ریڈیو میں ہمارے ایک سینئر افسر ہوا کرتے تھے جن کا کہنا تھا کہ ریڈیو یا دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کی سوچ میں کسی بھی قسم کی ایسی تبدیلی لانا ممکن نہیں ہوتا جس کو کسی طور بھی بنیادی نوعیت کی تبدیلی کہاجاسکے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ قیام پاکستان کے وقت سے جتنے مذہبی پروگرام ریڈیو پاکستان نے نشر کیے ہیں اگر نشریات کے ذریعے اذہان تبدیل ہوسکتے تو پورے ملک میں اکثریت سچا مسلمان بن چکی ہوتی۔ ان کا استدلال تھا کہ انسانی ذہن میں تبدیلی لانے کے لیے انسانی سطح پر براہ راست رابطہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں تشہیری مہموں پر زیادہ انحصار نہیں کرتیں بلکہ براہ راست ممکنہ ووٹروں کے ساتھ رابطوں کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔
یہ تو بہت پرانی بات ہے۔ آج کل زمانہ بدل چکا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں انتخابات کے دوران اور دیگر کسی پراپیگنڈا مہم کے دوران میں بھی بھرپور انداز میں میڈیا کا استعمال کیاجاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی اب ایسا ہونے لگا ہے۔ غور کریں تو صورتحال کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ آج بھی میڈیا میں چلائی جانے والی مہموں کا اثر دیرپا نہیں دیکھا گیا۔ مجھے مغربی ممالک کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہیں مگر یہ استعمال خاص موقع پر عوامی رائے کی ایک لہر پیدا کرنے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر انتخابات کے دوران میں اگر کوئی نزاعی قسم کا مسئلہ ، دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان پیدا ہوگیا ہو تو وقتی طور پر جو جماعت پرزور اور موثر مہم چلالے اکثر رائے دہندگان اس طرف مائل ہوجاتے ہیں مگر امریکہ جیسے ملک میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ ڈیموکریٹک پارٹی کے سوچ رکھنے والے عوام کی سوچ تبدیل کرکے ان کو ری پبلکن پارٹی کی سوچ کا ہمنوا بنالیں۔ اس غرض سے میڈیا پر چلائی جانے والی پر تشہیری مہم بے اثر ثابت ہوگی یہی وجہ ہے کہ آپ کو کم ہی کوئی ایسی کوشش کرتا دکھائی دے گا۔
سابق امریکی صدر ریگن پہلے ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے تھے مگر بعدازاں ان کی سوچ میں کچھ عوامل کے سبب تبدیلی آئی اور وہ ری پبلکن سوچ پر چلنے لگے۔ ان کی سوچ کی تبدیلی کے سفر میں میڈیا پر تشہیری مہم کا کوئی دخل نہ تھا۔ جن عوامل کا دخل تھا وہ اس کالم کا موضوع نہیں ہے۔ انسانی ذہن بہت پیچیدہ شے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سوویت یونین کا بھرپور انداز میں مقابلہ کرنے کی ریگن میں شدید خواہش موجود تھی جو ڈیموکریٹک پارٹی کے بجائے ری پبلکن پارٹی میں پوری ہونے کے زیادہ امکانات تھے۔ اس لیے وہ ری پبلکن پارٹی میں شامل ہوگئے مگر طبعاً ڈیموکریٹک پارٹی کی سوچ بھی ان کے اندر موجود تھی لہٰذا وہ انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے لوگوں کے بھی کافی ووٹ لے لیا کرتے تھے۔ ان ووٹروں کو امریکہ میں ریگن کے ڈیمو کریٹ کہا جاتا تھا۔
بہرحال اس مثال دینے کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ میڈیا پر پروپیگنڈا یا تشہیری مہم پہلے سے موجود سوچ کو وقتی طور پر کسی ایک طرف موڑ ضرور سکتی ہے مگر جوہری تبدیلی نہیں لاسکتی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جوہری تبدیلی کے لیے براہ راست رابطہ بہت سود مند رہتا ہے مگر اس سے بھی زیادہ اچھے کردار کا مظاہرہ کرنے کا فائدہ ہوتا ہے اور اچھے کردار اور اوصاف کا ایک شخص صرف پاک صاف زندگی بسر کرنے کے ہی اپنے اردگرد لوگوں کی زندگیاں بدل سکتا ہے۔ ہمارے ہاں بعض مذہبی جماعتوں کا طریقہ بھی یہی رہا ہے کہ وہ میڈیا وغیرہ سے دور ہی رہتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے شروع میں جب مولانا کوثر نیازی وزیراطلاعات ہوتے تھے تو میں ریڈیو پاکستان لاہور پر بحیثیت پروڈیوسر تعینات تھا۔ مجھے اپنے سٹیشن ڈائریکٹر مسعود قریشی صاحب نے بلاکر کہا کہ فلاں جگہ ایک جماعت کا اجتماع ہورہا ہے ان کے سربراہ کا انٹرویو کرنے کی کوشش کرو۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ کہہ کر مجھے چوکنا کردیا کہ احتیاط سے جانا اور لازماً سربراہ تک پہنچنا کیونکہ یہ مولانا کوثر نیازی کا حکم ہے۔میں اپنے معاون دائود جعفری کے ہمراہ وہاں پہنچا۔ اس زمانے میں اجتماع اتنا بڑا تو نہیں ہوتا تھا مگر پھر بھی کافی لوگ تھے ۔ سب انتہائی منظم، پوچھ پوچھ کر میں ان کے سربراہ تک پہنچا۔ خیر جماعت کے سربراہ نے مجھے اپنے سامنے بٹھایا اور میری مکمل بات سنی۔ پھر مجھے اور تھوڑا قریب کرکے انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سینے کے بائیں جانب رکھ کر ہلکا سا دبایا اور بولے برخوردار، ہم یہاں ریکارڈنگ کرتے ہیں۔ میرے ٹیپ ریکارڈر کی طرف اشارہ کرکے بولے، ان مشینوں پر ریکارڈنگ نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک میں بڑے بڑے نیٹ ورکس نے ان کو انٹرویو کے لیے کہا مگر انہوں نے معذرت کرلی۔ میں یہ جواب لے کر آگیا اور اپنے سٹیشن ڈائریکٹر کو مطلع کردیا۔آج مجھے اس سے مختلف اور بدلی ہوئی صورتحال نظر آتی ہے۔
میڈیا پر پرزور بیان اصل میں ایک فن ہوتا ہے۔ اس فن کا مظاہرہ سٹیج پر تقریروں میں بھی ہوتا ہے۔ جو لوگ اس فن کا مظاہرہ کرتے ہیں ان لوگوں میں خداداد صلاحیت ہوتی ہے کہ مختلف واقعات ، اقوال اور تنقید و ستائش کو اس طور سے بیان میں جڑتے ہیں کہ سامعین عش عش کرنے لگتے ہیں۔ یہ کوئی دیرپا اثر نہیں چھوڑتا۔
گزشتہ دو تین ماہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو میڈیا پر براہ راست اتنا وقت مل رہا ہے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ عمران خان کو میڈیا فائدہ پہنچا رہا ہے۔ حالانکہ مجھے تو نہیں لگتا کہ اس طرح روزانہ براہ راست لوگوں سے مخاطب ہونے اور ٹی وی پر دیکھے جانے سے عمران خان کو اپنی سیاسی جماعت مضبوط کرنے میں کوئی مدد مل رہی ہو۔ جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ تو ان دھرنوں سے پہلے سے ساتھ ہیں اور تحریک انصاف کے سیاسی کام کی وجہ سے جماعت کا حصہ ہیں اور جو تحریک انصاف میں نہیں ہیں ان میں سے کم ہی کوئی ہوگا جو دھرنوں کی ٹی وی کوریج کی وجہ سے تحریک انصاف میں شامل ہوا ہو۔ اب 30نومبر کو انہوں نے لوگوں کو اسلام آباد بلایا ہے تو ان کو اور تحریک انصاف کو لوگوں سے براہ راست رابطے بڑھا کر سیاسی کام کرنا چاہیے۔ محض میڈیا پر انحصار کیاگیا تو وہی نتیجہ ہوگا کہ اعلان دس لاکھ کا اور پہنچیں گے لوگ ہزاروں ہی ۔ عمران خان یہ بھی یاد رکھیں کہ ہمارے نجی ٹی وی چینل پاکستان کی محدود آبادی تک ہی پہنچتے ہیں۔ پاکستان کی کثیر آبادی تک اب بھی پاکستان ٹیلی ویژن ہی پہنچتا ہے۔ ان پر تو تحریک انصاف کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ اس آبادی کو اسلام آباد لانے کے لیے تشہیری مہم اور ٹیلی فون پر ریکارڈ پیغامات کافی نہیں ہوں گے۔ میڈیا پر تشہیری مہم کا فائدہ اس صورت میں ہوگا اگر پہلے سے ٹھوس سیاسی کام موجود ہو۔ میڈیا پر تشہیری مہم پہلے سے کیے گئے سیاسی عمل میں تو تیزی لاسکتی ہے خود سے سیاسی عمل کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا تحریک انصاف اگر 30نومبر کو اپنے پچھلے لانگ مارچ سے زیادہ لوگ اسلام آباد لانا چاہتی ہے تو لازم ہے کہ سیاسی طور پر دیہی آبادی تک پہنچے اور اپنی جماعت کے سیاسی کام ہی پر انحصار کرے۔