تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     24-10-2014

تمغہ ء حسنِ کارکردگی

کپتان خود کو اعتماد میں لیے بغیر علّامہ طاہر القادری کی اچانک واپسی پہ افسر دہ ہے۔ اصل افسوس اسے علّامہ کو اپنا اتحادی بنانے پہ ہونا چاہیے۔ دو سال قبل اپنے مریدوں کو شدید سردی کی کند چھری سے ذبح کرنے کے بعد پتلی گلی سے انہوں نے کینیڈا کا رخ کیا تھا۔ اس بار کا دھرنا اس لیے طول پکڑ گیاکہ ایک تو تحریکِ انصاف کا لشکر انہیں حوصلہ بخش رہا تھا‘ دوسرے اب وہ حکومت گرانے کے ایک مکمل منصوبے کے ساتھ تشریف لائے تھے ۔ یہ سازش اگر کامیاب ہو جاتی تو ملک میں اس وقت طوائف الملوکی کا راج ہوتا کہ ریاست کو جوڑے رکھنے والے واحد قومی ادارے کو ضرب لگانا بھی اس کا حصہ تھا۔ سادگی کے مارے کپتان کو صرف اور صرف ایک بڑی منظم دھاندلی کے نتیجے میں نون لیگ کا مینڈیٹ غیر آئینی دکھائی دیتا تھا ؛لہٰذا عوامی قوّت کے بل پر وہ اسے گرا دینا چاہتاتھا۔ یہ اسے معلوم نہ تھا کہ ایک نہیں ، درحقیقت دو منصوبے متوازی طور پر روبہ عمل آنا تھے۔ ایک عمران خان اور علّامہ کا منصوبہ (درحقیقت جو طاہر القادری ہی کا مرتب کردہ تھا ) دوسرا وہ جو علّامہ صاحب کوان کے بیرونی نادیدہ دوستوں نے پڑھایا تھا ۔ 
لاہور کے جلسے میں علّامہ صاحب نے ملکی معیشت کی اصلاح کے لیے جو نکات پیش کیے ، میرے لیے وہ حیران کن تھے ۔ عمران خان اور نواز شریف سمیت ، کبھی کسی لیڈر نے ایسا کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا۔ مثلاً اسی کو لیجیے کہ ہمارا وطن دنیا کے چار
بڑے تجارتی و اقتصادی زونز کے سنگم پہ واقع ہے ۔چین، بھارت، مشرقِ وسطیٰ اور وسط ِ ایشیا کے درمیان۔ چین کو مشرقِ وسطیٰ کا تیل حاصل کرنے اور امیر خلیجی منڈیوں میں اپنی اشیا فروخت کرنے کے لیے پاکستان کے طول و عرض سے گزر کر گوادر تک رسائی چاہیے۔ ہندوستان کو معدنی دولت سے مالا مال وسط ایشیائی ریاستوں تک پہنچنے کے لیے پاکستان سے گزرنا ہوگا۔ یہ سب باتیں سو فیصد درست ہیں لیکن انہیں نافذ کرنے کے لیے شیخ الاسلام کو حکومت درکار ہے ۔اس کے لیے ان کے طرزِ عمل پہ غور کیجیے ۔ پہلے تو سارے نظام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ،پارلیمنٹ پہ ہلّہ بول کر اسے لپیٹ دینے کی کوشش ۔ اس کے بعد انتخابی عمل میں حصہ لینے کا اعلان ۔ کبھی ملک کے مستقبل سے مایوس ہو کر غیر ملکی شہریت کا حصول اور کبھی نام نہاد انقلاب کی جدوجہد۔ میں اپنے کمرے میں بند رہنے اور لوگوں سے کم ہی گھلنے ملنے والاآدمی ہوں ۔ دوسرے الفاظ میں سیاست کے لیے سو فیصد ناموزوں لیکن فرض کیجیے کہ سمندر کے بیچوں بیچ کسی غیر آباد جزیرے پہ صرف میں اور علّامہ صاحب ہی موجود ہوں ۔ ہمی دونوں میں سے وزیرِ اعظم کا انتخاب اگر جمہوری طریقے سے ہونا ہو تو علّامہ کو اپنا لیڈر ماننے
کی بجائے میں ان کے مقابل الیکشن لڑنے کا اعلان کر دوں گا۔
علّامہ صاحب کا طیارہ اب تیار سمجھیے ۔ پچھلے ڈھائی ماہ میں انہوں نے کیا پایااور ملک نے کیا کھویا، یہ حساب کتاب آنے والے دنوں اور مہینوں میں ہوتا رہے گا۔ قصہ مختصر یہ کہ کینیڈا کا ایک شہری پاکستانی سیاست میں اودھم مچا کر واپس جا رہا ہے ۔ 
شاہراہِ دستور پہ عمران خان اکیلے رہ گئے ہیں اور تحریکِ انصاف کے مظاہرین کی تعداد غیر معمولی طور پہ کم ہے ۔ ایسے میں تضحیک کا نشانہ بننے کی بجائے پی ٹی آئی کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک بڑا جلسہ منعقد کرنے کے بعد دھرنا ختم کر دینا چاہیے۔ استعفوں کی واپسی اگر ممکن ہے تو خوب وگرنہ اب پختون خوا میں غیر معمولی کارکردگی ہی وہ واحد راستہ ہے ، جس پہ چل کر تحریکِ انصاف مرکز میں حکومت پاسکتی ہے ۔ صوبائی سطح پہ احتساب کے موثر نظام اور بائیو میٹرک سسٹم کے تحت بلدیاتی الیکشن کے تحت اختیارات کی نچلی سطح پہ منتقلی اس کی ترجیح ہونی چاہیے۔ اس کی بجائے اگر نون لیگ کی حکومت گرانے پہ وہ اپنی توانائیاں صرف کرتی رہی تو صوبے میں اس اعلیٰ کارکردگی کا حصول ممکن نہ ہوگا، جو ان کی سیاسی بقا اور کامیابی کا اصل راستہ ہے ۔ 
پیپلز پارٹی پہ حیرت ہے ۔ مرکز میں نون لیگ کی حکومت کے ساتھ آصف علی زرداری کی غیر اعلانیہ مفاہمت کا محور و مرکز یہ ہے کہ ملک میں حقیقی احتساب کبھی نافذ نہ ہونے دیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے عہدیدار اس پالیسی کے نتیجے میں خود کو پگھلتا ہوا دیکھ رہے اور دانت پیس رہے ہیں ۔ نون لیگ کو وہ للکارنا چاہتے ہیں مگر زرداری صاحب اپنے ایسے شاہینوں کو پچکار کے ایک طرف بٹھا دیتے ہیں ۔ ادھر اپنے سیاسی کیریئر کا ''شاندار ‘‘آغاز کرنے کے لیے بلاول زرداری نے اپنے انکل الطاف سے جس محاذ آرائی کا اہتمام کیا ہے ، وہ اپنی جگہ ایک معمہ ہے ۔ زرداری صاحب کے دورِ حکومت میں کوئی درجن مرتبہ تو ایم کیو ایم حکومت سے الگ ہو ئی اور ہر بار اسے منا لیا گیا۔کیا یہی کھیل اب سندھ میں کھیلنا مقصود ہے اور کیا ملک اور حکومتیں اس طرح چلا کرتے ہیں ؟
پیپلز پارٹی کا مخمصہ یہ ہے کہ اسے حکومت بھی کرنی ہے اور مسائل حل بھی نہیں کرنے۔ ساتھ ہی ساتھ بڑے پیمانے کی عوامی ہمدردی اور تسلّیاں بھی درکار ہیں۔ پھر اسے اپوزیشن کرنی ہے اور حکومت کی پکڑ بھی نہیں کرنی۔ اسے ایم کیو ایم کو للکارنا بھی ہے اور پھر ہر صورت اسے منا کرشاملِ حکومت کرنا ہے ۔ 
ادھر ایم کیو ایم ، مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے، اسلام اوراے این پی ہیں ۔ سبھی کو کپتان سے خطرہ ہے ، کپتان کو شیخ رشید سمیت اپنے ان مہربانوں سے ، جنہیں نون لیگ سے حساب برابر کرنا ہے ۔ وہ لوگ جو گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے بعد، جمہوریت کی برکات سے لطف اندوز ہونے کے بعد اب انقلابی ہوگئے ہیں ۔ 
پاکستانی سیاست ایک مزاحیہ فلم کی صورت اختیار کر تی جا رہی ہے ۔ 14اگست سے اب تک کا تمغہ ء حسنِ کاکردگی علّامہ طاہر القادری کے نام ہے ۔اس کے بعد لال حویلی کے اس پراسرار کردار ، جنرل مشرف کے دور میں فرزندِ راولپنڈی سے فرزندِ پاکستان کا سفر طے کرنے والے شیخ صاحب کا نمبر آتاہے ۔ 
ادھر کپتان ہے ،ایک صوبائی حکومت کی صورت میں قدرت نے جسے ایک سنہری موقع دیا تھا ۔ پاکستانی سیاست کجا، وہ تو کراچی میں پیدا ہونے والا عظیم الشان خلا بھی پر نہ کر سکا۔ خدا جانے کل کیا ہوگا۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ الیکشن کمیشن ، نیب اور نادرا سمیت، ہمیں اداروں کی مضبوط بنیادوں پہ تشکیل کی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved