ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے ''انقلابی دھرنا‘‘ ختم کرنے کا اعلان کوئی اچنبھے کی بات ہے نہ ہی اس میں حیرانگی کا کوئی عنصر ہونا چاہئے۔اس ''انقلاب مارچ‘‘ اور دھرنے کو اب سبھی ناٹک کہہ رہے ہیں، وہ ''تجزیہ نگار‘‘ اور ''ماہرین‘‘ بھی جنہوں نے اس ناٹک کو سنجیدہ اور حقیقی ''تحریک‘‘ کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ذرائع ابلاغ کے کچھ حلقوں نے تو اتنا تجسس پیدا کر دیا تھا کہ مڈل کلاس اور سماج کی کچھ پسماندہ پرتیں کسی حقیقی تبدیلی کایقین کر بیٹھی تھیں۔ اس سارے کھلواڑ کو اب ''پس پردہ طاغوتی قوتوں‘‘ کی کارستانی قرار دیا جارہا ہے۔
بے یقینی اور ذلت سے لبریز سماج جب یاس اور ناامیدی کی انتہائوں کو چھو رہا ہو اور منافقت معاشرتی معمول بن جائے تو 'سازشی نظریات‘ کا بازار خوب گرم رہتا ہے۔ ہر خود ساختہ تجزیہ نگار‘ نجومی اور جوتشی بن جاتا ہے گویا دلوں کے اندر اور دیواروں کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔یہاں پُراسراریت اور توہمات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے جس سے عوام تنگ بھی ہیں اور اس کے اسیر بھی۔ سلگتے ہوئے معاشی زخموں سے گھائل عوام کو مایوسی اور ناا میدی کی دلدل میں مسلسل جکڑ کر حکمران طبقے کے اہل دانش اپنے آقائوںکا وہ کام سرانجام دیتے ہیں جو بڑے سے بڑی طاقتور ریاستی ادارے بھی نہیں کرسکتے۔ حکمران طبقہ صرف ریاستی جبر اور طاقت کے ذریعے اپنی حاکمیت قائم نہیں رکھ سکتا بلکہ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ محنت کش طبقے کی نفسیات اور شعور کو مسلسل مجروح اور پست رکھا جائے۔یہ کام تعلیمی نصاب، صحافت، سیاست، فلم، ٹیلی وژن اور فلاحی اداروں کے نیک نام سماجی کارکنان کے ذریعے کروایا جاتا ہے۔
پاکستان میں معیشت کا بحران اتنی شدت اختیار کر گیا ہے کہ حکمران طبقے کی سیاست اور ریاست بھی اس کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ حاکمیت کو قائم رکھنے کے دوسرے تمام حربے ناکام ہونے کے بعد اب ایک حقیقی انقلابی تحریک کو روکنے کے لئے جعلی تحریکیں چلوائی جارہی ہیں۔ انقلاب کو روکنے کے لئے انقلاب کا ناٹک کروایا جارہا ہے۔ چور خود ''چور چور‘‘ کی صدا لگا رہے ہیں۔
پچھلے کچھ عرصے سے اس نظام زر کی حواری ہر سیاسی پارٹی اور لیڈر نے انقلاب کی نعرے بازی شروع کر رکھی ہے۔ دہائیوں تک امریکی سامراج کے ایجنڈے پر عمل پیرا رہنے اور ڈالر جہادمیں ہراول کردار کرنے والی جماعت اسلامی ''اسلامی انقلاب‘‘ کا درس دیتی آرہی ہے۔پھر میاں شہباز شریف کی ''انقلابی‘‘ تقاریر سے کون واقف نہیں ہے؟اس ملک کے حکمرانوں اور ان کی سیاست پر کیا برا وقت آگیا ہے کہ ضیا الحق کی باقیات کواب حبیب جالب جیسے کمیونسٹوں کی شاعری پڑھنی پڑتی ہے۔ چوہدری شجاعت بھی اپنی بچی کھچی پارٹی سمیت اس ''انقلاب‘‘ میں جگہ بنانے کی ناکام کوشش کرتے پھر رہے ہیں۔ عمران خان کا انقلاب پختونخوا میں کب کا رد ہو چکا لیکن موصوف خاصے ضدی واقع ہوئے ہیں۔
حکمران طبقے کی جانب سے انقلاب کی یہ ساری لفاظی پیپلز پارٹی قیادت کے لئے ایک المیہ بن کے رہ گئی ہے۔وہ کچھ بولتے ہیں تو مرتے ہیں، چپ رہتے ہیں تو مرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی، اس ملک میں وسیع عوامی بنیادیں رکھنے والی وہ واحد پارٹی تھی جس کا جنم ہی انقلاب (1968-69ء)کی کوکھ سے ہوا تھا۔ 1988ء سے اب تک پیپلز پارٹی پر حادثاتی یا وراثتی طور پر مسلط ہونے والی ہر قیادت نے اسٹیبلشمنٹ اور سامراج کی ہر شرط مان کر اس نظام کے سامنے سر تسلیم خم کیا لیکن انقلاب کا یہ ''داغ‘‘ ابھی تک دھل نہیں پایا۔ یہ داغ مٹے گا تو عوام میں پارٹی کی ساکھ یکسر مٹ جائے گی، یہ داغ رہے گا تو ریاستی اسٹیبلشمنٹ اور سامراجی آقائوں کے دل میں وسوسے رہیں گے ؎
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
''مصالحت‘‘ کی اصطلاح پارٹی قیادت کو شاید اسی لئے بہت پسند ہے کہ کوئی ''درمیانہ راستہ‘‘ نکالا جائے لیکن ایک ٹکٹ میں دو شو نہیں ہوا کرتے۔ محنت کش عوام کب تلک اس ادھورے انقلاب کی یاد اور روایت کے سہارے پارٹی قیادت کی ہر غداری برداشت کرتے چلے جائیں گے؟ صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی پس پردہ قوتیں ہیں جو اس ملک کی سیاست میں حتمی فیصلے کرواتی ہیں اور جنہوں نے قادری کے نیم جاں دھرنے کا بوریا بستر گول کروایا ہے۔ ماضی میں صرف عسکری اشرافیہ کی طرف انگلیاں اٹھا کرتی تھیں لیکن یہ کھیل اب اتنا سیدھا اور سادہ نہیں رہا۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران سامراجی قوتوں اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے۔ مزید برآں سامراج صرف امریکہ ہی نہیں ہے۔ یورپ سے لے کے چین اور ''برادر ممالک ‘‘ تک، کئی ریاستیں اپنے سامراجی عزائم کے لئے پاکستان کی سیاست اور ریاست میں بالواسطہ طور ایک دوسرے کی حلیف یا پھر حریف بنی ہوئی ہیں۔آخری تجزئیے میں ان سامراجی قوتوں کے عزائم مالیاتی ہی ہیں۔ پہلے سے موجود سیاسی ، سماجی اور ریاستی انتشار کی کیفیت میں یہ مالیاتی مفادات جب ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں تو جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں اور اس آگ کا ایندھن غریب عوام ہی بنتے ہیں۔ پاکستان جیسے سابقہ نوآبادیاتی ممالک کی مفلوج سرمایہ داری آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کی مداخلت کے بغیر نہیں چل سکتی، اور جب تک یہ مداخلت رہے گی یہاں کی دولت میں مقامی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سامراجی گدھ بھی حصہ دار رہیں گے۔ لٹیرے داخلی ہوں یا خارجی، پاکستان ہو یا بھارت یا کوئی بھی اور ملک، لٹتے محنت کش عوام ہی ہیں۔
ایک ہزار کتابوں کے مصنف قادری صاحب کے علم کی انتہا یہ ہے کہ پاکستان میں انقلاب فرانس اور انقلاب روس بیک وقت برپا کرنا چاہتے ہیں۔ تاریخ کا ادنیٰ سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ ان دو انقلابات کا معاشی اور سماجی کردار متضاد تھا۔ انقلاب فرانس جاگیر داروں کے خلاف ابھرتے ہوئے سرمایہ دار طبقے کا انقلاب تھا جبکہ انقلاب روس سرمایہ داری کے خلاف محنت کش طبقے کا انقلاب تھا۔ ڈاکٹر قادری ہمیشہ کی طرح اچانک وارد ہوئے لیکن ماضی کی طرح اتنی آسانی سے غائب نہیں ہو سکیں گے۔ اس مرتبہ مریدین کا ''کمبل‘‘ قادری صاحب کو چمٹ بھی سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے ناٹک انقلاب کے لفظ کو عوام کی نظروں میں ذلیل کرنے کی واردات کا حصہ ہیں۔ لیکن حکمرانوں کی بھول ہے کہ ان ہتھکنڈوں سے وہ انقلاب کو ابھرنے سے پہلے دفن کر سکیں گے۔ انقلابات دھرنوں اور مارچوں سے نہیں آتے اور نہ ہی بندوقوں کی نالیوں سے نکلتے ہیں بلکہ محنت کش طبقہ اپنے عزم، حوصلے ،جڑت اور فیصلہ کن سماجی و معاشی کردار کے ذریعے مارکسسٹ قیادت میں انقلابات برپا کرتا ہے ۔اس ملک کے محنت کش اور نوجوان فی الوقت سیاسی بے حسی کا شکار ہیں۔ ان حالات میں حکمران جتنے بھی ناٹک کرتے رہیں، کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ جو سورج ابھی طلوع ہی نہیں ہوا یہ تاریکی اس کی روشنی کو مٹا نہیں سکتی۔ سوشلسٹ انقلاب کا سورج جب طلوع ہو گا تو صرف استحصال اور محرومی کی تاریکی ہی نہیں مٹے گی بلکہ ریاست، سیاست اور سماجی نفسیات سمیت معاشرت کا ہر پہلو یکسر بدل جائے گا۔ سامراجی جکڑ کی بیڑیاں ٹوٹیں گی اور راج کرے گی خلق خدا۔ اخلاقیات، اقدار اور ثقافت پر سے سرمائے کا جبر ٹوٹے گا۔ انقلابات صرف معیشت اور سیاسی ڈھانچوں کو ہی نہیں بدلتے بلکہ تاریخ کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ جغرافیے تک بدل جاتے ہیں۔ محنت کش طبقے کا انقلاب انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا خاتمہ کرکے نسل انسان کی نئی تاریخ کا آغاز کرے گا۔