ابھی جب یہ کالم لکھ رہا تھا‘ تو خبر آئی کہ تربت سے 6 مزدوروں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ اس سے صرف چند دن پہلے دہشت گردوں نے رحیم یار خان اور مظفر گڑھ کے سیلاب سے تباہ حال علا قوں سے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے رزق کی تلاش میں بلوچستان پہنچنے والے 8 محنت کشوں کے ہاتھ پائوں رسیوں سے بری طرح جکڑنے کے بعد پہلے تو ان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر انہیں کلاشنکوفوں کے برسٹ مار کر شہید کر دیا۔ ان محنت کشوں کو حب کے ایک پولٹری فارم سے اغوا کیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد پاکستان میں کھمبیوں کی طرح اگی ہوئی غیر سرکاری تنظیموں میں سے کسی کی جانب سے بھی اس ظلم اور بربریت کے خلاف ایک ہلکی سی آواز تک سنائی نہ دی کیونکہ بیرونی فنڈز سے پنپنے والی ایسی بعض تنظیموں کا ہدف صرف اور صرف ریاست کے اہم ترین ادارے ہوتے ہیں۔ کوئی ایک ہفتہ قبل کوئٹہ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک حجام اوراس کے دو ساتھیوں کو پاکستان کا نام لینے کے جرم میں گولیوں سے اڑا دیا گیا اور مسنگ پرسن کے نام پر کیمپ لگانے اور فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کی زبانیں چپ رہیں۔ کیا پنجاب سے تعلق رکھنے والے یہ غریب ترین مزدور اپنے لواحقین کیلئے ہمیشہ کیلئے لاپتہ نہیں کر دیئے گئے؟کیا انہیں مسنگ پرسن میں شمار نہیں کیا جا سکتا؟ وہ جو مسنگ پرسن کے نام پر ملک کے اہم اداروں سے جواب طلبیاں کرتے ہیں کیا انہیں یہ قتل نظر نہیں آئے؟
26 ما رچ 2006ء کو بلوچستان فرنٹیئر کانسٹیبلری نے بتایا کہ بلوچستان میں باغیوں کے خلاف آپریشن میں اب تک اس کے 20جوان شہید ہوچکے ہیں۔ اس پر بلوچستان کے ایک قوم پرست نے میڈیا کو بتایا کہ ایف سی اہل کار جھوٹ بول رہے ہیں‘ ہم نے آج 26 مارچ کو صرف ایک دن میں دو مختلف گوریلا حملوں میں ایف سی کے 50 اہل کاروں کو ہلاک کیا ہے جبکہ اپنے مختلف آپریشنز میں اب تک بلوچستان لبریشن آرمی150سے زائد ایف سی اہل کاروں کا صفایا کر چکی ہے اور ان حملوں میں بگٹی قبیلے کے صرف دو جنگجو ہلاک ہوئے۔ یہ اعتراف‘ جس کے مکمل ثبوت موجود ہیں‘ بلوچ لیڈر نے ایک انگریزی ماہنامہ سے 26 مارچ2006ء کوگفتگو کرتے ہوئے کیا۔ دوران انٹرویو اسی بلوچ لیڈر نے بڑے فخر سے کہا کہ فوج ہمارے ساتھ جھڑپوں میں اب تک ہلاک ہونے والے اپنے اہل کار وں کی تعداد غلط بتا تی ہے‘ ہمارے پاس ان پر کئے گئے ہر حملے کی مکمل تفصیلات موجود ہیں‘ جو ہم میڈیا کو دینے کے لیے تیار ہیں۔ یہ تسلیم کیے جانے کے باوجود کہ بگٹی قبیلے کے صرف2 اور ایف سی کے150 لوگ مار دیے گئے ہیں‘ اس وقت کی جنرل مشرف حکومت چپ رہی اور بلوچستان میں تخریب کاری کی کارروائیاں جاری رہیں۔ کیا شہید کئے گئے فوج اور ایف سی کے یہ 150 جوان لاوارث تھے؟۔ 15فروری2006ء کو حب انڈسٹریل اسٹیٹ سے حکومت پاکستان کے مہمان تین چینی انجینئرز کو اغوا کرنے کے بعد قتل کیا گیا۔ اکبر بگٹی زندہ تھے۔ تین چینی انجینئرز کے قتل کے اگلے دن پیر غائب کے تفریحی مقام پر مختلف جگہوں سے آئے ہوئے سو سے زائد لوگ پک نک منا رہے تھے کہ اچانک تین جیپوں میں بیس کے قریب مسلح دہشت گرد وہاں آئے اور ان پکنک منانے والوں میں سے تین پنجابیوں کو علیحدہ کر نے کے بعد ان پر اس قدر تشدد کیا کہ ان کی چیخوں سے وہاں موجود عورتیں اور بچے بے ہوش ہو گئے۔ تینوں پنجابی تڑپتے، چیختے اور ایڑیاں رگڑتے ہوئے دم توڑ گئے۔ اس وقت بھی جنرل مشرف سمیت حکومت پاکستان خاموش رہی۔ جنرل مشرف کے خلاف اکبر بگٹی کو قتل کرنے کے مقدمے کی بات کرنے والوں میں سے کوئی یہ نہیں بتاتا کہ بگٹی لشکر کی طرف سے صرف دو دنوں میں قتل
کئے گئے پنجاب اور خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایف سی کے 150 اہل کار وں کو لاوارث اور قربانی کے بکرے سمجھ لیا جائے؟ ایک سو پچاس فوجیوں کو قتل کرنے اور کمانڈنٹ ایف سی کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کر کے انہیں زخمی کرنے والوں کے سامنے اس وقت کا سپہ سالار کیا گیدڑ کی طرح دبک کر کہیں چھپ جاتا؟ کل سوات اور آج وزیرستان اور کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے فوج ، ایف سی اور پولیس کے جوان شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔ جس طرح ان افسروں اور جوانوں کو لگنے والے ہر زخم پر سوات میں جنرل کیانی اور آج وزیرستان میں جنرل راحیل کا دل تڑپتا ہے با لکل اسی طرح جب بلوچستان میں پاک فوج کے خلاف کارروائیاں ہو رہی تھیں تو جنرل مشرف کا دل بھی تڑپا تھا‘ ان کی بگٹی سے ذاتی دشمنی تو نہیں تھی؟ اور 23 اگست2006ء کو جب پاک فوج کے 2 ہیلی کاپٹر بھمبور کی طرف پرواز کر رہے تھے تو نیچے سے ان پر میزائل فائر کئے گئے۔ ایک ہیلی کاپٹر اپنے عملے سمیت تباہ ہو گیا جبکہ دوسرے ہیلی کاپٹر کو شدید نقصان پہنچا۔ یہ اطلاع ملنے پر فوج کا ایک اور ہیلی کاپٹر اس علاقے میں ریکی کیلئے بھیجا گیا۔ اس پر بھی جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی جس پراسے بھی سخت نقصان پہنچا اور وہ عملے سمیت
بمشکل اپنی بیس پر واپس پہنچا۔ 24 اگست کوز مینی فوج کا ایک دستہ اس علاقے کو دہشت گردوں سے کلیئر کرنے کے لیے بھیجا گیا تو ان پر تین اطراف سے راکٹوں، مشین گنوں اور مارٹر گولوں کی بارش کر دی گئی‘ جس سے دو جوان شہید اور تین شدید زخمی ہو گئے۔ ایسا لگتا تھا کہ مقابلہ میں جدید اسلحہ سے مسلح فوج کی کوئی پوری کمپنی ہے۔ اس پر ایس ایس جی کے لوگ بھیجے گئے تو ان پر بھی شدید فائرنگ کی گئی جس سے ایس ایس جی کے چار مایہ ناز افسر شہید ہو گئے۔ آج کچھ لوگ بگٹی کے قتل کا مقدمہ مشرف کے خلاف درج کروا کر خوش ہو رہے ہیں۔ وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ بلوچستان میں دو دنوں میں پاکستان کے 150محافظوں کو کیوں اور کس جرم میں شہید کیا گیا تھا؟
بلوچستان میں آئے روزایک یا دو پنجابیوں کو ان کے گھروں، دکانوں‘ گیراجوں میں گھس کر قتل کیا جا رہا ہے اور بعض لوگوں کو یہ بے گناہ نہیں صرف اکبر بگٹی ہی کیوں یاد آتا ہے؟ ان بے گناہ پنجابیوں کا خون نظرکیوں نہیں آتا؟ اپنی فوج کے افسروں اور جوانوں کی ہلاکتوں پر چپ رہنے والا۔۔۔ ہاتھ باندھ کر بیٹھنے والا۔۔۔دہشتگردوں کے خوف سے گیدڑ کی طرح دبک جانے والا۔۔۔۔ بھیڑ بکریوں کے کسی ریوڑ کا چرواہا تو ہو سکتا ہے آرمی چیف نہیں۔۔ ۔۔۔ آپ فوج کے سابق سپہ سالار پر مقدمہ ضرور چلایئے لیکن یہ امر بھی یاد رکھیں کہ سیا ست اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتی ان میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔