تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     28-10-2014

ایم کیوایم بمقابلہ پیپلزپارٹی

میں نے خالد مقبول صدیقی سے ڈائریکٹ سوال کر ڈالا کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں کے سبب پیدا ہونے والا سیاسی بحران ٹل گیا یا خطرہ ابھی باقی ہے ؟ ایم کیوایم کے لیڈر نے اپنا تجزیہ پیش کیا جو کراچی اور سندھ میں حالیہ ہل چل کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کرتا ہے۔
کراچی جانا تو دفتری فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں ہوا، زیادہ وقت بھی روزنامہ ' دنیا‘ کے دفتر میں گزرا۔ کم و بیش پندرہ سولہ گھنٹے روزانہ۔ مگر کچھ وقت نکال کر کراچی پریس کلب میں صحافی دوستوں سے ملاقات کرلی اور ایم کیوایم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو میں عشائیہ کے بہانے خالد مقبول صدیقی ، امین الحق، احمد سلم صدیقی سے گپ شپ اور ڈاکٹر فاروق ستار ، عامر خان ، غازی صلاح الدین، ڈاکٹر نصرت، عبدالحفیظ سے علیک سلیک کا موقع بھی مل گیا۔
الطاف حسین سے پہلی بالمشافہ ملاقات 1986ء میں لاڑکانہ میں ہوئی جب پنجاب کے صحافی اور عوام ایم کیوایم اور اس کے قائد تحریک سے آشنا تھے نہ کراچی میں جنم لینے والے طوفان اور اس کے نتائج و عواقب سے کما حقہ واقف۔ آخری بار لاہور میں ملا جب وزیراعلیٰ پنجاب کے طورپر میاں نوازشریف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے سیاسی مخالفین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور غلام مصطفی جتوئی، اسفند یار ولی، الطاف حسین ، قاضی حسین احمد ، مولانا سمیع الحق اور دیگر رہنمائوں کے اعزاز میں باغ جناح کے اس کونے میں استقبالیہ دیاگیا جو سربراہان مملکت کی استقبالہ تقریبات کے لیے مختص ہے۔ 
یہ اس زمانے کی بات ہے جب لاہور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا، ہر سیاسی تحریک کا آغاز لاہور سے ہوتا، کراچی کامیابی میں اہم کردارادا کرتا اور اسلام آباد میں تبدیلی آکر رہتی۔ پاکستان کے دورے پر آنے والے غیر ملکی سربراہان اگرچہ اسلام آباد کے چکلالہ ایئرپورٹ پر اترتے مگر ان کا پرجوش عوامی استقبال زندہ دلان لاہور کرتے اور استقبالیہ باغ جناح کے فاطمہ جناح گارڈن میں دیا جاتا۔ عرصہ دراز سے اول تو سربراہان مملکت پاکستان کا رخ نہیں کرتے، آجائیں تو انہیں اسلام آباد جیسے بے مروت اور جذبات و احساسات سے عاری شہر کے بند کمروں میں ہونے والی رسمی اور نمائشی تقریبات بھگتا کر رخصت کردیاجاتا ہے۔
الطاف حسین بیرون ملک سدھار گئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی المناک موت کے بعد لاڑکانہ میں المرتضیٰ اورشریف خاندان کی جلاوطنی کے دوران ماڈل ٹائون کی اتفاق کالونی اور جاتی عمرا کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔ مگر الطاف بھائی کے پیروکاروں نے نائن زیرو کو آباد رکھا اور آج بھی پانچ مرلے کا وہ مکان زیارت گہہ '' اہل عزم و ہمت‘‘ ہے جس میں الطاف حسین جاگیردار اور سرمایہ دار، وزراء اعظم سے ملتے اور ان سے ایم کیوایم کے مطالبات منوا کر رخصت کرتے۔ ان دنوں ایم کیوایم ایک بار پھر سندھ کی حکمران پیپلزپارٹی سے نبرد آزما ہے۔ اس بار الطاف حسین کی طرف سے انتظامی بنیادوں پر سندھ میں نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی طرف سے ایم کیوایم کے قائد کو دی گئی دھمکی وجہ تنازع ہے۔ '' انکل الطاف اپنے نامعلوم افراد کو روکیں ورنہ میں آپ کا جینا حرام کردوں گا‘‘
نئے صوبوں کے قیام کے سلسلے میں صرف پیپلزپارٹی نہیں، اکثر سیاسی جماعتوں کا موقف حیران کن تضادات کا حامل ہے۔ پنجاب میں دو نئے صوبوں بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے قیام پر تمام جماعتیں متفق ہیں۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ق اور دیگر جماعتوں نے نئے صوبوں کے قیام کی قرارداد منظور کی اور پنجاب اسمبلی میں ایک بل پیش ہوا۔ پیپلزپارٹی ہمیشہ پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے پُرجوش رہی۔ خیبرپختونخوا میں ہزارہ صوبے کی تشکیل پر بھی اے این پی کے سوا کسی کو اعتراض نہیں۔ خان عبدالولی خان کے جانشین پنجاب میں لسانی و نسلی بنیادوں پر نئے صوبوں کا قیام چاہتے ہیں مگر جب سندھ میں نئے انتظامی یونٹ قائم کرنے کی بات ہوتی ہے تو پیپلزپارٹی قوم پرست جماعتوں کی طرح '' مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں ‘‘ کی گردان کرنے لگتی ہے، ان دنوں پھر 1971ء کی طرح یہ نعرہ لگاکر نسلی و لسانی جذبات بھڑکائے جارہے ہیں۔
پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ بڑے یونٹ چلانے کی اہل نہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد موجودہ پاکستان کو چلانے میں ہمارے حکمران طبقات جاگیرداروں، سرمایہ داروں ، وڈیروں، جرنیلوں اور بیورو کریٹس نے جس نااہلی اور نالائقی کا مظاہرہ کیا وہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ملک سیاسی، اقتصادی، سماجی اور معاشی بحران سے دو چار ہے۔ بے چینی اور مایوسی آخری حدود کو چھو رہی ہے اور سرمائے کے علاوہ جو ہرِ قابل کی بیرون ملک پرواز اس مایوسی و بے چینی کا منطقی نتیجہ ہے۔ نااہل حکمران اشرافیہ کو آج تک یہ سمجھ نہیں آسکی کہ ارتکاز دولت کی طرح ارتکاز اختیار بھی معاشرے اور ریاست کے لیے تباہ کن ہے مگر ان کی بلا سے۔ نئے صوبے بناکر عوام کو انصاف، روزگار ، تعلیم و صحت کی سہولتیں گھر کے قریب بہم پہنچانا تو درکنار یہ ظالم ضلعی حکومتوں کا وہ نظام بھی فراہم نہیں کرسکے جو جمہوری نظام کا بنیادی تقاضا اور امور مملکت میں عوام کی براہ راست شرکت کا بہترین ذریعہ ہے۔
اس کوڑھ مغز غر طبقے کو جب یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایران ، سوئٹزرلینڈ اور آبادی و رقبے میں ہم سے کم کئی ممالک میں صوبوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے، بعض میں دو دو ، تین تین درجن اور عوام کسی قسم کے احساس محرومی کا شکار نہیں تو یہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگتے ہیں۔ انہیں یہ دلیل بھی متاثر نہیں کرتی کہ جس طرح صادق آباد، فورٹ عباس اورروجھان کے غریب شہری کا لاہور پہنچ کر اپنا مسئلہ حل کرانا مشکل ہے اسی طرح گھوٹکی کے مظلوم اور ستم رسیدہ سندھی کو کراچی پہنچنے کے لیے وسائل، واقفیت اور سندھ سیکرٹریٹ ، ہائی کورٹ اور دیگر اداروں میں رسائی درکار ہے، جبکہ نئے انتظامی یونٹوں کے قیام سے فاصلے کم ہوں گے، کار گزاری بہتر اور کاروبار سیاست میں عوامی شرکت کے علاوہ اپنے نمائندوں اور سرکاری کارندوں کے احتساب کے مواقع نسبتاً زیادہ ۔ انگریز دور کی لسانی، نسلی یا انتظامی تقسیم ان کے لیے سامری کابچھڑا ہے جس کی پوجا ہر ایک کو کرنی چاہیے ۔ خواہ یہ عمل بے آسرا اور بد قسمت عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافے کا باعث ہو اورپاکستان کے لیے تباہ کن ۔
جس اصول کے تحت پنجاب کی تقسیم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور سندھ، خیبرپختونخوا کے قوم پرست سرائیکی تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں اس کا اطلاق سندھ پر کیوں نہیں ؟اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ اس ضد اور ہٹ دھرمی کے سبب سندھ کے دو شہری اور دیہی طبقوں میں منافرت بڑھ رہی ہے۔ سیاسی کھینچا تانی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور 1970ء کے عشرے کے زخم پھر ہرے ہونے لگے ہیں۔ ایک طرف سے مطالبہ انتظامی یونٹوں کے قیام کا ہے جس کے سیاسی، معاشی، اقتصادی اور انتظامی فوائد پر اب تک ایم کیوایم نے بھی روشنی نہیں ڈالی اور دوسری سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملانے کی شعوری کوشش نہیں کی؟ دوسری طرف مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا جذباتی نعرہ ہے جوہوشوشیدی فقیر نے اس وقت لگایا جب میروں کے دور میں انگریزوں سے فیصلہ کن جنگ جاری تھی۔ یہ معاملہ جذباتی نعرے بازی اور سیاسی رسہ کشی کے بجائے دانشمندی اور بصیرت سے طے کرنے کا ہے۔ منطق و استدلال کا پلڑا اگر سندھ کی وحدت کو برقرار رکھنے میں ہے تو پیپلزپارٹی اور قوم پرستوں کا موقف انتظامی تقسیم کے حامیوں کو خوش دلی سے تسلیم کرنا چاہیے اور اگر دوسری طرف کے دلائل وزنی ہیں تو ان کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں۔ مقصد سندھ کے عوام کی بھلائی گھوٹکی سے کراچی تک وادیٔ مہران کی تعمیر و ترقی اور بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کی تکمیل ہے ۔
کراچی کے دانشوروں کی رائے میں پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کی موجودہ کشمکش کا سبب اگلے سال کے اوائل میں بلدیاتی انتخابات اور اواخر میں ممکنہ مڈٹرم الیکشن ہیں جو دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف لڑیں گی اور اپنے اپنے ووٹروں کو مطمئن کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی ضروری ہے۔ وقت کم تھا ورنہ ایم کیوایم کے لیڈروں سے اس موضوع پر سیرحاصل گفتگو ہوتی۔
کراچی پریس کلب میں سینئر صحافیوں سے تبادلہ خیال کی نشست میں عمران خان اور نوازشریف زیر بحث رہے اور دھرنا پالیٹکس کے علاوہ سول ملٹری تعلقات جن پر پاکستان کی آئندہ سیاست کا انحصار ہے۔ عمران خان کے مخالفین بھی اس بات پر متفق تھے کہ ہر محفل میں عمران خان اور اس کے دھرنا کا ذکر ہوتا ہے اور کوئی نشست اس پر بحث کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ بہت سے دوستوں کا خیال تھا کہ تحریک انصاف اور ایم کیوایم کے مابین کسی نہ کسی سطح پر انڈرسٹینڈنگ موجود ہے اور یہ مستقبل کی سیاست میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved