بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی رونمائی پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ اسے موروثی طور پر بھی اس کا حق پہنچتا تھا‘ بلکہ اس کا سب سے پہلا اقدام خود کو بلاول زرداری کی بجائے بلاول بھٹو زرداری کہلانا تھا کیونکہ محض بلاول زرداری کہلوانے سے اس کے سیاسی بوجھ میں والد صاحب کا اضافہ بھی ہوجاتا۔ تقریروں میں سیاسی حریفوں اور اتحادیوں کے خلاف تندوتیز الفاظ کے استعمال پر بھی کسی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کا ایک پلس پوائنٹ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ نوجوان ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ نوجوانوں کے زیادہ تر ووٹ اس کے ورود سے پہلے ہی عمران خان بٹور چکا ہے‘ جبکہ اس کے خطابات بھی روٹین ہی کے ہوتے ہیں‘ حالانکہ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اپنی پارٹی کی اصل پہچان یعنی لبرل ازم پر بھی زور دے گا جو ایک قصۂ پارینہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے؛ چنانچہ اب لطیفہ یہ ہے کہ ملک کی سبھی قابل ذکر سیاسی جماعتیں سینٹر رائٹ کا چولا پہنے ہوئے ہیں جو کہ بدیہی طور پر ایک پرواسٹیبلشمنٹ پالیسی ہے جس سے پیپلز پارٹی اول اول مکمل طور پر منکر رہی ہے۔ چنانچہ اب اپوزیشن‘ جو پہلے ہی مفاہمت زدگی کا زخم کھائے ہوئے تھی‘ نظریاتی لحاظ سے معدوم ہو چکی ہے۔ اور‘ مزید لطف یہ ہے کہ یہی پالیسی اور نظریہ طالبان کا بھی ہے جنہیں عسکریت پسندوں کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ہمارے دوست اور پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے اس پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا چونکہ اب ان کے درمیان نظریات کا کوئی واضح فرق باقی نہیں رہ گیا ہے تو ان پارٹیوں کو بشمول طالبان ہم وجودیت کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سیاست کے اس میدان کو حصہ رسدی آپس ہی میں تقسیم کر لینا چاہیے کیونکہ اب جھگڑا تو صرف اقتدار ہی کا باقی رہ جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی تنظیم نو کے چرچے بھی ہیں۔ اگرچہ برادرم چودھری اعتزاز احسن کا یہ بیان اور تجویز ریکارڈ پر موجود ہے کہ ان کے اپنے سمیت‘ پچاس سال کے اوپر کے زعماء کو اب پچھلی سیٹوں پر بیٹھنے پر اکتفا کرنا چاہیے؛ تاہم اگر اس پر عمل کر بھی لیا جائے تو پارٹی کے پاس پیچھے کیا رہ جائے گا کہ پرانا یعنی نظریاتی کارکن تو ویسے ہی ناپید ہو چکا ہے جس کے لیے (اسلامی) سوشلزم کا نعرہ ایجاد کیا گیا تھا‘ حتیٰ کہ مساوات اور روٹی کپڑا اور مکان کا بنیادی نعرہ بھی کہیں بیچ میں ہی رہ گیا کیونکہ یہ معززین اقتدار میں بار بار آنے کے بعد اپنے ہی روٹی کپڑے کی فکر میں غلطاں رہے؛ چنانچہ
پارٹی اگر زرداری‘ منظور وٹو‘ یوسف رضا گیلانی‘ رحمن ملک اور امین فہیم وغیرہ کا بوجھ اٹھا کر یہ سفر طے کر سکتی ہے تو کسی منزل پر پہنچنے کے حوالے سے کسی کو بھی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مفاہمتی پالیسی یعنی مل جل کر کھانے پینے کا بھی اب زمانہ نہیں رہا کیونکہ لوگ اس کی حقیقت سے آگاہ ہو چکے ہیں اور جس کے ایک ردعمل کا اظہار وہ حالیہ انتخابات کے دوران کر بھی چکے ہیں۔
یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ پارٹی سوشلزم کا بھولا ہوا سبق اب دوبارہ رٹنا شروع کردے جبکہ یہ رویہ ویسے بھی سیدھا سیدھا اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے جس سے روبراہ ہونے کا دم خم اب پارٹی میں ویسے بھی نہیں رہا۔ اور چونکہ وہ بھی باقاعدہ ایک سٹیک ہولڈر ہے اور نظریاتی طور پر بھی جملہ سیاسی جماعتوں کی ہم خیال‘ اس لیے اقتدار میں اس کے باقاعدہ حصے کا نہ صرف اعتراف کر لینا چاہیے بلکہ اس کی ادائی کی کوئی عملی صورت بھی اختیار کی جانی چاہیے کیونکہ اب تو سبھی ماشاء اللہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ اور اگر سیاست واقعی ایک دھندہ ہے تو اس کا حق سبھی کو دیا جانا چاہیے‘ نیز اگر یہ پاور پالیٹکس ہی ہے تو اصل پاور کو اس سے کب تک محروم رکھا جا سکتا ہے۔
اس لیے پیپلز پارٹی سمیت اب کسی بھی جماعت سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ملک میں کوئی انقلاب برپا کردے گی اور غربت کی لکیر کے نیچے گزر بسر کرنے والے 11 کروڑ عوام کی حالت سدھرنے کا کوئی امکان کہیں موجود ہوگا۔
اور‘ اب آخر میں خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل:
رہ گئے پیچھے کہیں طبعِ رسا کے سبب
بھول گئے راستہ سمت نما کے سبب
حال یہ ہونا ہی تھا، بیٹھ کے رونا ہی تھا
دستِ دعا کے بغیر‘ سنگِ سزا کے سبب
آ کے سمیٹے کوئی مجمعِ آلودگاں
گند یہ پھیلا ہوا اہلِ صفا کے سبب
اک سفرِ رائگاں پر رہے آپ اور ہم
کوئی الگ کے طفیل، کوئی جدا کے سبب
کام بگڑتا گیا، بات الجھتی گئی
حبس بہت بڑھ گیا رنگِ ہوا کے سبب
شام میں اک شور سا، شور میں اک شام سی
شہر بھی ہشیار سا، بیمِ بلا کے سبب
موج کناروں میں تھی، بات اشاروں میں تھی
خوابِ خموشی تھا ایک اپنی صدا کے سبب
بے سر و ساماں تھے ہم اس لیے تھے مطمئن
آپ ہی خطرے میں ہیں برگ و نوا کے سبب
رنج سے روشن رہی شامِ جدائی، ظفرؔ
عشق ہوا لازوال قحطِ وفا کے سبب
آج کا مطلع
شور ہے زیرِ زمیں چشمہ اُبلتا کیوں نہیں
بول اے خاکِ وطن، پانی نکلتا کیوں نہیں