تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     25-10-2014

ڈاکٹر طاہرالقادری… ایک معما

دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اب کیا کریں گے؟ جب وہ پاکستان واپس تشریف لائے‘ تو دوٹوک الفاظ میں اعلان کر دیا تھا کہ اب وہ کینیڈا واپس نہیں جائیں گے۔ ثبوت کے طور پر اپنے کچھ سامان یعنی کتابوں کا حوالہ دے کر فرمایا کہ ''میں اپنی ضروریات کا سارا سامان یہاں لے آیا ہوں اور اب پاکستان میں رہ کر ہی سیاست کروں گا۔‘‘ ان کے ماننے والوں کی تعداد کافی ہے۔ جس کا اندازہ ماڈل ٹائون میں‘ ان کی قیام گاہ اور اسلام آباد میں ہوائی اڈے پر‘ ان کے استقبالیہ ہجوم کو دیکھ کر ہوا۔ واپس آتے ہی انہوں نے کچھ ڈرامائی مناظر پیدا کئے۔ وہ کینیڈا سے اپنے لئے کچھ تربیت یافتہ گارڈز ساتھ لائے تھے۔ جیسے ہی جہاز بلندی چھوڑنے لگتا‘ ان کے گارڈز جہاز کے دروازوں پر کھڑے ہو جاتے۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر بھی ان کے پیروکار بہت بڑی تعداد میں جمع ہو گئے تھے اور انہوں نے سکیورٹی کا سارا بندوبست درہم برہم کر کے‘ ایئرپورٹ کا چاروں طرف سے گھیرائو کر لیا تھا۔ لاہور میں فائرنگ کے واقعہ کے بعد‘ پولیس ڈری ہوئی تھی‘ کیونکہ جن پولیس والوں نے گولیاں چلائی تھیں‘ ان میں یہ خوف پیدا ہو گیا تھا کہ حکومت ان کا ساتھ نہیں دے گی۔ انہیں خود مقدمے بھگتنا پڑیں گے۔ حکومت کا یہ طرز عمل دیکھ کر پولیس نے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر‘ ہجوم کو روکنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ یہاں تک کہ انہیں ربڑ بلٹس بھی نہیں دی گئیں۔ وہ خالی لاٹھیاں لے کر ایئرپورٹ کی حفاظت کے لئے گئے اور جس طرف سے بھی ہجوم کا دبائو بڑھتا‘ وہ راستے چھوڑتے گئے۔ عوام نے اپنے ٹی وی سیٹ پر یہ مناظر دیکھے ہوں گے کہ پولیس فورس کے جوان‘ اپنی لاٹھیاں اٹھائے ہجوم کے آگے بھاگ رہے ہیں اور ہجوم نعرے لگاتا ہوا ان کا تعاقب کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ ہجوم پارکنگ سٹینڈ پر بھی قابض ہو گیا اور مسافروں کے جہاز سے باہر نکل کر‘ بخیریت گھروں تک پہنچنے کے راستے بند ہو گئے۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ جہاز کو لاہور میں اتارا جائے۔ 
لاہور میں ڈاکٹر صاحب نے جو ڈرامائی مناظر پیدا کئے‘ وہ اپنی جگہ ایک کہانی ہے۔ مسافروں نے بتایا کہ حضرت نے‘ کینیڈا سے اپنے ساتھ بٹھائے ہوئے گارڈز کو‘ جہاز کے سارے دروازوں پر کھڑا کر دیا اور مسافروں کو یرغمالی بنا کر‘ جہاز کے اندر ڈٹ گئے اور طرح طرح کے مطالبات کرنے لگے۔ ان کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ فوج کے اعلیٰ عہدیدار‘ انہیں لینے کے لئے جہاز کے اندر آئیں۔ اس شرط پر وہ باہر نکلیں گے۔ لیکن فوج کا کوئی عہدیدار نہیں آیا۔ اس دوران موصوف مختلف شرطیں عائد کرتے رہے اور انتظامیہ بے بسی کے ساتھ‘ ان کے احکامات کی تعمیل کرنے میں لگی رہی۔ ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ جہاز کو واپس اسلام آباد بھیجا جائے۔ وہ وہیں جا کر اتریں گے۔ آخرکار گورنر پنجاب چوہدری سرور کا نام سامنے آیا۔ وہ عوامی مزاج کے آدمی ہیں۔ فوراً ہی ایک اضافی بلٹ پروف گاڑی کے ساتھ ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ 
وہاں بھی علامہ صاحب کا تقاضا تھا کہ چوہدری شجاعت حسین‘ اپنی بلٹ پروف گاڑی لے کر آئیں‘ تو وہ ان کے ساتھ بیٹھیں گے۔ گورنر صاحب کی آمد پر وہ جہاز سے باہر تو آ گئے لیکن ان کی لائی ہوئی گاڑی میں بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ چند منٹ کے بعد چوہدری پرویز الٰہی پہنچ گئے۔ تب کہیں جا کر حضرت صاحب کار میں بیٹھے۔ گورنر صاحب کو یرغمالی بنا کر‘ علامہ صاحب نے اپنے ساتھ رکھا۔ کار میں ساتھ بٹھا کر ہسپتال لے گئے‘ جہاں انہوں نے زخمیوں کی عیادت کی۔ اس کے بعد گورنر صاحب کو ساتھ لے کر اپنی قیام گاہ پر گئے اور وہاں سے گورنر صاحب کو رہائی ملی۔ ان دنوں عمران خان‘ اسلام آباد میں دھرنے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ ان کا انتظام یہ تھا کہ اسلام آباد کی انتظامیہ جہاں پر بھی دھرنے کی اجازت دے گی‘ وہ اسی جگہ بیٹھیں گے۔ مقابلے میں عین اسی وقت ڈاکٹر صاحب نے بھی جی ٹی روڈ سے‘ اسلام آباد پہنچنے کا فیصلہ کر لیا اور عمران خان کے مقابلے کا دھرنا دے کر‘ بیٹھ گئے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ میں نے صرف عمران خان کے دھرنے پر‘ اظہار خیال کیا اور علامہ صاحب کے دھرنے پر خاموشی اختیار کئے رکھی۔ مجھے شک تھا کہ علامہ صاحب کوئی نہ کوئی کارنامہ انجام دینے‘ عمران خان کے مقابل دھرنا دینے گئے ہیں۔ چند روز تو حالات ٹھیک رہے‘ لیکن پھر ڈاکٹر صاحب نے اصل کام دکھانا شروع کیا۔ حکومت نے جن مقامات کو حساس قرار دیا تھا‘ وہاں پہنچنے کے اعلانات کرنا شروع کر دیئے۔ عمران خان کے کارکن بھی پُرجوش اور پُرعزم تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے حامیوں کو ممنوعہ مقامات پر زبردستی جاتے دیکھا‘ تو ان سے نہ رہا گیا۔ پہلے روز وہ ریڈ زون کے ناکے تک پہنچ کر واپس آ گئے تھے‘ لیکن جب ڈاکٹر صاحب کے پیروکاروں کو پولیس کی صفیں توڑتے دیکھا‘ تو ان سے بھی نہ رہا گیا اور اس طرح پابندیوں کی خلاف ورزیاں شروع ہو گئیں۔ علامہ صاحب نے اپنے کارکنوں کو پہلے تو پولیس کے ساتھ تصادم کی طرف دھکیلا۔ اس پر بھی ذمہ دار حلقوں میں زیادہ تشویش پیدا نہ ہوئی‘ تو ٹی وی سٹیشن پر قبضے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس منصوبے کے بارے میں جو سرگوشیاں سننے میں آئیں‘ ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ٹی وی سٹیشن پر حملے کا بندوبست‘ ماروی میمن نے کرایا تھا۔ وہ خود بھی موقع پر موجود رہیں۔ یہ وہ مرحلہ تھا‘ جب حکومت کو یہ ثابت کرنے کے لئے دلائل میسر آ گئے کہ مظاہرین‘ پُرامن لوگ نہیں ہیں۔ یہ حساس مقامات پر قبضے کرنے کے باغیانہ اقدامات کر رہے ہیں اور اگر انہیں کنٹرول میں نہ لایا گیا‘ تو یہ پارلیمنٹ ہائوس اور حساس سرکاری دفاتر پر بھی قبضہ 
کر لیں گے اور نظم و نسق برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ پولیس کے ساتھ تصادم‘ پارلیمنٹ کی حدود میں مظاہرین کا زبردستی داخلہ اور ٹیلیویژن سٹیشن پر قبضے کے واقعات ایسے تھے‘ جنہوں نے پارلیمنٹ اور انتظامیہ کو وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہونے کا جواز مہیا کیا۔ فوج جو مصالحت کا کردار ادا کرنے جا رہی تھی‘ اس نے لاتعلقی اختیار کر لی۔ فوج کی دلچسپی ختم ہوتے ہی‘ حکومت نے مذاکرات سے دامن کھینچنا شروع کر دیا اور ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کو بوریا بستر سمیٹ کر‘ دھرنے کی پھیری لگانے کا اعلان کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں آصف زرداری کا کردار بھی کافی اہم تھا۔ انہوں نے ذاتی دلچسپی لے کر‘ پارلیمنٹ کو وزیر اعظم کی حمایت میں منظم کر دیا۔ ایک موقع پر پیپلزپارٹی کی براہ راست امداد کا ذکر بھی آیا۔ میرے ایک صحافی دوست کا کہنا ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے رہنما‘ راجہ ریاض نے ایک بیان دے دیا تھا کہ ''ڈاکٹر صاحب کہاں جا رہے تھے؟ انہیں تو ہم نے بندوبست کر کے بھیجا۔‘‘ ان کا اشارہ سرمائے کی فراہمی کی طرف تھا۔ حکومت کو بھی‘ ڈاکٹر صاحب کی تمام تر اشتعال انگیزیوں کے باوجود مکمل اطمینان تھا۔ شنید ہے کہ حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ایک میٹنگ میں کہا تھا ''ہمیں طاہرالقادری کا کوئی ڈر نہیں۔ وہ جب پیسے کا مطالبہ کریں گے‘ انہیں فراہم کر دیا جائے گا۔‘‘ انہوں نے اپنی تقریروں میں بھی کھلے اشارے دینا شروع کر دیئے کہ فوج بہت جلد مداخلت کرنے والی ہے۔ فوج اپنے سر اس طرح کے الزامات لینا پسند نہیں کرتی۔ چنانچہ مصالحت کاری کے لئے جو فیصلہ ہونے والا تھا‘ وہ آخری شکل اختیار نہیں کر پایا اور فوج نے قبل از وقت ہی مصالحت کاری کے کردار سے لاتعلقی اختیار کر لی۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو گزشتہ دو مہینوں میں‘ ڈاکٹر طاہرالقادری کی کارستانیوں کا تجزیہ کرنا چاہیے اور اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ عمران کی خواہش کے بغیر‘ دھرنوں میں لاقانونیت کیسے داخل ہوئی؟ کون آگے بڑھ بڑھ کر حساس مقامات پر حملوں کے احکامات دے رہا تھا؟ کس کی ایما پر ٹی وی سٹیشن پر قبضہ کیا گیا تھا؟ کس کے کہنے پر پارلیمنٹ کی حدود میں داخل ہو کر دھرنا دیا گیا؟ ریڈ زون میں زبردستی داخل ہونے کا راستہ کس نے دکھایا؟ امید ہے عمران خان کو بھی اب تک پتہ چل چکا ہو گا کہ ان کی تحریک کامیابی کے قریب پہنچ کر کیسے ناکام ہوئی؟ اپنی مصلحتیں وہ خود سمجھتے ہوں گے‘ لیکن انہیں اپنے کارکنوں کو اعتماد میں لے کر بتا دینا چاہیے کہ ان سے کہاں کہاں بھول چوک ہوئی؟ اور انہیںکس طرح اپنے نام نہاد اتحادیوں اور ہمدردوں سے بچنا چاہیے؟ عرب دنیا کے مقبول ترین ٹی وی چینل ''الجزیرہ‘‘ نے اپنی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ جاری کی ہے‘ جس میں ان کی پُراسرار سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے‘ انہیں ''معما‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا تازہ ترین بیان یہ ہے کہ انہیں وزیر اعظم ہائوس کے احکامات کی فوراً اطلاع مل جاتی ہے۔ مزید کچھ لکھنے کی ضرورت ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved