تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     25-10-2014

قول و فعل کا تضاد

امّتِ مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ ہم قول و فعل کے تضاد کا شکار ہیں۔ اس میں حکمران اور عوام سب ہی درجہ بدرجہ شامل ہیں۔ اسی دوعملی، منافقت اور تضاد کی وجہ سے ہم دنیا میں ناقابلِ اعتبار ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو بندے کی یہ خصلت ازحد ناپسند ہے، ارشاد فرمایا: ''اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو، جس پر تم خود عمل نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بڑی ناراضگی کا سبب ہے کہ تم کہو کچھ اور کرو کچھ، (الصف:2-3)‘‘۔ قرونِ وسطیٰ میں یہود کے علماء کا یہی شِعار تھا، جس کی قرآن مجید نے سختی سے مذمت فرمائی: ''کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو، سو کیا تم (قول و فعل کے اس تضاد کو) سمجھتے نہیں ہو، (البقرہ:44)‘‘۔
مزید فرمایا: ''پس عذاب ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے تاکہ اس کے بدلے میں تھوڑی سی قیمت لے لیں، سو ان کے لئے عذاب ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا اور جو کچھ انہوں نے کمایا، اس کے سبب سے ان کو عذاب ہو گا، (البقرہ:79)‘‘۔ یعنی ان کی یہ دوعملی اور دنیا کے عارضی مفادات کا طمع انہیں کتابِ الٰہی میں تحریف پر بھی آمادہ کر دیتا تھا۔ تھوڑی قیمت سے یہ مراد نہیں ہے کہ زیادہ ملے تو پھر یہ سودا کر لینا چاہئے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت کی اَبدی اور دائمی نعمتوں کے بدلے میں ساری دنیا کی دولت بھی مل جائے، تو وہ حقیر ہے اور یہ سودا خسارے کا سودا ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا پھر اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا، اس کی انتڑیاں دوزخ میں بکھر جائیں گی اور وہ اس طرح گردش کر رہا ہو گا جس طرح چکی کے گرد گدھا گردش کرتا ہے، دوزخی اس کے گرد جمع ہو کر اس سے کہیں گے: اے فلاں! کیا بات ہے؟ تم تو ہم سب کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور بُرائی سے روکتے تھے، وہ کہے گا: میں تم کو تو نیکی کا حکم دیتا تھا، مگر خود نیک کام نہیں کرتا تھا اور میں تم کو تو بُرائی سے روکتا تھا، مگر خود بُرے کام کرتا تھا، (بخاری:3267)‘‘۔ یعنی آج اُسی عملی منافقت اور تضاد کی سزا بھگت رہا ہے۔ اس حوالے سے ہر دور کے خطباء، واعظین، ذاکرین اور قومی رہنمائی کے منصب پر فائز ہونے والوں کی ذمے داری سب سے زیادہ ہے اور آخرت میں ان کی دوعملی کا وبال بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا، چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''معراج کی شب میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا، جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے، جب بھی ان کو کاٹا جاتا وہ جڑ جاتے اور پھر ان کو کاٹا جاتا، میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ آپ کی امت کے وہ واعظین ہیں جو لوگوں کو تو خیر کی دعوت دیتے تھے، مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے، وہ کتاب اللہ کو پڑھتے تھے، مگر اس پر عمل نہیں کرتے تھے، (مسند ابویعلیٰ:3992)‘‘۔
ہمارے اندر ایک بڑی خرابی یہ دَر آئی ہے کہ ہم اسلام اور اپنے اکابر کے شاندار ماضی کے سہارے جینا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو اس اعزاز و اکرام اور افتخار کا حق دار گردانتے ہیں، جس کے معیار پر ہم کسی بھی طور پر پورا نہیں اترتے۔ ہمیں اپنی معاصر دنیا سے بہت شکوہ اور شکایت ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے ان کا طرزِ عمل اور اپروچ عداوت اور بغض پر مبنی ہے، حالانکہ اسلام اتنا خوبصورت، پُرامن، عافیت اور سلامتی کا دین ہے۔ ہم اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پا رہے کہ اکیڈمک یا ٹیکسٹ بک یا کتابی اسلام اور آج کے مسلمان کے کردار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آئیڈیل اور کتابی اسلام کچھ اور ہے اور پریکٹسنگ اسلام یا مسلمانوں کی عملی تعبیر و تصویر اس سے بہت مختلف ہے۔ اسی لئے فارسی میں کہتے ہیں: ''اسلام در کتاب و مسلمان در گور‘‘۔ یعنی حقیقی اسلام تو کتاب (قرآن و سنت) میں ہے اور جو مسلمان اس کی عملی تعبیر و تصویر تھے، وہ اپنی قبور میں آرام فرما ہیں۔ 
ہماری ایک غلط فہمی یا ناقص اندازِ فکر یہ بھی ہے کہ ہم آئیڈیل اسلام کا مقابلہ مغرب کے عملی حکمرانوں سے کر رہے ہوتے ہیں اور ان کی تہذیبی شکست و ریخت، جنسی و اَخلاقی زوال اور خاندانی نظام کے منتشر ہونے کو دیکھ کر یہ فرض کر لیتے ہیں کہ تہذیبِ مغرب رو بہ زوال ہے اور جلد یا بدیر یہ تہذیب رو بہ زوال ہو جائے گی، لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ آیا ہم اس خَلا کو پُر کرنے کے لئے پوری طرح سے تیار ہیں اور یہ کہ آیا ہم موجودہ دنیا کی قیادت کرنے کی اہمیت کے حامل ہیں؟ پس سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ عمل کی دنیا ہے، مفروضوں اور موہوم تصورات (Perceptions) کی دنیا نہیں۔ علامہ اقبال نے مسلم نوجوان سے خطاب کرتے ہوئے، اپنے اسی دردِ دل کو انتہائی مؤثر انداز میں بیان کیا ہے ؎ 
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹو ٹا ہوا تارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے؟
جہاں گیر و جہاں بان و جہاں دار و جہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاط میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے، وہ نظارا
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارا
گنوا دی ہم نے، جو اَسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر، آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی 
جو دیکھیں ان کو یورپ میں، تو دل ہوتا ہے سیپارہ
ان اَشعار میں علامہ اقبال مسلم نوجوان کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ذرا دنیا کی رنگینیوں ، رعنائیوں اور چمک دمک سے کچھ دیر کے لئے نکلے اور چشمِ تصور میں اسلام کے شاندار ماضی کا جائز ہ لے اور اس حقیقت کا تجزیہ کرے کہ اس کے عروج کے اسباب کیا تھے اور وہ کیا اسباب تھے کہ جن کے باعث مسلمان عبرتناک زوال سے دوچار ہوئے۔ وہ مسلم نوجوان کو بتانا چاہتے ہیں کہ تمہارے آباء کردار کے غازی تھے اور تم فقط گفتار کے غازی ہو، ان کا سفر ہر آن رفعتوں اور سرفرازیوں کی جانب تھا اور تم جمود کا شکار ہو، تو پھر سوچو تمہیں اپنے آباء سے کوئی حقیقی اور عملی نسبت ہے کہ تم ان کی سطوت و شوکت اور عِزّوجاہ کی وراثتوں کے وارث اور امین بنو۔
وہ بتاتے ہیں کہ ہم نے اپنے اَسلاف کی علمی اور عملی عظمت کو جب گنوا دیا اور عزت و افتخار کا اعزاز کھو بیٹھے، تو آسمان نے ہمیں ثریا کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں پٹخ دیا۔ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ صرف حکومت کا چھن جانا ہی ہمارا المیہ نہیں، وہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ دنیا کا مسلّمہ دستور ہے کہ آپ کو دنیوی امامت اور قیادت کے لئے بھی میرٹ پر پورا اترنا ہو گا، ورنہ دنیا کی ٹھوکروں میں پڑے رہو گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقوامِ عالَم کے ارتقا کا راز علم میں مضمر ہے، لیکن علم کے جن خزینوں اور مآخِذ سے اہلِ مغرب نے استفادہ کیا اور سائنس و ٹیکنالوجی میں دنیا کی رہنمائی اور اجارہ داری کے منصب پر فائز ہو گئے، جب میں اپنی اس علمی وراثت (یعنی اَسلاف کی علمی، سائنسی اور فنی کتب) کو یورپ کی لائبریریوں میں دیکھتا ہوں، تو میرا جگر پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ 
علامہ اقبال آج کے مسلم نوجوان کو باور کرانا چاہتے ہیںکہ تمہارا آدرش، تمہارا آئیڈیل، تمہاری خواہشات اور تمہاری ترجیحات کا رخ غلط سمت میں ہے، اسی روش پر اگر تم گامزن رہے تو تمہیں رفعت و سرفرازی کی منزل کبھی نہیں مل سکتی، اگر اپنے آبائواجداد کی علمی وراثت اور دنیا میں مقامِ افتخار کو پانا ہے تو اپنی آرزوئیں بدلنی ہوں گی، اپنی ترجیحات کا قبلہ درست کرنا ہو گا، فطرت کے قوانین اَٹل ہیں اور وہ کسی کے لئے بدلتے نہیں، بدلنا تمہیں خود ہوگا، چنانچہ وہ کہتے ہیں ؎ 
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved