تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     28-10-2014

مرض لادوا نہیں!

یہ کالم شروع ہو گا پاکستان کے شمال مغربی ہمسایہ ملک سے اور ختم ہوگا یورپ کے ایک جنوب مشرقی ملک پر۔ بدنصیبی، مفلوک الحالی، بدامنی بے چینی اور غیر یقینی مستقبل۔ ان دونوں کے درمیان یہ پانچ قدریں مشترک ہیں۔ آیئے پہلے کابل چلیں۔ وہاں صدارتی محل کی غلام گردشیں ہوں۔ ہلمنڈ کا آگ برساتاہوا موسم ہو۔ آکسفورڈ شائر کے ہوائی اڈوں سے اُڑتے ہوئے جہازوں کا شور ہو یا ہوا بازوں کی آوازیں ہوں۔ برطانوی وزیراعظم کے ساتھ افغانستان جانے والے برطانوی صحافیوں کی زبان پر صرف ایک سوال تھا۔ " Was It Worth It?" (ہم نے جو بھاری قیمت ادا کی۔ اُس کا جواز کیا تھا؟)برطانوی وزیراعظم کے اس طوفانی دورہ کا مقصد افغانستان میں برطانیہ کی تیرہ سال لمبی جنگی مہمات کے خاتمہ کا رسمی اعلان کرنا تھا۔ ان 13 سالوں میں برطانیہ نے کل 60 ارب پائونڈ خرچ کئے۔ 453 برطانوی سپاہیوں نے اپنی جان کی قربانی دی۔ ہزاروں برطانوی سپاہی ٹانگوں سے محروم ہو جانے کے باعث معذور ہوئے۔ کیا اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کا فیصلہ قابل دفاع ہے یا نہیں؟ برطانوی صحافی یہ سوال پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ 13 سالوں کی فوجی کارروائی کے بعدبھی وزیراعظم کے محافظوں کے لئے بم دھماکوں سے محفوظ کر دینے والا (Body Armour)کا پہناوا کیوں ضروری تھا؟ اس دورہ کے دوران کابل میں چار خود کش دھماکے ہوئے تو کیونکر؟ برطانوی صحافیوں کو کابل میں آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت کیوں نہ دی گئی؟ برطانوی وزیراعظم نے ان سوالوں کا جو جواب دیا وہ سب صحافیوں کی نظر میں نہ صرف احمقانہ تھا بلکہ جاہلانہ بھی۔ ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ ہم نے افغانستان کو اپنی جنگی کارروائیوں سے اتنا محفوظ بنا دیا کہ 9/11 جیسے واقعات (جن کی مبینہ طورپر منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی) دوبارہ رُونما نہیں ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وزیراعظم کا جواب درست ہے تو پھر برٹش فوج کوافغانستان سے کیوں نکالا جا رہا ہے۔ چونکہ اس کے انخلاء کے بعد 9/11 جیسے واقعات کا رُونما ہونا پھر ممکن ہو جائے گا۔ ہر ہفتہ افغان فوج کے کم از کم سو سپاہی طالبان کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی قطعاً پرُ اعتماد نہیں کہ وہ طالبان کے سیلاب بلا کے سامنے کوئی موثر بند باندھ سکتے ہیں۔
لطیفہ یہ ہے کہ ایک طرف ڈیوڈ کیمرون اپنی جنگی کارروائیوں کی کامیابیوں کا فاتحانہ انداز میں ذکر کرتے ہیں اور دُوسری طرف کہتے ہیں کہ یہ ہرگز خارج ازامکان نہیں کہ برطانوی فوج پھر افغانستان جنگ میں جھونک دی جائے۔ لفاظی کا ملمع اُتار دیا جائے تو جو اصل حقیقت سامنے آتی ہے وہ ناقابل انکار ہے اوروہ حقیقت یہ ہے کہ چوتھی برٹش افغان جنگ کے خاتمہ نے ثابت کر دیا کہ برطانیہ کی خارجہ پالیسی اپنے امریکی آقائوں کی خارجہ پالیسی کا چربہ ہے۔ برطانوی صحافی آپس میں ہزار باتوں پر اختلاف کریں وہ ایک نکتہ پر متفق ہیں کہ طالبان نے برطانوی سامراج کا فوجی غرور ہلمند کے ریگستان، افغانستان کے بے آب و گیاہ پہاڑوں اور تپتے ہوئے میدانوں کی خاک میں روند ڈالا۔ جنگیں چاہے جتنی خون ریز ہوں، لطیفوں سے خالی نہیں ہوتیں۔ برطانوی فوج نے اپنے ایک جاسوس کو (جو اچھا مصور بھی تھا) یہ ذمہ داری دی کہ وہ افیون پیدا کرنے والے غنچے کی تصویر بنائے، جسے پروپیگنڈا پوسٹروں پر شائع کر کے جنوبی افغانستان میں بڑے پیمانہ پر تقسیم کیا جا سکے۔ (مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ برطانوی فوجی مہم کامقصد افیون کی کاشت کو ختم کرنا ہے)دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ جب پوسٹر چھپ کر آیا تو اُس پر افیون کے پھول کی بجائے گلاب کے پھول کی تصویربنی ہوئی تھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ اشاعت کے مختلف مرحلوں میں یہ تبدیلی کس طرح رُونما ہوئی اور کسی نے اس غلطی کی نشان دہی نہ کی۔مگر گلاب کے پھول والا پوسٹر بڑی تعداد میں تقسیم ہو گیا اور ان گنت چہروں پر مسکراہٹ لایا۔
برطانیہ کی فوجی مہم کا آغاز یوں ہوا کہ 8 سو نیپالی گورکھوں کا ہر اوّل دستہ ہلمند بھیجا گیا جہاں اُن کا کام چند سو امریکی سپاہیوں کی مدد کرنا تھا۔ یہ تعداد بڑھتے بڑھتے32000 تک جا پہنچی مگر ہلمند میں طالبان کی لگائی ہوئی آگ کے شعلے ابھی تک سرد نہیں کئے جا سکے۔ تاریخ کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بار بار دُہراتی ہے۔ 1880ء میںMaiwand کی جنگ میں برطانیہ کو عبرت ناک شکست ہوئی (جس میں صرف ایک انگریز سپاہی زندہ بچا اور وہ بھی شاید اس لئے کہ منزل پر پہنچ کر یہ بتا سکے کہ باقی فوج کاکیا حشر ہوا؟) نقشہ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ میدان جنگ بھی ہلمند صوبہ کی حدود میں ہے۔ آنے والے سال بتائیں گے کہ امریکی اور برطانوی اور نیٹو فوج نے اتنی بڑی تباہی سے جو نئی افغانستان ریاست بنائی ہے وہ مستحکم ہے یا ریت کا گھروندا ثابت ہوتی ہے۔
چند ہزار میلوں کی پرواز (جو میںہر تیسرے چوتھے ماہ کرتا ہوں) ہمیں افغانستان سے بلغاریہ لے جائے گی۔ آپ کو شاید اعتبار نہ آئے کہ یورپ کا ایک ملک (جو یورپی مشترکہ منڈی کا بھی حصہ ہے) ایسا ہے جس کے باشندے خوشی، ذہنی سکون اور اطمینان قلب کے معاملہ میںاتنے قابل رحم ہیں کہ جب 156 ممالک کا جائزہ لیا گیا تو اُن کا نمبر144 تھا۔ یعنی افغانستان، عراق اور زمبابوے سے بھی پیچھے۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارہ نے عالمی خوشی کی جو رپورٹ مرتب کی اُس میں عوام کی ذہنی حالت جانچنے کا معیار یہ رکھا گیا کہ وہ اپنی حکومت کے افسروں کو کتنا نالائق اور بدعنوان سمجھتے ہیں؟تعلیم، علاج اور سماجی فلاح و بہبودکی سہولیات کتنی کم یا کتنی زیادہ ہیں؟بلغاریہ میں سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لئے پانچ اکتوبر کو جو عام انتخابات کرائے گئے وہ بھی عوام کے ذہنوں پر چھائے ہوئے اضطراب کے بادلوں کی گہرائی کو کم نہیں کر سکے۔ لگتا یہ ہے کہ جب سیاسی جوڑ کا مرحلہ مکمل ہوگا تو ایک بار پھر بلغاریہ کی مسند اقتدار پر وہی شخص براجمان ہو جائے گا جو فروری2013 ء میں بڑھتی ہوئی غربت کے خلاف ہونے والے زبردست عوامی مظاہروں کے دبائو میں مستعفی ہونے پر مجبور ہو گیا تھا۔ اُس کا نام ہے Bokyo Borisor ۔ سابق پہلوان۔ سابق باڈی بلڈر۔ سابق باڈی گارڈ۔ پولیس کا سابق بڑا افسر۔ بلغاریہ سے اشتراکی نظام ختم ہو چکا ہے۔ آخری انتخابات میں بہت تھوڑے لوگوں (بمشکل 50فیصد ) نے ووٹ دینے کا حق استعمال کرنے کی زحمت اُٹھائی۔ مالی مشکلات کی وجہ سے بلغاریہ کا چوتھا بڑا بینک (کارپوریٹ کمرشل بینک) اس سال جون میں بند کرنا پڑا تو دو لاکھ کھاتہ داروں 
کے اثاثے منجمد ہو گئے۔ یہاں بجلی یورپ میں سب سے زیادہ مہنگی ہے اور کرپشن سب سے زیادہ۔ بلغاریہ یورپ کا غریب ترین ملک تسلیم کیا جاتا ہے۔ اوسطاً ماہانہ آمدنی صرف پانچ سو ڈالر (چار سو یورو) ہے۔ کل آبادی کا پانچواں حصہ (20فیصد)خطِ افلاس کے نیچے زندہ رہنے کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے۔ ستم بالائے ستم کہ اس سال کی فصل بھی خراب تھی۔ رُوسی پابندیوں کی وجہ سے برآمدات بری طرح متاثر ہوئیں۔ بلغاریہ کے صدر نے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ملکی مفاد کی خاطر مل جل کر کام کریں چونکہ ان کی سوچی سمجھی رائے میں نئے عام انتخابات بھی سیاسی بحران حل کرنے میں ناکام رہیں گے۔ نئے صدر مملکت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پانچ نومبر تک نئی حکومت کی حلف برداری سے فارغ ہو جائیں۔ نئی حکومت تو ظاہر ہے بن ہی جائے گی لیکن شاید ہی بلغاریہ کا کوئی شخص اس کی کامیابی کے لئے پرُ اعتماد ہو۔ لگتا ہے کہ آنے والے موسم سرما میں بلغاریہ کے عوام کے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ پھر شروع ہو جائے گا۔ پچھلے سال سخت سردی اور برفباری کے دوران بلغاریہ کے شہروں میں عوام کو ہر روز اور ہر ہفتہ اور ہر ماہ مظاہرے کرنے پڑے ۔ حکومت تو گر گئی، مگر بڑے مسائل میں سے ایک بھی حل نہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ رائے عامہ کا ایک حصہ اب یہ کہہ رہا ہے کہ اس سے بہتر ہوتا کہ ہم اشتراکی نظام کو (اس کی تمام تر خرابیوں کے باوجود) ختم نہ کرتے اور اس کی اصلاح کر کے اس سے کام چلاتے چونکہ اس کا ہر نعم البدل برُی طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔ دورِ حاضر میں نہ جہاں گیری آسان ہے اور نہ جہان بانی۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری دونوں ناکام ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کو باری باری آزمایاجا چکا ہے۔ ہم آسمان سے گرتے ہیں تو کھجور میں اٹک جاتے ہیں۔ ماسوائے چین، جاپان، کوریا، سنگا پور، ملائیشیا، ترکی اور شمالی یورپی ممالک کے ،ہمیں کامیاب حکومتوں، مستحکم ریاستوںاور خوش و خرم عوام کی بہت کم مثالیں نظر آتی ہیں۔آیئے مل کر دُعا مانگیں کہ وطن عزیز بھی اس فہرست میں شامل ہو جائے۔ دُعا کی برکتیں اپنی جگہ مگر دوا بھی اتنی ضروری ہے۔ حال یہ ہے کہ مریض ایک (اٹھارہ کروڑ عوام) طبیب بے شمار اور دوا کا دُور دُور تک نام و نشان نہیں۔ مریض اس اُمید پر زندہ ہے کہ اُس کا مرض ہر گز لا دوا نہیں ۔بقول اقبالؔ ع
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved