تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     24-10-2014

عدم فعالیت

ایف بی آر پاکستان کا سب سے زیادہ غیر فعال سرکاری ادارہ ہے۔ گزشتہ چند برسوںسے ایف بی آر ریونیوکی وصولی ، ٹیکس کے دائرے کو بڑھانے، بقایا جات کی ریکوری، ٹیکس نظام میں اصلاحات ، لیکیج کو بند کرنے اور ٹیکس چوری اور اس محکمے کے افسران کی بدعنوانی روکنے جیسے تمام محاذوں پر بری طرح ناکام ہواہے۔ انتہائی ناقص کارکردگی کے باوجودفنانس منسٹر اسحاق ڈارنے اس کی کارکردگی کوسراہتے ہوئے آئی ایم ایف سے مزید قرضہ مانگ لیا ہے۔فنانس ڈویژن نے اتفاق کرتے ہوئے آئی آرایس اور پی سی ایس میں ملازمتوںکے نئے مواقع پیدا کردیے۔ 
بہت بڑی ورک فورس رکھنے کے باوجود ایف بی آر کو مالیاتی سال 2013-14ء کے دوران ریونیوکی وصولی میں بہت بڑے خسارے کا سامنا ہے۔ طے شدہ ٹارگٹ2475 بلین روپے کی بجائے اس نے 2262 بلین روپے اکٹھے کیے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان جولائی 2013 ء سے لے کر مئی 2014ء تک ایف بی آرکی وصولی 1956 بلین روپے دکھاتا ہے۔ اسے اس سائٹ پر چیک کیا جاسکتا ہے۔۔۔ (http://www.sbp.org.pk/ecodata/tax.pdf)۔ اس نے جون2014 ء میں تین سو دس بلین روپے کیسے اکٹھے کیے، یہ کوئی راز کی بات نہیں۔ اس نے مبینہ طور پر بھاری فنڈز کو ایڈوانس کے طور پر کھاتے میں ڈالا اور ریفنڈ کی جانے والی رقم کو روک لیا۔ اپریل 2014ء کو چیئرمین ایف بی آر سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے اس کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ابھی 97 بلین روپے واجب الادا ہیں؛ تاہم آزاد ذرائع کے مطابق ریفنڈ کی رقم اس سے بھی زیادہ ہے۔ 
2013-14ء میں انکم ٹیکس کی وصولی افسران کی تمام تر کوششوںکے باوجود 80.58 بلین روپے رہی۔ یہ 2012-13ء میں 89.4 بلین روپے تھی۔ اس سے آئی آر ایس کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے کیونکہ کولیکشن آن ڈیمانڈ پچھلے سال کے مقابلے میں11.5 فیصد سے کم ہوکر سات آٹھ فیصد رہ گئی۔ 2013ء میں ایف بی آر بتیس لاکھ این ٹی این رکھنے والوں سے صرف 840,000 ریٹرن فائلز وصول کرسکا۔ نادرا کے اعدادوشمار کے مطابق تیس لاکھ سے زائد پوش علاقوں میں رہنے والے ایسے افراد ہیں جن کا این ٹی این ہی نہیں ہے۔ یہ افراد مہنگی گاڑیاں رکھتے ہیں ، لگژری گھروں میں رہتے ہیں، کئی ایک بک اکائونٹس رکھتے ہیں، غیر ملکی دورے کرتے ہیں لیکن انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ جن افراد نے ریٹرن فائل جمع نہیںکرائی‘ ان میں ایف بی آر کے اپنے 1020 افسران، اعلیٰ سرکاری ملازمین ، جج اور جنرل حضرات اور عوامی نمائندے شامل ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ 2009 ء میں 1,282,118 افراد نے ریٹرن فائلز جمع کرائی تھیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعدادمیں سالانہ سات فیصد کی کمی واقع ہورہی ہے۔ اس کے باجود ایف بی آر کی کامیابیوں کے گن گائے جا رہے ہیں جیسا کہ اس کے ہاتھ جادو کی کوئی چھڑی لگ گئی ہو۔ 
ایڈوانس رقوم، ودہولڈنگ ٹیکس اور رضاکارانہ طور پر دی گئی رقوم پر انحصار کرنے کے باوجود گزشتہ کئی برسوں سے ایف بی آر کی کار کردگی انتہائی ناقص رہی ہے۔ اس میںکوئی مبالغہ نہیں کہ یہ ایک ''غیر پیداواری ادارہ‘‘بن چکا ہے۔ اس وقت ملک کو جس مالیاتی بحران کا سامنا ہے ، اس کی بنیادی وجہ ٹیکس کی وصولی کا گلاسڑا ، غیر فعال اور بدعنوان نظام ہے۔ تاہم فنانس منسٹری اور ایف بی آر میں بیٹھے ہوئے افسران دعوے کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے کا کلچر ترقی نہیںپاسکا ۔۔۔ اسے ترقی دیناکس کی ذمہ داری ہے؟ تاہم حقائق ان دعووں کی نفی کرتے ہیں۔ پاکستان کے متوسط اور غریب عوام بھاری بھرکم ٹیکسز کا بوجھ اٹھارہے ہیں حالانکہ ان کی آمدنی کے لحاظ سے ان پر ٹیکس عائد نہیںہوتا۔ اس کے باجوود سیاست دان اور سرکاری افسران ان کو عالمی برادری کے سامنے طعنہ دیتے ہیں کہ پاکستانی ٹیکس چور ہیں۔حقیقت ہے کہ ٹیکس چور عام پاکستانی نہیں بلکہ اشرافیہ ہے۔عام پاکستانی اشیائے ضروریات، موبائل فون کارڈز، بینک کی سروسز، بجلی اور گیس وغیرہ استعمال کرتے ہوئے ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اس سے ریاست کا پہیہ چلتا ہے، جبکہ جن کی آمدنی بے اندازہ ہے ، وہ ہر قسم کے ٹیکسز سے مبرا ہیں۔ 
پاکستان کی کل آبادی میں 43 فیصد کی عمر پندرہ سال سے کم ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ٹیکس ادا کرنے کے قابل نہیں۔ چالیس ملین کے قریب دیہاتی مزدوروں کی آمدنی بہت کم ہے۔ ملک میں انکم ٹیکس ادا کرنے کے قابل افراد، جن کی آمدنی چارلاکھ سے زائد ہے، سے انکم ٹیکس وصول کرنے کی بجائے ان سے جبری ٹیکس وصول کررہا ہے جن کی آمدنی اس سے کم ہے۔ غیر افراد نہ صرف بالواسطہ ٹیکسز ادا کررہے ہیں بلکہ اُن سے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ء کی شقوں 148 سے156A تک اور234 سے236N کے تحت ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ اس طرح ہمارا ٹیکس کا یہ بوسیدہ نظام غریب عوام کا خون نچوڑ کر دولت مند افراد کو تجوریاں بھرنے کا موقع دے رہا ہے۔ ملک میں انقلاب کے لیے صرف یہی ایک جواز بہت کافی ہے۔ 
یکے بعد دیگرے مختلف حکومتیں عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں لانے میں ناکام ہوگئی ہیں۔ پاکستان کے شہری آج بھی اچھی تعلیم، صحت، روزگار اوردیگر شہری سہولیات سے محروم ہیں۔ ضروری ہے کہ ایف بی آر کو ہنگامی بنیادوں پر تحلیل کرکے نیشنل ٹیکس ایجنسی قائم کی جائے اور عوام کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے ٹیکس کی ادائیگی کو قومی فریضے کے احساس کے طور پر اجاگر کیا جائے۔ قومی شعور میںیہ بات راسخ کی جائے کہ ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر ایک آزاد قوم اپنی آزادی کا نہ تو دفاع کرسکتی ہے اور نہ ہی آزادی کے تقاضے پورے کرسکتی ہے۔ تاہم حالیہ دنوں جبکہ جلسے جلسوںکا موسم چل رہاہے، ٹیکس کی ادائیگی کا بیان قومی رہنمائوں کی زبان سے سننے کو نہیں ملتا۔ اس وقت پاکستان میں طالبان اور دیگر انتہا پسند اپنی جگہ تیزی سے بنارہے ہیں کیونکہ شمالی علاقوں میں ان کے خلاف فوج بہت کامیابی سے موثر کارروائی کررہی ہے۔ انتہا پسند عام شہریوں کو یہ کہہ کر اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ موجودہ نظام میں ان کے لیے کچھ نہیں۔ لوگ حقیقت میںبھی یہی دیکھتے ہیں کہ ان کی رقوم پر اشرافیہ عیش کررہی ہے تو پھر اُنہیں انتہا پسندوںکی بات میں وزن لگتا ہے۔ اگر حکومت اس صورت ِحال کا تدارک چاہتی ہے ( وزرا کے بیانات سے دہشت گردوںکو شکست نہیںہوگی)تو اسے اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ فوج ہتھیاروں سے لڑرہی ہے جبکہ فکری اور سماجی لڑائی حکومت اور سیاستدانوں نے لڑنی ہے۔ یہ بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ ٹیکس کی وصولی بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک فیصلہ کن کارروائی ہے، لیکن کیا کوئی سمجھنے کے لیے تیار ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved