ایک شخص نے اپنے ایک دوست سے جا کر کہا کہ فلاں آدمی تمہارے بارے جھوٹی باتیں پھیلاتا رہتا ہے‘ جس پر اس کے دوست نے کہا:
''کوئی بات نہیں‘ لیکن اسے کہہ دو کہ اگر اس نے میرے بارے سچی باتیں پھیلانا شروع کردیں تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا!‘‘
برخوردار بلاول بھٹو زرداری کا ایک انٹرویو میں کہنا ہے کہ الیکشن 2013ء کے موقع پر ہمارے بارے جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں‘ سو‘ اس عزیز کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کے بارے سچی باتیں نہیں پھیلائی گئیں ورنہ صورت حال مزید قابلِ رحم ہوتی۔
سیاست ہمارے ہاں اگر واقعی ایک کاروبار اور دھندہ ہے اور اسے ایک روٹین کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے تو اس کے حوالے سے بھی رفتہ رفتہ صورت حال ایسی نہیں رہے گی کیونکہ لوگوں میں آگاہی اور خودشناسی کی سطح اس قدر بلند ہو گئی ہے کہ کچھ عرصے کے بعد ایک دنیا کہے گی کہ ع
پرانی سیاست گری خوار ہے
نیز‘ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرا فریق درویش اور پاکباز ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ وباء ملکی سیاست میں انہی مہربانوں نے متعارف کرائی ،ورنہ ان کے ورودِ مسعود سے پہلے احوال اس نہج پر نہیں تھے اور بینظیر بھٹو یہ کہنے کے لیے ریکارڈ پر موجود ہیں کہ نوازشریف کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بھی اتنے ہی پیسے کی ضرورت ہے اور یہ بھی معمولات میں شامل تھا کہ ہر وہ فائل جو روپے
پیسے سے متعلق ہوتی تھی‘ وزیراعظم بینظیر وزیر پیداوار آصف علی زرداری کی طرف مارک کردیا کرتی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو تک یہ دوڑ شروع نہ ہوئی تھی بلکہ یہ سعادت جنرل ضیاء کو حاصل ہے کہ انہوں نے غیر سیاسی الیکشن کی بنیاد اس طرح رکھ دی کہ یہ نہ صرف سرمایہ بنیاد ہو کر رہ گئی بلکہ سیاست میں برادری ازم‘ کلاشنکوف اور پیسے کا دور دورہ بھی شروع ہوا اورآخری حد تک پروان بھی چڑھا اور آج اسے ایک مضبوط روایت کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے کیونکہ یہ معاملات آگے آ گئے ہیں اور نظریہ کہیں پس منظر میں چلا گیا ہے اور صرف اپنے اپنے منشور میں رونق افروز ہے جبکہ اس کی اصل اور مضبوط بنیاد ہی اس مشترکہ میثاقِ جمہوریت پر رکھی گئی جو بینظیر بھٹو اور نوازشریف کے درمیان طے ہوا اور جس سے این آر او نے بھی جنم لیا۔
پھر‘ اس جلتی پر تیل زرداری کے نظریۂ مفاہمت نے بھی ڈالا جس کے تحت آغاز چھوٹے بچوں کی طرح‘ لڑائی جھگڑے کے بغیر‘ مل جل کر کھانے سے ہوا‘ اور پھر چل سو چل۔ اس کا ایک چھوٹا سا فائدہ یہ بھی ہوا کہ جب دبائو پڑا تو زرداری جوڑے نے بیان دے دیا کہ ان کا سرے محل کے ساتھ کوئی تعلق ہے توجس کا جی چاہے جا کر اس پر قبضہ کر لے‘ لیکن جب این آر او آیا تو اسے چپکے سے فروخت کر ڈالا گیا۔ اس کے بعد مقابلہ ہوا اور غیرملکی بینک بھرنے اور اثاثے بنانے کی دوڑ شروع ہوئی جس کے اصل حقائق شاید کسی کو بھی معلوم نہیں ہیں‘ جبکہ اس مفاہمت کی ایک اہم شق یہ بھی تھی کہ ایک دوسرے کو نہ چھیڑا جائے اور جس نے جو کھا لیا اور آئندہ کھائے گا‘ اسے ہضم‘ تاکہ عوام کی خدمت اسی تسلسل سے ہوتی رہے۔
چنانچہ ہر الیکشن کے دوران اور اس سے پہلے طرح طرح کی بڑھکیں اور ایک دوسرے کے خلاف گیدڑ بھبکیاں ضرور لگائی جاتی ہیں کہ فریقِ ثانی کے پیٹ سے لوٹا ہوا پیسہ پیسہ نکال لیں گے‘ لیکن الیکشن کے بعد سب کے سب برف میں لگ جاتے ہیں اور ٹھنڈ پروگرام شروع ہو جاتا ہے۔ احتساب اور نیب وغیرہ کو اس قدر کمزور اور محتاط کردیا جاتا ہے کہ اس کا گزارا بھی محض زبانی جمع خرچ پر ہوتا ہے یا زور بیوروکریسی پر‘ البتہ کبھی کبھار مقدمات کھولنے کی خوشخبری بھی سنائی جاتی ہے‘ لیکن اس کا مقصد بھی فریقِ مخالف کو فائدہ پہنچانا ہی ٹھہرتا ہے۔
سو‘ ہماری سیاست کو ارادتاً سرمایہ بنیاد کردیا گیا ہے اور دونوں بڑی پارٹیاں اس قدر امیر و کبیر ہو چکی ہیں کہ باری باری اقتدار خرید لینے کی پوزیشن میں بھی ہوتی ہیں‘ لیکن اب یہ موسم تبدیل ہونے لگا ہے اور لوگوں کو علم ہونے لگا ہے کہ مثلاً کروڑوں اور اربوں کے کِک بیکس بھی دراصل انہی کا پیسہ ہے کیونکہ اس ضمن میں اگر ایک روپے کی چیز ڈیڑھ روپے میں خریدی جاتی ہے تو اس ڈیڑھ گنا مہنگائی کا نشانہ بھی عام لوگ ہی بنتے ہیں جو مختلف ٹیکسوں کی صورت میں ان کے سر منڈھا جاتا ہے اور یہ بات بالکل صحیح کہی جاتی ہے کہ اگر کرپشن ختم ہو جائے تو ملک کے سارے مسئلے ہی حل ہو جائیں۔
عوام کی زبوں حالی اور مجبوری کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ ان کے پاس کوئی تیسرا آپشن ہی موجود نہیں تھا اور ہر الیکشن میں انہیں انہی دو برائیوں میں سے ایک ہی کو اپنانا پڑتا تھا‘ یعنی ان میں سے جو کمتر برائی ہو‘ حالانکہ اصلاً یہ ایک دوسری سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی معاشرت میں یہ دونوں اپنے پنجے اس قدر مضبوطی سے گاڑ چکی ہیں کہ انہیں ہلانا جلانا ایک ناممکن بات نظر آتی تھی‘ لیکن اگر پچھلے الیکشن میں پیپلز پارٹی میں ایک بہت بڑا ڈینٹ پڑ سکتا ہے تو نوازلیگ کو بھی اپنی خیر منانی چاہیے کہ اب یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
اور‘ سب سے بڑی اور فیصلہ کُن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں کئی بار آزمائی جا چکی ہیں اور عوام کی حالت میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑا بلکہ عوام روز بروز غریب تر اور حکمران امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی رعونت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کیونکہ باری باری کے اقتدار کو یہ ایک طے شدہ حقیقت سمجھتی ہیں اور اپنی اپنی جکڑ بندی پر مطمئن بھی‘ اور یہی وجہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو تبدیل یا بہتر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتیں‘ حتیٰ کہ دونوں جماعتوں کے اپنے اپنے گلو بٹ موجود ہیں جن کے ذریعے یہ کامیابی سے اپنی اپنی باریاں لینے میں مصروف ہیں۔
عمران خان کو مستقبل کا ایک مسیحا اگر تصور نہ بھی کیا جائے‘ کیونکہ ان دونوں نے ملکی حالات کو اس حد تک تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے کہ اب اسے صحیح ٹریک پر لانا ہاری ساری کے بس کا روگ بھی نہیں رہا‘ اور وہ ناکام بھی ہو سکتا ہے‘ لیکن اگر اسے موقع دیا جائے تو سیاست سے مذکورہ اجارہ داری ضرور ختم ہو سکتی ہے جو ان ساری خرابیوں کی جڑ ہے‘ اور‘ اس طرح رفتہ رفتہ صورتِ حال بہتری کی طرف جا سکتی ہے جس کا اور کسی طرح سے بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا اور اس ملک کے ان لٹے پٹے عوام کو چکی کے ان دو پاٹوں کے درمیان مزید پیسنا پڑے گا جسے اپنی تقدیر سمجھ کر وہ خود بھی آمادہ نظر آتے ہیں۔
آج کا مقطع
حق وہ ہے ظفر چھین لیا جائے جو بڑھ کر
یہ پھیلے ہوئے ہاتھ اٹھانے کے لیے تھے