تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     29-10-2014

گڈ گورننس

ہمارے حکمرانوں کا مزاج مغلیہ ہے۔ مغلیہ دور میں اعلیٰ سرکاری عہدے شجرۂ نسب دیکھ کر دیے جاتے تھے اور بسا اوقات یہ شجرے ایران یا سنٹرل ایشیا سے منگوائے جاتے تھے۔ عہدے کی طولانی اور تواتر اس بات پر منحصر تھا کہ دربار سرکاری افسر سے خوش ہے یا نہیں‘ لہٰذا افسر لوگ شاہی دربار کو خوش رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ ذرا سی غلطی پر شاہی جبیں پر غیظ و غضب کے آثار نمودار ہوتے تھے اور بڑے سے بڑے افسر کی ملازمت اور جاہ و جلال آناً فاناً واپس لے لیے جاتے تھے۔شاہی غیظ و غضب کے خلاف اپیل صرف اور صرف دربار میں ہی کی جا سکتی تھی۔ بڑے بڑے جاہ و جلال والے افسر ظل الٰہی کے حکم کو قہر الٰہی سمجھ کر خاموش رہتے تھے۔ اس خوف اور بے یقینی کے عالم میں افسر خوب پیسہ بناتے تھے اور ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کرتا تھا۔ مغلیہ دور میں کرپشن عام تھی۔
انگریز آئے تو اپنے ساتھ ایک نظام اور ادارے لائے۔اعلیٰ ملازمتوں کے لیے میرٹ کا نظام متعارف کرایا گیا۔ جس نے اعلیٰ عہدہ لینا ہے وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مقابلے کا امتحان دے‘ انٹرویو دے اور عہدہ حاصل کر لے ۔ محاسبے کا نظام بھی انگریز نے دیا۔ اگر کوئی افسر اپنے اختیارات سے تجاوز کرے تو اسے وارننگ دی جائے اور اگر حد سے تجاوز کر جائے یا برے ریکارڈ کا حامل ہو تو چارج شیٹ دی جاتی تھی اور اپیل کا حق بھی۔ بعض افسروں کو اس بات پر وارننگ مل جاتی تھی کہ ان کا معیار زندگی تنخواہ سے مطابقت نہیں رکھتا۔افسروں کو اعلیٰ سے اعلیٰ ٹریننگ دی جاتی تھی۔ہر ٹریننگ کورس کے بعد ایک اور امتحان ہوتا تھا۔ ہر افسر کے بارے میں انتہائی ایمانداری کے ساتھ ایک سالانہ خفیہ رپورٹ لکھی جاتی تھی۔ انگریز کے اس نظام نے ہمیں ہاشم رضا، آئی ایچ عثمانی، عباس خلیلی، عزیز احمد، چودھری محمد علی، ایس ایم یوسف، قدرت اللہ شہاب اور مسرت حسین زبیری جیسے پائے کے افسر دیے۔
یہ وہ افسر تھے جو قابلیت اور لیاقت میں اپنی مثال آپ تھے۔ اپنی رائے کا بلا خوف اظہار کرتے تھے۔انہیں قانونی تحفظ حاصل تھا۔اسی بیورو کریسی کی بدولت نوزائیدہ پاکستان نے طفولیت کے مراحل طے کئے۔لاکھوں مہاجرین نے ازسر نو زندگی کا آغاز کیا اور وہ نئے ملک سے خوش تھے۔ ایوب خان کے عرصۂ حکومت میں صنعتیں لگیں‘ ڈیم بنے اور زراعت نے ریسرچ کی بدولت بہت ترقی کی۔پاکستان کے بیورو کریٹ انجینئر اور سائنس دان سب ہی اعلیٰ پائے کے تھے۔ ملک میں سالانہ شرح ترقی سات آٹھ فیصد کے درمیان تھی۔ ملک خوش حالی کی طرف گامزن تھا۔ ہمارا پلاننگ کمشن اور پاکستانی ماہرین کے بنائے ہوئے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کوریا جیسے ملک کے لیے قابل رشک ٹھہرے۔
اور اب میں آپ کو ایسے ہی دو قابل اور دبنگ پاکستانی افسروں کے قصے سناتا ہوں۔ جی احمد جو کہ عزیز احمد کے بھائی تھے‘ 1952ء میں سیکرٹری داخلہ تھے۔ جی احمد نے اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو لکھا کہ وہ اپنی پارٹی یعنی مسلم لیگ کے ممبران کو سمجھائیں کہ وہ ملک کو اپنی جاگیر نہ سمجھیں‘ وقتی مفادات کی خاطر مذہبی اصول پسندوں کی طرف داری نہ کریں اور پالیسی سازی پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔خواجہ ناظم الدین نے ان سفارشات پر کان نہ دھرے اور نتیجہ اگلے ہی سال لاہور میں فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں نکلا۔
جناب عباس خلیلی صدر ایوب خاں کے زمانے میں سیکرٹری انڈسٹریز تھے۔ خان عبدالصبور خان ان کے وزیر تھے۔ایک اہم فائل پر خلیلی صاحب نے ملک کی صنعتی پالیسی کے بارے میں تجاویز دیں۔فائل وزیر صاحب کے پاس گئی ۔ خان صاحب نے اس پر اختلافی نوٹ لکھا اور فیلڈ مارشل کے پاس چلے گئے اور ان کے آرڈر حاصل کر لیے۔فائل واپس آئی تو خلیلی صاحب حیران رہ گئے۔وہ سیدھے صدر ایوب کے پاس گئے اور کہا کہ آپ وزیر صاحب کو بھی بلا لیں‘ میں یقین سے کہتا ہوں کہ آپ دونوں کو اپنی تجاویز کی افادیت کے بارے میں قائل کر لوں گا؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سیکرٹری انڈسٹریز کی تجویز کو شرف قبولیت ملا۔ یہ وہ افسر تھے جن میں خود اعتمادی تھی‘ لیاقت تھی‘ وہ ملکی مفاد کو سب سے بالاتر رکھتے تھے اور بلاخوف بات کرتے تھے۔افسوس ہے کہ ایسے شاندار افسروں پر ہم نے نوکر شاہی کا لیبل لگا کر ان کی تمام خدمات کو کنوئیں میں ڈال دیا۔ 
سول سروس کی تباہی میں سول اور ملٹری حکمرانوں نے خوب حصہ ڈالا۔ دراصل ان پستہ قد لوگوں کو بڑے قد کاٹھ والے افسر سوٹ ہی نہ کرتے تھے‘ کیونکہ یہ افسر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے تھے ۔بھٹو صاحب کا مزاج بھی مغلیہ تھا۔ پہلے وہ اپنی لیٹرل انٹری لے کر آئے ۔ غیر شفاف طریقے سے بہت سے سفارشی افسر بھرتی کئے گئے۔ بھٹو صاحب سے قبل یحییٰ خان اپنی مست آنکھوں کے ایک اشارے سے تین سو تین افسر فارغ کر چکے تھے۔اسی زمانے میں مجھے یاد ہے کہ اعتزاز احسن سی ایس ایس کے امتحان میں اول آئے اور وہ جوائن کرنے سے انکاری ہوئے۔سروس کا مورال تیزی سے گرنا شروع ہوا۔رہی سہی کسر تب پوری ہوئی جب بھٹو صاحب نے دستوری گارنٹی واپس لے کر تیرہ سو افسروں کو فارغ کر دیا۔ میں اس زمانے میں سول سروس اکیڈمی میں زیر تربیت تھا۔ آج کل غالباً وہاں اسٹیٹ گیسٹ ہائوس ہے۔ افسران کا مورال اس قدر پست ہوا کہ ہمارے ساتھ اول اور دوئم آنے والے دونوں افسر یعنی عارف ذوالفقار اور محمد علی ایوب سروس چھوڑ کر ورلڈ بنک میں چلے گئے ۔ہم سے اگلے سال یعنی فرسٹ کامن میں اول اور دوئم امیدوار بھی سول سروس چھوڑ کر امریکہ سدھارے۔ غالباً آصف سعید بھی ورلڈ بنک گئے تھے جبکہ مستنصر میر کا پتہ نہیں کہ امریکہ میں کیا کرتے ہیں۔
سول سروس کے تابوت میں آخری کیل جنرل پرویز مشرف نے ٹھونکی۔ اس سے قبل جنرل ضیاء الحق دس فیصد فوجی کوٹہ مقرر کر چکے تھے۔مشرف نے ڈپٹی کمشنر سے لینڈ ریونیو اور مجسٹریسی کے اختیارات واپس لے لیے اور اب پولیس بھی ضلعی ناظم کے ماتحت تھی۔ اس سے زیادہ احمقانہ انتظامی تجربہ پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا۔ آپ تصور کیجیے کہ ایک منتخب ناظم‘ پاکستان جیسے ملک میں پولیس فورس کو ایمانداری اور نیوٹرل طریقے سے کیسے استعمال کر سکتا ہے۔ جس شخص کی بے شمار سیاسی دوستیاں اور دشمنیاں ہوں‘ اس کے تحت پولیس کیسے غیر جانبدار رہ سکتی تھی۔دوسرے یہ کہ اگر ایک ناظم کے ضلع میں امن عامہ بے حد خراب ہو جاتا‘ لوگ سڑکوں پر آ کر جلائو گھیرائو شروع کر دیتے تو کیا ناظم ان پر لاٹھی چارج کراتا جبکہ ان لوگوں میں اس کے اپنے ووٹر بھی شامل تھے۔چنانچہ جلد بازی میں بنایا گیا ناظم سسٹم فلاپ ہو گیا۔ مجھے یاد ہے انہی دنوں ایک سرکاری وفد پاکستان سے بھارت گیا۔ واجپائی صاحب وزیر اعظم تھے۔ واجپائی صاحب نے پاکستانی وفد سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے ڈپٹی کمشنر کے پر کیوں کاٹ دیے ہیں۔ اب وہ اپنے ضلع کو کنٹرول کیسے کرے گا۔پاکستانی وفد کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔
سول سروس ریفارم کے لیے کئی کمیشن بنے۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اجلال حیدر زیدی نے تجویز دی کہ صحت اور تعلیم کے لیے علیحدہ سے انتظامی کیڈر بنائے جائیں اور صوبائی حکومتوں کو مزید اختیار دیئے جائیں مگر ضیاء الحق نے ان سفارشات پر عمل نہ کیا۔جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر عشرت حسین اور ظفر اقبال راٹھور کی قیادت میں دو کمیشن قائم کئے۔موخر الذکر کا کام صرف پولیس کے بارے میں تجاویز دینا تھا۔راٹھور صاحب خود نیک نام پولیس افسر رہے ہیں۔ ان کی تجویز تھی کہ پولیس افسران کی پوسٹنگ اور پروموشن کے لیے ایک غیر جانبدار بورڈ ہونا چاہیے تاکہ سیاسی مداخلت نہ ہو۔ مجھے لگتا ہے کہ باقی رپورٹوں کی طرح راٹھور صاحب کی رپورٹ بھی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی کسی الماری میں دیمک کو خوراک مہیا کر رہی ہو گی۔ دراصل سول حکومت ہو یا ملٹری دونوں بیورو کریسی کو غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ 2006ء میں لندن میں چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط ہوئے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے تہیہ کیا کہ بیورو کریسی کو سیاسی اثر سے آزاد رکھا جائے گا۔ جب اٹھارویں ترمیم پر بحث ہو رہی تھی تو یہ معاملہ بھی زیر غور آیا کہ سرکاری افسران کی دستوری گارنٹی جو بھٹو صاحب نے واپس لی تھی‘ اسے بحال کر دیا جائے مگر شومئی قسمت سے ایسا نہ ہوسکا۔ 
ایک مستعد اور ایماندار بیورو کریسی کی بدولت سلطنت عثمانیہ نے یونان اور مڈل ایسٹ پر صدیوں حکومت کی۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ مضبوط اور جو اب دہ بیورو کریسی ہی ملک کو استحکام اور ترقی دیتی ہے۔ مگر اس بات کا کیا علاج ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا مزاج اب بھی مغلیہ ہے۔ وہ میرٹ کی پاسداری صرف تقریروں میں کرتے ہیں۔بیوروکریسی کمزور اور کھوکھلی ہو چکی ۔ نتائج آپ کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved