تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     26-10-2014

مزاح کے مغلِ اعظم

یوسفی صاحب کی پانچویں کتاب '' شامِ شعریاراں ‘‘ان دنوں زیر مطالعہ ہے ۔اس سے قبل ''چراغ تلے ‘‘ ، ''خاکم بدہن‘‘ ، ''زرگزشت‘‘ اور ''آب گُم ‘‘ بھی اپنی درسی کتب اور 'شؤر شاٹ‘امتحانی مدد گار ٹیسٹ پیپروں سے زیادہ دھیان سے پڑھی تھیں ۔ پریس کلب کے سیکڑوں بلکہ ہزاروں معزز ممبران کی طرح میں بھی وہ خوش نصیب صحافی ہوں جس کا نام پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود محمد فاضل قرارپاتا ہے ۔ سینئر صحافی اس نوع کی مر دم شماری میں شامل نہیں کیے جارہے لہٰذا اس حقیرکو توہین صحافت اور آزادی ِاظہارکا ایشو نہ بنایاجائے۔ جیسے لانگ مارچ، جلسوں ، دھرنوں اورسیاسی افراتفری کو جمہوریت کا حُسن قرار دے دیا گیاہے،اسی طرح تحقیق و تحریر سے لا تعلقی، معروضیت سے لاعلمی، غیرسنجید گی کی انتہا اور ہیجان انگیزی کو صحافت کے حسن سے بڑھ کر گلیمر کا درجہ مل گیا ہے۔ایسا ماحول‘ جس میں پلاسٹک کے بنے درجہ دوم کے لیڈروں میں قائداعظم، گاندھی، کارل مارکس، مائوزے تنگ اور نیلسن منڈیلا جیسے قائدین کی صفات پیدا کی جارہی ہوں ، دانشورانہ فضائی آلودگی پھیلائی جارہی ہو، وہاں معاشی، سیاسی، نظریاتی، ثقافتی اور صحافتی تعفن کے باعث دم گھٹنے لگتا ہے ۔ جمالیاتی ، علمی اور فکری 'جان لیوا‘ موسموں میں یوسفی صاحب کی کتاب کا میسر آجانا کسی روحانی بائی پاس آپریشن سے کم نہیں جس سے انسان کو دوسری زندگی نصیب ہوجاتی ہے۔
بچپن سے عادت ہے کہ پسندیدہ کتاب کو پڑھتے ہوئے پنسل یا بال پوائنٹ سے اہم نکات اور سطورکو انڈر لائن کرتا جاتاہوں۔ کتاب پڑھتے ہوئے محسوس کیا کہ جو کچھ پڑھ رہا ہوں انڈر لائن کررہاہوں ۔ یوسفی صاحب کی پانچویں کتا ب کا لفظ لفظ ، جملہ ، پیراگراف، صفحہ ، زیر زبر پیش بلکہ تمام حروف تہجی اس طرح بولتے اور متحرک دکھائی دیتے ہیں جیسے لکھنوکے کالکا بند ادین گھرانے کے پنڈت برجو مہاراج تال تال اور ماترہ ماترہ ( تال کی اکائی ) نرت کرتے ہیں۔اسلامی جمہوریہ میں ایسے نابغہ روزگار بہت کم دیکھے ہیں جو یوسفی صاحب کی طرح لفظی رعایت ، تشبیہ ، استعارہ اورکوئی اصطلاح استعمال کریں تو اسے پاتال سے آسمان تک نہ صرف جانتے ہوں بلکہ اس کے ادبی مصرف سے ایک نئی نویلی جمالیاتی کتھا لکھ دیں جو مزاح کی دنیا کی گرنتھ قرار پائے۔ ایک کہنہ مشق نے لکھا کہ ''استا دنصرت فتح علی خاں کی مدھر آواز نے سماں باندھ دیا ‘‘۔
موسیقی سے آشنا لوگ جانتے ہیں کہ استاد مرحوم کی آواز مدھر نہیں تھی ۔استاد نصرت مرحوم نے مجھے خود کہا تھاکہ ان کے والد استاد فتح علی خاں کا خیال تھاکہ ان کی آواز گانے کے لئے غیر موزوں ہے، لیکن جسے اوپر والا عطا کر رہا ہو اس کا مینڈیٹ چوری کیا جاسکتاہے نہ اسے پنکچر لگایا جاسکتاہے ، اس لئے استاد نصرت خاں نے موسیقی کے جہان پر مقدر کا سکندر بن کر راج کیا۔ یوسفی صاحب کا لکھا جملہ ہوبہو تو یاد نہیں لیکن اس کا مفہوم یہ ہے کہ ''بچہ رونا شروع ہی انترے سے کرتاہے‘‘۔ اکثر فلمی گیتوں کی استھائیاں (مکھڑے )نچلے سُروں میں کمپوژ کی جاتی ہیں جبکہ استھائی کے بعد انترہ اونچے سُروں میں ترتیب دیے جاتے ہیں۔ ایک مزاح نگار نے یوسفی صاحب کے اس خیال کو مستعار لیتے ہوئے لکھا کہ '' ملکہ ترنم سراپا موسیقی ہیں ، جب روتی ہیں تو آنسو نہیں انترے بہتے ہیں‘‘۔ انترے کا تعلق براہ راست صوت (آواز ) سے ہے جبکہ آنسو مائع ہوتے ہیں ۔ یوسفی صاحب اور دوسروں میں یہی فرق ہے کہ وہ موسیقی سے لے کر مائیکرو سافٹ ٹیکنالوجی تک پھیلی ہوئی سائنسز تک علوم وفنون کے'استاد آئن سٹائن خاں‘ ہیں۔
یوسفی صاحب کی آمد ، آورد پر اور آورد ، آمد پر سبقت لے جاتی دکھائی دیتی ہے۔ یوں لگتاہے کہ ادبی ظرافت کے کورواور پانڈو ٹیمیں دونوں ان کے لطیف قلم کی غلام ہیں۔ کبھی آمد بازی لے اورکبھی آورد سبقت لے جاتی ہے۔ شاعری میں تو جملہ مالکانہ حقوق غالب سے ہی منسوب ہیں مگر مزاح کے سلسلہ میں ہم اس کا استعمال یوں کرسکتے ہیںکہ ''یوسفی صریر خامہ نوائے سروش ہے‘‘۔ نوائے سروش کی جگہ نوائے ظریف بوجوہ تحریر نہیں کیا کیونکہ شہنشاہ ظرافت وہ خودکہلانا پسند نہیں کرتے۔
ادب میں شہنشاہیت کے تصور سے متعلق یوسفی صاحب کا نقطہ اعتراض آپ خود پڑھ لیں: ''اور تو اور، ایک مزاح نگارکو ( نام کیا لوںکوئی اللہ کا بندہ ہوگا) ایک ادبی جلسے میں ''شہنشاہ ِطنز ومزاح ‘‘ کے بے جوڑ لقب سے نوازا گیا! مداحین ومحبان ِ مزاح نگار یہ بھول گئے کہ مزاح نگار بے مثل Falstaff توہوسکتا ہے مگر ہم اس کے سر پرگھنٹیوں والی fool's -capکے بجائے King Henry IVکا تاج شہی نہیں رکھ سکتے ! ‘‘
اور دنیائے موسیقی کے شہنشاہوں اور ملکائوں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:'' ادھر دنیائے موسیقی میں ہم کسی کو شہنشاہ ِغزل کا خطاب دیتے ہیں اور کسی کو ملکہ موسیقی کا ! ایک سنگیت سامراٹ یعنی گائیکوں کے گائیکواڑ، مہاراجوں کے مہاراج دِھراج بھی ہوگزرے ہیں ۔ نظربددُور، ہم ایک رعایا پرور ملکہ غزل بھی رکھتے ہیں اور اللہ سدا بہار 
ملکہ ترنم کے سائے کو ہم بزرگوں کے سر پر ان کی رہتی جوانی تک قائم رکھے کہ وہ ہرسال دُکھی انسانیت کے لیے ایک اسپتال قائم کرنے کا اعلان کرکے ہم جیسے دکھیاروں کی خواہش ِعلالت کو مزید ایک سال تک مشتعل رکھتی ہیں‘‘۔ درج بالامضمون نما تقریر یوسفی صاحب نے 3مارچ 1988ء کو پاکستان سوسائٹی آف فزیشنز کے سالانہ ڈنر میں بحیثیت مہمان ِخصوصی پڑھی تھی ۔ مہمانِ خصوصی بننے اورصدارت فرمانے سے متعلق لکھتے ہیں: '' مجھے اس کا احساس اور اندازہ ہے کہ مشاعرے سے پہلے لمبا خطبہ صدارت سامعین اور شعرائے کرام کو اتنا ہی گراں گزرتا ہے جتنا کہ بے صبرے دولہاکو قاضی کا طول طویل خطبہ نکاح! پانچ سال ہونے کوآئے ، میں نے اعلان کیاتھاکہ میں ادبی اعتکاف میں ہوں۔ صدارت سے معذور سمجھا جائوں ۔کتابو ں کی رونمائی میں مضمون پڑھنے کا نہ حوصلہ اور سلیقہ نہ استعداد ، آج اعتکاف شکنی کی بارے میں بس اتنا ہی عرض کرسکتا ہوں کہ ع
''لایا ہے ترا شوق مجھے حجرے سے باہر‘‘ 
یوسفی صاحب لکھتے ہیں کہ جوانی میں جب وہ آگرہ میں تعلیم حاصل کررہے تھے ، قائد اعظم ؒ ایک فوجداری مقدمہ کے سلسلہ میں ممبئی سے آگرہ آئے۔ یہ کیس ایک ہندو کیسری چند کا تھا جس کے لئے لیاقت علی خان نے سفارش کی تھی ۔ قائد اعظم کی فیس پانچ ہزار یومیہ تھی ۔ یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ جناحؒ 31 دن تک پیش ہوئے، اس حساب سے ایک لاکھ 35 ہزار روپے کی خطیر رقم مسلم لیگ کے فنڈز میں چندے کے طور پر جمع کرادی گئی ۔ آج آسمان ِسیاست پر چمکنے والے ستاروں اور ارض جمہوریت میں اُگے بلکہ دھنسے برگد وں کی جڑوں کو پاتال تک کھود ڈالیں کہیں سے کوئی ایسانہ ملے گا جو اپنی محنت کی کمائی عوام پر خرچ کرے ۔ الٹا یتیم ، مسکین اور دکھیارے عوام کی ہڈیوں سے نچوڑے ٹیکسوں کی کمائی سے حاتم طائی اور بل گیٹس بننے کے شوقین ہمارے پلے پڑے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف آپ نے فرنگیوں اور ہندوئوں کی ''اوئے توئے ‘‘ کئے بغیر پاکستان حاصل کیا‘‘ ۔ یوسفی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیسل ہوٹل آگرہ صبح ساڑھے 8بجے مسلمان سٹوڈنٹس کا وفد ملنے آگیاجسے دیکھتے ہوئے قائد ؒ نے ناخوش ہوتے ہوئے، کہا "What are you doing here at this time of the day? You should be in your classes.You shouldn't waste your time in this manner " سٹوڈنٹس نے عرض کیاکہ ہم آپ کے دیدار اور پندونصائح سے مستفیض ہونے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ جواب قابل غور ہے:"You can come in the afternoon when your classes are over . You shouldn't play truant" 
دوسری جانب ہمارے آج کے لیڈروں نے پوری یوتھ کو Truant( بھگوڑا ) بنانے کا ہول سیل ٹھیکہ لے رکھارہے۔ آج کے قائدین جلسے ، جلوسوں اور دھرنوں میں قوم کا قیمتی وقت ضائع کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کرنے پر بضد ہیں۔ یوسفی صاحب نے قائد اعظم ؒ سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:''شخصیت کے جو اوصاف اور چہرے کے جو ایکسپریشن میں اپنے پڑھنے والوںکو دکھانا چاہتا ہوں،اس کے لیے الفاظ نہیں مل رہے۔جی چاہتا ہے بس تصویر دکھادوں‘‘۔ یوسفی صاحب قادر الکلام ادیب ہیں ہمیں جن پر ناز ہے، وہ مزاح کے جہان کے مغل اعظم ہیں،ان کے دربارِظرافت میں راگ کانڑا درباری۔ (اکبر بادشاہ کا پسندیدہ راگ) اگلی حاضری میں پیش کروں گا ! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved