تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     27-10-2014

کیلاش ستیارتھی کا انتخاب

نوبیل انعام کیلئے پاکستان سے ملالہ یوسفزئی کے ساتھ بھارت کی جس شخصیت کیلاش ستیارتھی کو منتخب کیا گیا ہے‘ وہ سب کیلئے حیران کن ہے۔ اس انعام کیلئے ان کے نام کو منتخب کرنا بہت سوں کیلئے ایک اچنبھے سے کم نہیں تھا‘ بلکہ بھارت میں اس کی 1980ء سے شروع کی جانے والی '' بچپن بچائو تحریک ‘‘ کے پس منظر کو قریب سے دیکھنے والے بھی حیرت زدہ ہو گئے تھے۔ بھارت کے بہت سے دانشور یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ انعام اور انتخاب ایسا ہی ہے جیسے کل تک نریندری مودی کے ویزے کیلئے امریکی سفارت خانے کے دروازے سختی سے بند تھے لیکن آج اس کے تلوے چاٹنے والے امریکی جگہ جگہ کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ کیلاش ستیارتھی کا بھی یہی مودی والا معاملہ ہے کہ کل تک وہ مذہبی تفریق اورمسلم دشمنی کی علامت تھا لیکن آج بنیاد پرستی کو نا قابل معافی جرم قرار دینے والوں کی نظر میں نوبیل انعام کا مستحق قرار پایا ہے۔ اب یہ بات تو وہی لوگ بہتر جانتے ہوں گے کہ کیلاش ستیارتھی کی وہ کون سی خدمات تھیں جن کی وجہ سے انہیں اس انعام کے قابل سمجھا گیا۔ ان کے ساتھ پاکستان کی جس شخصیت کو نوبیل انعام کیلئے منتخب کیا گیا‘ اسے دنیا گل مکئی اور ملالہ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ اگر ملالہ کی پوری زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہی نظر آئے گا کہ اس نے کبھی فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا نہ تو کوئی پیغام دیا اور نہ ہی معاشرے میں کسی بھی قوم اور مذہب سے تعلق رکھنے والوں کا استحصال کیا‘ جبکہ کیلاش ستیارتھی کی شہرت کا تو آغاز ہی مذہبی بنیاد پرستی اور مذہب کے نام پر دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے استحصال سے ہوا۔ 
کیلاش ستیارتھی نے1980ء میں چائلڈ لیبر کے خلاف '' بچپن بچائو اندولن‘‘ کے نام سے اپنی جس تحریک کا آغاز کیا‘ اس کی سب سے بڑھ چڑھ کر جن تنظیموں اور گروہوں نے معاونت کی اور اس تحریک کو عوام کی نظروں میں لانے کیلئے میڈیا کا استعمال کیا‘ ان میں سب سے پہلا اور اہم کردار بھارت کی انتہا پسند تنظیم سنگھ پریوار کا تھا‘ جس کے بارے میں آج تک بھارت کا ہر سرکاری ریکارڈ اور اخبار گواہ ہے کہ مسلم دشمنی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ سنگھ پریوار کی قیا دت نے کیلاش ستیارتھی کو استعمال کرتے ہوئے سب سے پہلے مسلمانوں کے قالین بننے والے چھوٹے بڑے اداروں، ہینڈ پاور لومز اور ڈائمنڈ اور کانسی کی فیکٹریوں کو بند کرا دیا‘ جن سے ہزاروں مسلمانوں کو روزگار کے مواقع مل رہے تھے۔ کیلاش نے اپنے اندولن کا آغاز مسلمانوں کی ان گھریلو اور چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں کو بند کرانے سے کیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کے عرصہ دراز سے کام کرنے والے یونٹ بند ہو گئے اور ساتھ ہی بھارت کے ہندوسیٹھوں نے ان صنعتوں میں کام آنے والی جدید قسم کی مشینیں منگوا کر ان مصنوعات پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی۔ 
بھارت میں رہنے والے سب لوگ جانتے ہیں کہ وہاں بہت سے علاقوں میں تقریباً ساٹھ فیصد مسلم گھرانے جو سونے اور چاندی کے زیورات، قالین اور کانسی اور پیتل کے برتن بنانے یا ہینڈ پاورلومز کا کام کرتے ہیں‘ اپنی اولاد کو بھی بچپن میں ہی اپنے ساتھ دکان پر بٹھا کر کام سکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے علا وہ غریب اور کم وسائل والے مسلم خاندانوں میں بھی یہ رواج ہے کہ اپنے بچوں کو کوئی نہ کوئی ہنر سکھانے کیلئے مختلف کاموں پر لگا دیتے ہیں کیونکہ بھارت میں سرکاری نوکریاں اقلیتوں کو ایک مخصوص کوٹے سے زیا دہ نہیں دی جا تیں۔مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس حد تک غریب ہے کہ ان کیلئے دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل ہے۔ اب یہ لوگ اپنے بچوں کو زیا دہ تعلیم بھی نہیں دلوا سکتے۔ ظاہر ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جتنے گھر والے کام کریں گے ان کیلئے گھر بار چلانا آسان ہوگا‘ اس لیے اگر وہ ہنر سیکھ رہے تھے تو یہ ان کی مجبوری تھی۔ اگر کیلاش ستیارتھی کی تحریک سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہوا ہے تو کیا اس نے پڑھے لکھے مسلمانوں کیلئے بھارت سرکار سے ملازمتیں دینے کیلئے اوپن میرٹ کا بندو بست کرایا تھا؟ ملالہ یوسف زئی کے ساتھ نوبیل انعام کیلئے کیلاش ستیارتھی کے انتخاب نے اس سارے عمل کی خوبصورتی اور دلکشی کو ایک طرح سے گہنا کر رکھ دیا ہے‘ اور اگر یہ کہا جائے تو قطعی غلط نہیں ہو گا کہ کیلاش ستیارتھی کی خدمات کسی دوسرے ایوارڈ کیلئے تو منا سب ہو سکتیں تھیں‘ نوبیل انعام کیلئے ہرگز نہیں۔ 
کون نہیں جانتا کہ بنا رس میں ہاتھ سے بنائے جانے والے بنارسی سوٹ دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے۔ آج بھی جب ساڑھی کا نام آتا ہے تو بنا رسی ساڑھی ہی زبان سے نکلتا ہے۔ پورا بھارت جانتا ہے کہ بنارس کی یہ صنعت جس پر مسلمان چھائے ہوئے تھے‘ اب مکمل طور پر ہندوئوں کے ہاتھوں میں ہے۔مرزا پور، بھادل اور بنارس میں قالین بنانے کے تمام یونٹ مسلمانوں کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے اور بھارت کی قالین کی صنعت بھی دنیا بھر میں ایک مقام رکھتی تھی اور ایران اور ترکی کے قالینوں سے بھی بنائی اور ستھرائی کے معیار میں برتر سمجھی جاتی تھی‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ بھارت کے مشرقی اتر پردیش کے حصے مرزا پور، بھادل اور بنارس کے قالینوں کا دنیا بھر میں ڈنکا بجتا تھا لیکن کیلاش ستیارتھی نے جب سنگھ پریوار اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے 
تعاون سے چائلڈ لیبر کے نام پر مہم چلائی تو ایک ایک کر کے یہ سب ختم ہوتے گئے ۔اور جیسا کے بعد میں ثابت ہو گیا‘ اس عمل میں کیلا ش کو مغرب کے ان ممالک کے میڈیا کا بھی بھرپور تعاون حاصل تھا جنہوں نے بعد میں اس خلا کو پورا کرنے کیلئے اپنے قدم جمائے۔ اس سلسلے میں یہ ثبوت سب کے سامنے ہے کہ جونہی بھارت کے ہاتھ سے تیار کیے جانے والے قالینوں کی صنعتیں بند ہو نا شروع ہوئیں تو سنگھ پریوار کے سرمایہ دار سیٹھوں کے تعاون سے بلجیم کے قالین پورے بھارت میں پھیل گئے اور ہر طرف بلجیم کے قالین اور دریاں نظر آنا شروع ہو گئیں۔بلکہ اس کے اثرات مقبوضہ کشمیر تک بھی جا پہنچے اور وہاں پر سینکڑوں سالوں سے کام کرنے والے قالینوں کے دستی یونٹ بڑی تعدادمیں بند ہو گئے۔اگر کیلاش ستیارتھی کی اس مہم سے مسلمانوں کے وسیع پیمانے پر ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو جہاں یونٹ بند ہوئے‘ وہاں ہزاروں کی تعداد میں کام کرنے والے ہنر مند بھی بے روزگار ہو گئے جس سے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی بد ترین مسائل کا شکارہو کر رہ گئی۔
مشرقی یو پی کے مسلمان اگر زبان کھولیں تو وہ بتا سکیں گے کہ کیلاش ستیارتھی اور اس کے ساتھیوں نے'' بچپن بچائو‘‘ تحریک کے نام پر کس طرح ان چھوٹے چھوٹے مسلمان صنعت کاروں اور دستکاروں کو بلیک میل کیا۔ پولیس اور جیل کا ریکارڈ بھی سب کے سامنے ہے کہ اس کا ایک انتہائی قریبی ساتھی بلیک میل کرتے ہوئے رقم ہتھیانے کے الزام میں گرفتار بھی ہوا تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved