تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     28-10-2014

وقت کی لگام

اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: زندگی ایک سواری ہے۔ آدمی اگر اس پر سوار نہ ہو تو وہ آدمی پہ سوار ہو جاتی ہے۔ وزیرِ اعظم اور ان کی قوم پر اللہ رحم کرے۔ 
حکمت یار کے لہجے میں تکان تھی۔ کہا: میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہر ایک کو معاف کر دوں گا۔ سبھی سے مصالحت کر لوں گا۔ یہ 1991ء کا موسمِ سرما تھا۔ لاہور سے میں روانہ ہوا تو یقین تھا کہ ہمیشہ کی طرح آسانی سے ملاقات ہو جائے گی۔ اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون کی اس گلی میں پہنچا تو عالم ہی دوسرا تھا۔ رسائی تو کجا، محافظ گیٹ کے سامنے کھڑا ہونے کی اجازت نہ دیتے۔ بی بی سی اور سی این این سمیت، کتنے ہی مغربی اداروں کے نمائندے لاچار کھڑے تھے۔ دفتر کی چھت پر طیارہ شکن توپیں نصب تھیں۔ گارڈ اس قدر چوکنا کہ گویا میدانِ جنگ میں کھڑے ہوں۔ امید بر آنے کی کوئی صورت تھی ہی نہیں۔ معاً ڈاکٹر غیرت بہیر پہ نظر پڑی۔ چلّا کر میں نے انہیں آواز دی۔ میرا ہاتھ تھام کر وہ مجھے اندر لے گئے اور سیڑھیوں پر لے جا کر کھڑا کر دیا ''یہیں کھڑے رہو۔ مسلسل دو راتیں جاگنے کے بعد ظہر کی نماز پڑھ کر وہ سوئے ہیں۔ عصر کے لیے اٹھیں تو شاید تم ان سے مل سکو‘‘
دروازہ کھلا تو اس آدمی کو دیکھا، آنکھیں جس کے لیے ترس گئی تھیں۔ ''آپ نے مجھے فراموش کیا‘‘ انجینئر صاحب نے کہا۔ خاموش، میں وہیں کھڑا رہا۔ گزرے ہوئے بارہ برس کی یادیں ہجوم کرتی ہوئی آئیں۔ دل ٹھکانے پر نہیں تھا۔ ہمیشہ کی طرح دھیرج سے چلتے ہوئے، وہ میرے پاس آ کھڑے ہوئے۔ اب یاد نہیں پڑتا، میں نے انہیں کیا جواب دیا۔ اصرار کرتا رہا کہ کچھ وقت عنایت کریں۔ ''صدر غلام اسحٰق خان اور وزیرِ اعظم نواز شریف سے ایک ساتھ مجھے ملنا ہے‘‘ گفتگو کے اختتام پر انہوں نے کہا، پھر گھڑی پہ نظر ڈالی اور بولے ''آپ جانتے ہیں کہ وقت کی میں سختی سے پابندی کرتا ہوں۔ آج میں لیٹ ہو جائوں گا۔ کل سویرے مکّہ مکرمہ روانگی ہے‘‘۔
عرض کیا: کل صبح سات بجے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائوں گا۔ جواب سنے بغیر پائوں پٹختا میں واپس آ گیا۔ رات گئے سونے والا آدمی صبح سویرے کیونکر اٹھا اور ٹھنڈ میں کانپتا کس طرح اس گلی میں پہنچا، اب یاد نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ دروازہ کھلا اور ایک کمرے میں لے جایا گیا۔ چند منٹ کے بعد وہ تشریف لائے۔ حزبِ اسلامی کی مجلسِ عاملہ کے ارکان متصل ہال میں اکٹھے ہو رہے تھے۔ ان میں سے بعض برہمی سے مجھے گھور رہے تھے کہ یہ کہاں سے آ ٹپکا۔ ابھی کچھ دیر میں دوسرے افغان لیڈروں کے ساتھ حکمت یار کو حجازِ مقدس چلے جانا تھا۔ غالباً اس سے پہلے معاہدہء اسلام آباد کی تفصیلات سے انہیں اپنے ساتھیوں کو آگاہ کرنا تھا۔ 
عمر بھر اس ملاقات کو اخبار نویس بھول نہ سکے گا۔ تب یہ احساس مجھے نہیں تھا کہ اخبار نویس اور لیڈر کی دوستی سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں ہوتا۔ 
گاہے اسے اختلاف کرنا پڑتا ہے اور لیڈر لوگ گوارا نہیں کرتے۔ اللہ کی رحمت کو شاید یہ منظور تھا کہ اس تعلق کی بازگشت دائم خوشگوار رہے۔ اس کے بعد کبھی ان کا سامنا ہوا ہی نہیں۔ 
غایت یہ تھی کہ مذاکرات کی روداد وہ خود سے بیان کر دیں۔ تین روزہ بات چیت کی تفصیلات اور ضروری سوالات کے بعد ایک مفصل مضمون لکھا جا سکتا۔ تصویر کا ایک پہلو لازماً روشن ہو جاتا۔ 
چائے میز پر رکھی جا چکی تو وہ بات کرشماتی لیڈر نے کہی، جو سان گمان میں نہیں تھی۔ وہ ایسا آدمی تھا کہ تین محاذ اگر کھلے ہوں تو چوتھا کھولنے میں ہرگز اسے کوئی تامل نہ ہوتا۔ اب مگر اس نے ادراک کر لیا تھا ۔ وہ یکسر بدلا ہوا دکھا ئی دیا۔ اس نے کہا: افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے۔ اتفاقِ رائے کی حکومت ہی اسے چلا سکتی ہے۔ 
دفتر پہنچ کر جو خبر میں نے لکھی، اس نے گلبدین کو حیرت زدہ کر دیا: حکمت یار کو اگرچہ وزیرِ اعظم کی نامزدگی کا اختیار ہے مگر یہ عہدہ انہوں نے خود سنبھالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملاقات میں اس بات کا ذکر تک ہوا نہ تھا۔ سات کالمی شہ سرخی کے ساتھ خبر چھپی تو مجھ سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ بات کیسے کہی۔ میرا جواب یہ تھا: گھنٹے بھر کے دوران، جس انداز اور جس لہجے میں اپنے عزائم اور منصوبے انہوں نے بیان کیے، پارٹی کے سربراہ کا نہیں، وہ ایک منتظم کا انداز تھا۔ اگر میں سوال کرتا تو ظاہر ہے کہ وہ شخص کبھی راز نہ کھولتا، جس نے سیکریسی (Secracy) کو ایک سائنس بنا دیا تھا۔ ایسا ہی ایک واقعہ بیس برس کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ پیش آیا، جب سینیٹر جان کیری کے ساتھ ہونے والی ان کی گفتگو ٹی وی پر بیان کر دی۔ بہت دن وہ ناخوش رہے۔ اس کی روداد پھر کبھی۔ موقف میرا یہ تھا کہ خبر دینا اخبار نویس کا حق ہے۔ آخرکار ڈھیٹ آدمی کو انہوں نے معاف کر دیا۔ دو تین ماہ بعد مینگورہ میں ملاقات ہوئی تو وہ سینیٹر مشاہد حسین اور اس ناچیز کو اپنے کمرے میں لے گئے اور دیر تک گپ کرتے رہے۔ واللہ اعلم، اندازہ میں نے یہ لگایا کہ اس اثنا میں میرا فون سنا جاتا رہا۔ 
گاہے اس خیال کا غلبہ ہوتا ہے کہ کالم نگاری چھوڑ کر تمام ہوتے ہوئے عہد کی یادیں لکھ ڈالوں۔ راز کی بات یہ ہے کہ کوئی خوبی ذاتی ہوا کرتی ہے اور نہ کوئی کامیابی۔ کوئی اخبار نویس تیس مار خاں نہیں ہوتا۔ قسمت جب مہربان ہو تو خبر خود اسے ڈھونڈ لیتی ہے وگرنہ بہترین کاوش بھی رائیگاں۔ 
بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں جا نکلی۔ ایسا ہی ہوتا ہے ؎
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا 
بات پہنچی تری جوانی تک 
حزبِ اسلامی کے دفتر سے میں نکلا تو رت جگے کے باوجود شاداں و فرحاں کہ بہت سی خبریں جیب میں تھیں۔ یہ خیال مگر بہت دن دل سے نکال نہ سکا کہ پشتون پٹی کے سب سے مقبول لیڈر نے فیصلہ کرنے میں تاخیر کر دی۔ بدقسمتی سے ایسا ہی تھا۔ خانہ کعبہ میں اٹھایا گیا حلف بھی نتیجہ خیز نہ ہوا۔ بائیس برس گزر چکے اور جنگ کی آتش اب بھی ویسی ہی بھڑک رہی ہے۔ 
فصل بونے کا ایک موسم ہوتا ہے۔ کھو دیا جائے تو کھیتی ہری ہو سکتی ہے لیکن بارآور ہرگز نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خزاں کا موسم بیت جانے کے بعد گندم بوئی جائے تو ہر روز ایک من کی متوقع پیداوار ایک کلو کم ہو جاتی ہے۔ اڑھائی فیصد روزانہ۔ 
آج کا اخبار یہ کہتا ہے کہ وزیرِ اعظم نے کابینہ میں تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سندھ کے غوث علی شاہ سمیت روٹھے ساتھیوں کو منانے کا بھی۔ بلدیاتی الیکشن کی طرف بھی مائل دکھائی دیتے ہیں۔ فوجی قیادت سے تعلقات بہتر بنانے کی ایک نیم دلانہ سی کوشش بھی ؎
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
پروردگار نے زندگی کو آزمائش کے لیے پیدا کیا اور دائم وہ ایسی ہی رہے گی۔ دو طرح کے آدمی ہوتے ہیں۔ ایک وہ کہ امتحان درپیش ہو تو وقت کو ماتھے کے بالوں سے پکڑ تے ہیں۔ دوسرے وہ جو ایک سنہری ساعت کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ وقت کی لگام ان کے ہاتھ میں آ جائے۔ وقت کی لگام بھی کیا کبھی کسی کے ہاتھ میں آئی ہے؟ اپنی زندگیاں وہ رائیگاں کرتے ہیں۔ اگر لیڈر ہوں تو قوم کی بھی۔ جونیجو حکومت برطرف کرنے کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق آنسوئوں سے رو دیے تھے: بہت سا قیمتی وقت میں نے ضائع کر دیا۔ 
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: زندگی ایک سواری ہے۔ آدمی اگر اس پر سوار نہ ہو تو وہ آدمی پہ سوار ہو جاتی ہے۔ وزیرِ اعظم اور ان کی قوم پر اللہ رحم کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved