میں ان صحافیوں میں شامل ہوں‘ جنہیں عبدالستار ایدھی اور ان کی بیگم بلقیس سے ‘ اس وقت انٹرویوکرنے کا موقع ملا‘ جب وہ اپنے چھوٹے سے گھر میں ایک امدادی مرکز چلایا کرتے تھے۔ یہ غالباً 1965ء کا سال تھا۔ گلی میں گاڑی تو کیا‘ رکشہ گزرنے کی بھی گنجائش نہیں تھی۔ صرف سائیکل یا موٹر سائیکل گزارے جا سکتے تھے۔ مجھے اس گلی میں کافی دور پیدل چل کر‘ ایدھی صاحب کا گھر ڈھونڈنا پڑا۔ یہ انٹرویو ''اخبارخواتین‘‘ میں شائع ہوا تھا۔حالیہ ڈاکے کے بعد‘ٹی وی پر جب ان کا گھر دکھایا جا رہا تھا‘ تو مجھے ننگے فرش اور شکستہ فرنیچروالا وہی گھر لگا‘ جہاں میں49سال پہلے ان کا انٹرویو کرنے گیا تھا۔ انٹرویو کرتے وقت میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک دن میں‘ ایدھی صاحب اور ان کی بیگم کو اس ڈاکے کی تفصیلات بتاتے ہوئے دیکھوں گا۔ ان کے چھوٹے سے گھر پہ آٹھ مسلح ڈاکو حملہ آور ہوئے۔ تین باہر گلی میں کھڑے ہو گئے اور پانچ نے اندر جا کر‘ خواتین کو دھمکایا اور ان سے چابیاں مانگیں۔ بتایا گیا کہ چابیاں بیگم کے پاس ہوتی ہیں اور وہ باہر گئی ہوئی ہیں۔ اس پرواحد نقاب پوش ملزم نے‘ فون پر کسی سے ہدایات لیںاور پھر دو الماریوں کے تالے توڑے۔ تقریباً 5کلوگرام سونا اور کروڑوں روپے کے نقد ڈالر لوٹ کر فرار ہو گئے۔ایدھی صاحب کے ترجمان نے بتایا کہ لوٹا جانے والا سونا عموماً خواتین‘ ان کے پاس محفوظ رکھواتی ہیں۔ مجھے اندازہ نہیں کہ کتنے زیور لوٹے گئے؟ لیکن کروڑوں کے تو وہ بہرحال تھے۔ یہ بڑے ہی بدنصیب لوگ تھے‘ جنہوں نے یتیموں‘ بیماروں‘ معذوروں اور لاوارث بچوں کی مدد میں کام آنے والا روپیہ لوٹا۔ ظاہر ہے‘ ڈاکہ زنی کرنے والے خود بھی کبھی نہ کبھی پولیس مقابلے میں گولیاں کھا کر‘ لاوارث مریں گے اور وہی ایدھی‘ جسے وہ لوٹ کر گئے ہیں‘ انہیں غسل دے کر‘ کفن پہنائے گا اور پھر شایدان کی تدفین کا بندوبست بھی اسی بزرگ کے ہاتھوں ہو۔
کراچی جرائم پیشہ لوگوں اور دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ وہاں روز رینجرز‘ پولیس اور ٹارگٹ کلرز کے درمیان مقابلے ہوتے رہتے ہیں اور عموماً سڑکوں پر جو لاشیں گرتی ہیں‘ انہیں اٹھانے‘ کفنانے اور اکثراوقات دفنانے کا کام‘ اسی بزرگ ایدھی کی ایمبولینسیں کرتی ہیں۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ پولیس اور ڈاکوئوں کے درمیان دونوں طرف سے فائرنگ ہو رہی ہے۔ ایدھی کی ایمبولینس لاشیں اٹھانے پہنچتی ہے‘ تو دونوں طرف کی فائرنگ بند ہو جاتی ہے۔ ایمبولینس ہلاک شدگان کو اٹھا کر نکلتی ہے‘ تو دوبارہ فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔ جس شخصیت کا اتنا احترام کیا جاتا ہو‘ گھر جا کر اسے لوٹنے کا گناہ کبیرہ‘ درندہ صفت لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ کاش! انہیں کوئی بتا سکتا کہ انہوں نے کس بدنصیب کے حصے کی دوائوں کی قیمت لوٹی ہے؟ کس کا کفن کھینچا ہے؟ کس یتیم بچی کی شادی کا زیور اڑایا ہے؟ کس لاوارث بچے کا کفن چھینا ہے؟ کاش! کوئی ان ڈاکوئوں کو اپنے جرم کی سنگینی کا احساس دلا سکے؟ کاش! کوئی انہیں بتا سکے کہ انہوں نے کس عظیم شخصیت کے گھر ڈاکہ ڈالا ہے؟
عبدالستار ایدھی وہ فرشتہ صفت انسان ہے‘ جس نے 19سال کی عمر میں فلاحی کام شروع کر دیئے تھے اور ان کاموں کے لئے‘ جب ان کے اپنے پاس پیسہ نہیں ہوتا تھا‘ تو وہ سڑکوں پر کھڑے ہو کر بھیک مانگتے اور ضرورت مندوں کی مددکرتے۔ آج بھی پورے پاکستان میں ان کی سینکڑوں ڈسپنسریاں قائم ہیں‘ جہاں غریبوں کی مفت مدد کی جاتی ہے۔ عبدالستار ایدھی وہ انسان ہیں‘ جنہوں نے لاوارث بچوں کو کوڑے کے ڈھیروں سے اٹھا کر‘ خود پالاپوسا اور ان کی زندگیاں بنائیں۔ جنرل ضیاالحق کے زمانے کا ذکر ہے کہ صدر کراچی کی ایک جامعہ مسجد کی سیڑھیوں پر کسی غریب یا ناجائز بچے کی ماں ‘ نومولود بچہ چھوڑ کر چلی گئی۔ فجر کا وقت تھا۔ جب لوگ نماز پڑھ کر باہر آئے‘ تو انہوں نے ایک لاوارث بچے کو سیڑھیوں پر پڑے دیکھا۔مسجد کے مولوی صاحب کو بلایا گیا‘ تو موصوف نے فتویٰ دیا کہ ''ضرور یہ بچہ حرامی ہو گا۔ اسے سنگسار کر دینا چاہیے۔‘‘ نمازی ابھی پس وپیش کر رہے تھے کہ ایدھی صاحب وہاں پہنچ گئے اور مولوی صاحب سے بحث شروع کر دی کہ وہ اس معصوم بچے کو سنگسار کرنے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں جبکہ یہ خود کوئی گناہ کرنے کے قابل ہی نہیں ہے؟ اس واقعہ کے بعد ایدھی صاحب نے اپنی فائونڈیشن کے فرائض میں‘ یہ کام شامل کر دیا کہ جو بھی لاوارث بچے کہیں سے ملیں گے‘ ان کی پرورش اور دیکھ بھال کا کام ایدھی فائونڈیشن کیا کرے گی۔ اب تک وہ 20ہزار لاوارث بچوں کو پال پوس کے بڑا کر چکے ہیں۔ 50ہزار یتیم بچے بچیوں کی پرورش کی ہے۔ 40ہزار خواتین کو تربیت دے کر‘ نرسیں بنایا اور وہ انسانیت کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہری اور دیہی علاقوں میں 330 ویلفیئر سنٹر چلائے جا رہے ہیں‘ جو دھتکاری ہوئی خواتین اور بچوں کو رہائش اور خوراک فراہم کرتے ہیں۔یہ عبدالستار ایدھی ہیں‘ جنہوں نے غریبوں‘ یتیموں اور معذوروں کے لئے یورپ میں شہر شہر گھوم کر خیرات مانگی اور پیسہ پاکستان میں لا کرحاجت مندوں پر خرچ کیا۔ غریبوں کی ضروریات پوری کرنے کی خاطر بھیک مانگتے مانگتے ‘جب وہ لبنان میں داخل ہوئے‘ تو انہیں اسرائیلی فوجیوں نے گرفتار کر لیا۔ ایک بار کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں انہیں 16گھنٹے زیرتفتیش رکھا گیا اور نیویارک کے جے ۔ایف۔کینیڈی ایئرپورٹ پر ان سے تفتیش کی گئی اور جب وہ گھومتے گھامتے غزہ میں داخل ہونے لگے‘ تو مصری حکام نے انہیں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ آج بھی جبکہ وہ اربوں روپے کی فائونڈیشن چلا رہے ہیں‘ پاکستانیوں پر جب کوئی مصیبت ٹوٹتی ہے‘ تو وہ بھیک مانگنے چل کھڑے ہوتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی نے انسانی خدمت کی مثالیں یاد کرتے ہوئے برطانوی اخبار ''ڈیلی ٹیلیگراف‘‘ کے نمائندے کو بتایا کہ سندھ میں غریبوں کے لئے‘ ان کی بے شمار ایمبولینسیں مفت چلتی ہیں۔ وہ لاوارثوں کی لاشیں خود اٹھاتے رہے ہیں اور اب ان کے سٹاف کے لوگ یہی ڈیوٹی دیتے ہیں۔ ایدھی صاحب نے انہیں سکھا رکھا ہے کہ مردہ شخص کسی بھی حالت میں ہو‘ اس سے نفرت نہیں کرنی چاہیے۔ ہم وہ لاشیں اٹھاتے ہیں‘ جن کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جب تک میں چلنے پھرنے کے قابل تھا‘ میں نے ملبے کے نیچے دبے ہوئے انسانوں کو اپنے ہاتھوں سے نکالا۔ دریائوں میں تیرتی لاشیں نکال کر دفنائیں۔ کنوئوں کے اندر ہلاک ہونے والوں کو باہر نکالا۔ کوئی بھی لاش‘ کسی بھی حالت میں ملی‘ میں نے اسے نہلادھلا کرکفن پہنایا اور ہاتھوں سے دفنایا۔ عبدالستار ایدھی وہ انسان ہے‘ جو اپنی بیٹی کی شادی میں اس لئے شریک نہ ہو سکا کہ وہ بیماروں کی خدمت میں مصروف تھا۔ کیسے بدقسمت ہیں وہ لوگ؟ جنہوں نے اس فرشتے کے گھر ڈاکہ مارا۔
ڈاکے کے بعد انہوں نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ''خدا کی دنیا میں لوٹنے والے ہیں‘ تو دینے والے بھی موجود ہیں۔‘‘ زیادہ دیر نہیں لگی ‘ ایک ہفتہ پورا ہونے سے پہلے پہلے ملک ریاض حسین کے نمائندے 5کروڑ کا چیک لے کر پہنچ گئے۔گویا اللہ تعالیٰ نے ان غریبوں‘ معذوروں اور بیماروں کا جو کچھ لٹا تھا‘ قریب قریب وہ سب کا سب ایدھی صاحب کو پہنچا دیا۔ دولت مند تو پاکستان میں بہت ہیں‘ لیکن جس طرح ملک ریاض حسین‘ دکھی انسانیت کی بڑھ چڑھ کر خدمت کرتے ہیں‘ وہ بھی ایک مثال ہے۔ پاکستان میں ان کے درجنوں دسترخوان لگے ہوئے ہیں‘ جہاں غریبی اور افلاس کے مارے لوگ‘ کسی بھی وقت جا کر کھانا کھا سکتے ہیں۔ کہیں زلزلہ‘ سیلاب یا کوئی آفت آئے‘ تو ملک ریاض حسین فوراً ان کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ اس کام میں وہ دولت کی پروا نہیں کرتے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ مصیبت زدگان کے لئے‘ ان کی طرف سے پچاس پچاس کروڑ تک کی رقم بھی دی گئی۔ چور ڈاکو اجتماعی طور پر‘ جتنی رقوم لوٹتے ہیں‘ اکیلے ملک ریاض حسین اس سے زیادہ رقوم دیگر ضرورت مندوں کو پہنچا دیتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی کے گھر ڈاکے کی خبر پڑھ کے‘ میں نے توجہ دلائی تھی کہ ڈاکوئوں نے عبدالستارایدھی کے گھر سے غریبوں کا سامان لوٹا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک سے ایک بڑا آدمی‘ کسی نہ کسی انداز میں غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے اور ان کے اربوں روپے بیرونی بنکوں میں پڑے ہیں۔ ایدھی کو لوٹنے والا ایک ڈاکو تو پکڑا گیا۔ ہو سکتا ہے دوسرے بھی قابو میں آ جائیں‘ لیکن غریبوں کے اربوں روپے لوٹنے والے کیوں دندناتے پھر رہے ہیں؟ کبھی ان کا بھی یوم حساب آئے گا؟