہوئے سترہ ماہ ہوگئے ہیں اور ابھی وہ کہتے ہیں کہ سیکھنا باقی ہے۔ الیکشن کے وقت ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ تجربہ کار ہیں اور لوگ عمران خان جیسے ناتجربہ کاروں کو ووٹ دے کر ملکی ترقی پر کمپرومائز نہ کریں‘ اب کہتے ہیں کہ وہ ابھی نادان ہیں اور غلطیوں سے سیکھ رہے ہیں۔
شاید کسی نے نواز شریف کو نہیں بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو تقریباً اکاون برس کی عمر میں چار برس وزیراعظم رہنے اور پاکستان میں بے شمار کام کرنے کے بعد جنرل ضیاء کے ہاتھوں پھانسی لگ چکے تھے۔ شاید نواز شریف کو یاد ہو‘ جنرل ضیا ان کے روحانی گرو تھے اور اپنی زندگی لگنے کی دعا دے کر چل بسے تھے۔ اگر اب بھی نواز شریف کو یاد نہیں آرہا تو پھر جنرل ضیا دراصل اعجاز الحق کے والد محترم تھے جن کا نام وہ اپنی نئی کابینہ میں فائنل کر چکے ہیں‘ اس لیے نہیں کہ وہ جنرل ضیا کے صاحبزادے ہیں بلکہ اس لیے کہ انہوں نے پچھلے دنوں نواز شریف کا دن رات ساتھ دیا جیسے انہوں نے کبھی جنرل مشرف کا دیا تھا۔ یہ بحران اعجاز الحق کے لیے ایک موقع بن کر سامنے آیا جب عمران خان اور علامہ قادری کے لائے ہوئے طوفان میں نواز شریف کو تنکے تک کی ضرورت تھی۔
سوال یہ ہے کہ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے کیا سیکھا ہے؟ کیا یہی کہ:
چوہدری نثار علی خان نے چھ ماہ قبل ایک پریس کانفرنس میں جس کا انکشاف کیا تھا؟ یعنی یہ کہ رحمن ملک نے دو ہزار سرکاری پاسپورٹس ایسے لوگوں کو جاری کر دیے تھے جن کا دور دور تک حکومت سے تعلق نہیں تھا۔ بلیو پاسپورٹس کا جمعہ بازار لگ گیا تھا۔ دکانداروں تک کو بلیو پاسپورٹ جاری ہوئے۔ چوہدری نثار نے وہ دو ہزار بلیو پاسپورٹس کینسل کردیے اور دعویٰ کیا گیا کہ اب وہ کسی غیر متعلقہ فرد کو جاری نہیں ہوں گے‘ چاہے آسمان ہی کیوں نہ گر پڑے۔ یہ بھی فرماتے تھے کہ وہ افسران کے خلاف کارروائی کریں گے۔
تو کیا ہوئی کارروائی؟
تو جناب سنبھل جائیں کیونکہ آسمان گر پڑا ہے۔ میرے پاس سرکاری دستاویزات ہیں کہ چوہدری نثار علی خان نے بھی رحمن ملک کی پیروی کرتے ہوئے خفیہ طور پر بلیو پاسپورٹس ایسے لوگوں کو جاری کیے ہیں جنہیں قانون کے تحت وہ سرکاری پاسپورٹس نہیں مل سکتے تھے۔ جب چوہدری نثار کو بتایا گیا کہ پاسپورٹس ایسے افراد کو جاری نہیں ہوسکتے جو سرکاری افسر نہیں ہیں تو فرمایا گیا کہ رولز کو ریلیکس کر دیا جائے اور وزارت داخلہ میں بیٹھے زکوٹا جنوں نے بھی وزیر کو خوش کرنے کے لیے فوراً رولز کو ریلیکس کیا اور سرکاری پاسپورٹس جاری کیے گئے۔
تو پھر کیا سبق سیکھا گیا...؟
رحمن ملک نے ملک کے بلیو پاسپورٹس کا جنازہ نکالا تھا اور لندن میں اپنے بیوی بچوں سے لے کر سب دوستوں اور دکانداروں تک کو جاری کر دیے تھے‘ اس کے بعد ہم توقع کرتے تھے کہ چوہدری نثار یہ کام نہیں کریں گے۔ وہ سبق سیکھیں گے اور ملک کے بلیو پاسپورٹس کی عزت کو نیلام نہیں کریں گے۔ مگر ہم سب اور ہماری توقعات غلط نکلیں۔ چوہدری نثار نے بلیو پاسپورٹس غلط لوگوں کو جاری کرنے کا کام وہیں سے شروع کیا جہاں سے رحمن ملک نے چھوڑا تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اصول اس وقت کام آتے ہیں جب دوسرے کے بارے میں کوئی انکشاف کرنا ہو۔ جب خود وہ غلط کام کرنا ہو تو پھر کسی اصول اور کسی ضابطے کی پروا نہیں کی جاتی۔
ایک اور سبق آموز کہانی سن لیں۔ اسحاق ڈار نے آئی پی پیز کو پانچ سو ارب روپے کی ادائیگی کرنے سے بلوں کو اکاونٹنٹ جنرل آف پاکستان سے چیک نہیں کرایا اور اسٹیٹ بنک سے براہ راست ادائیگیاں کردی گئیں۔ آڈیٹر جنرل نے اعتراض کیا تو ان کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے پبلک اکائونٹس کمیٹی کو استعمال کیا اور اب ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس چل رہا ہے۔ بات اصولوں کی اور عمل یہ۔ پھر یہ بھی فرمانا کہ ہم نے سبق سیکھا ہے۔
نواز شریف لندن میں کہتے تھے کہ انہوں نے بہت سبق سیکھ لیے ہیں اور اب وہ غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ تو کیا انہوں نے وہ غلطیاں نہیں دہرائیں؟ سب سے پہلے انہی لوگوں کو واپس نواز لیگ میں لیا جنہوں نے جنرل مشرف کے ساتھ مل کر انہیں اسلام آباد ایئرپورٹ پر باتھ روم میں بند کرایا تھا۔ اسی طرح نواز شریف فرماتے تھے کہ وہ آرمی چیف کی تعیناتی خود کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کی دفاع کی کمیٹی سے کرائیں گے۔ تو پھر کیا ہوا؟ موقع آیا تو خود فائل لے کر بیٹھ گئے اور پارلیمنٹ میں سات ماہ تک نہ گئے۔
نواز شریف فرماتے تھے کہ وہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر اہم تقرریاں بھی پارلیمنٹ کی کمیٹیوں سے کرائیں گے۔ تو پھر کیا ہوا؟ کیوں وہ خورشید شاہ سے مشورہ کررہے ہیں کہ نیا کون ہوگا؟ کیوں ہمت سے کام نہیں لیتے اور کمیٹی کو یہ کیس ریفر نہیں کرتے جیسے امریکہ میں ہوتا ہے؟
اگر سبق سیکھا ہوتا تو پورے خاندان کو اقتدار میں نہ گھساتے۔ وہ آتے ہی ضلعی حکومتوں کے الیکشن کراتے اور اقتدار اپنے ہاتھوں میں سمیٹنے کی بجائے عوام میں بانٹ دیتے کہ میں اکیلا اس ملک کا ٹھیکیدار نہیں بلکہ آپ لوگ بھی اس ملک کو چلانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ الٹا عوام سے ووٹ لے کر سارے اہم عہدے اپنے رشتہ داروں اور کاروباری دوستوں کو دے دیے گئے۔ اہم وزارتوں پر ایسے ایسے نکمے اور نااہل وزیر لگائے گئے کہ حیرانی ہوتی ہے۔
سبق سیکھا ہوتا تو اپنی برادری کے ہی بیوروکریٹس المعروف زکوٹا جنوں کو وزیراعظم ہائوس میں اہم پوسٹس پر تعینات نہ کرتے اور ہر اہم عہدے پر تقرری کا معیار یہ نہ ہوتا کہ کون کشمیری برادری سے ہے۔
سبق نہ سیکھنے کی ایک طویل داستان ہے۔
ہمیں کہا جاتا ہے کہ خزانے میں پیسہ نہیں ہے تو پھر وزارت پٹرولیم کے ماتحت اداروں نے پچھلے دو سالوں میں کیسے 450 قیمتی گاڑیاں خرید لی ہیں؟ جی ہاں 450 گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔ اگر ایک گاڑی کی اوسط قیمت پندرہ لاکھ روپے ہو تو آپ پوری لاگت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس پر پٹرول اور دیگر اخراجات الگ۔
ابھی قادری صاحب واپس گئے ہیں۔ عمران خان کو بھی واپس لوٹنے دیں‘ پھر باقی نواز شریف کے سبق سیکھنے کی باقی داستان سنائوں گا کیونکہ اور چھوڑیں جس طرح بلیو پاسپورٹ کا جنازہ وزارت داخلہ میں آج کل نکالا جارہا‘ وہ اپنی جگہ ایک کمال کا سکینڈل ہے لیکن اس ملک میں ایسے سکینڈلز پر غور کون کرتا ہے۔ ہر ایک کو اب بلیو پاسپورٹ چاہیے۔ گرین پاسپورٹ صرف عوام کے لیے رہ گیا ہے تاکہ وہ غیر ملکی ایئرپورٹس پر ذلیل ہوں۔ حکمران اور ان کے بچے اب عوام سے ہر صورت مختلف نظر آنا چاہتے ہیں۔ وہ اس ملک کا گرین پاسپورٹ بھی اٹھا کر بیرون ملک نہیں جانا چاہتے۔ جس کی عزت عوام سے زیادہ ان حکمرانوں اور ان کے بچوں نے برباد کی ہے!
چوہدری نثار علی خان کو رحمن ملک کی طرح اپنے یاروں‘ دوستوں اور غیر متعلقہ لوگوں کو سرکاری پاسپورٹس خفیہ طور پر جاری کرنے کا نیا مشن مبارک ہو!
آج چوہدری نثار کے مشن کی مبارکباد سے ہی کام چلائیں‘ وگرنہ ایک سو چالیس ملین ڈالر کا ایک نیا کھیل ایک اہم وفاقی وزارت میں کھیلا جانے والا ہے۔ ایک ایسا منصوبہ تیار ہورہا ہے جس کے لیے کمپنی پہلے سے ہی چن لی گئی ہے۔ محض تکلف اور فائلوں کا پیٹ بڑھنے کے لیے ایک اشتہار دیا جارہا ہے لیکن شرائط ایسی رکھی گئی ہیں کہ صرف وہی امریکی کمپنی ہی جیتے گی۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایک سو چالیس ملین ڈالرز کے اس کھیل میں کون کتنا کمشن کھائے گا، تو اتنا عرض ہے کہ امریکن جانتے ہیں کہ اس دنیا میں کوئی مفت کا لنچ نہیں ہوتا!
مجھے پتہ ہے آپ سے صبر نہیں ہورہا کہ کون مال کمانے کا منصوبہ بنا چکا ہے تو اتنا عرض ہے کہ جب وہ اہم وفاقی وزیر اپنے لنچ کی قیمت وصول فرمائیں گے تو آپ کو نام بھی بتا دیں گے!
اتنی جلدی کیا ہے۔ صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے!