کوئی مانے یا نہ مانے، عمران خان پاکستانیوں میں کسی حد تک سیاسی شعور پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایسا شعور جو اس سے پہلے نہیں تھا‘ یا اگر تھا تو ابھر کر سامنے نہیں آیا تھا‘ اجاگر نہیں ہوا تھا۔ مگر معاملہ یہیں تک نہیں رُکا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین اپنے اندر سیاسی جوہر پیدا کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ اور اُسے عملی شکل دینے سے متعلق اقدامات پر بحث پھر کبھی سہی، عمران خان اپنی باتوں، بیانوں اور تقریروں سے مُرجھائے ہوئے ہونٹوں کو مُسکان عطا کرنے لگے ہیں۔ لوگ اب ان سے امیدیں وابستہ کرنے لگے ہیں۔ جس میں یہ وصف پیدا ہو گیا، سمجھ لیجیے اُس نے پاکستانی سیاست کے میدان میں بازی اپنے نام کر لی۔
عمران خان نے انتہائے معصومیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ نیا پاکستان بنانے کے لیے تھوڑا سا پاگل پن ضروری ہے۔ موصوف نے یہ بھی کہا ہے کہ کوئی بھی بڑا کام منطقی انداز سے نہیں کیا جا سکتا‘ اور یہ بھی کہ ملک میں تبدیلی عید سے قبل آئے گی۔
ہم نے یہ بیان پڑھا تو مبہوت (بھوت نہیں) ہو گئے۔ بات یہ ہے کہ خان صاحب نے ڈھائی تین ماہ کے دوران جو کچھ کیا ہے‘ وہ اگرچہ غیر ضروری یا بلا جواز نہیں مگر اُس کی کوکھ سے اچھے خاصے پاگل پن نے بھی جنم لیا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں اور عمران خان کے عام سے چاہنے والوں نے اسلام آباد، کراچی اور دیگر شہروں میں دیے جانے والے دھرنوں میں جس جوش و جذبے سے شرکت کی ہے اُسے ایک طرح کے محبت بھرے پاگل پن کے سِوا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ اب خان صاحب فرما رہے ہیں کہ زیادہ نہیں، تھوڑا سا پاگل پن ضروری ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پاگل پن کی فاضل پیداوار کس کھاتے میں ڈالی جائے گی؟
مرزا تنقید بیگ بہت سے اُمور میں عمران خان سے اختلاف رکھتے ہیں‘ اس کے باوجود وہ ہر دم اُن پر فِدا ہونے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ عمران خان تقریر کر رہے ہوں اور مرزا ٹیلی وژن سکرین کے ساتھ چپک کر نہ بیٹھے ہوں اور انہوں نے گھر میں کرفیو نافذ نہ کر رکھا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ مرزا کے مزاج سے ناواقفیت کی بنیاد پر عمران خان اِس وارفتگی کو اعزاز سمجھیں مگر ہم ایسی دیوانگی کو خود کش حملے کے زُمرے میں شمار کرتے ہیں۔ مرزا کبھی کبھی تو عمران خان کی کسی بات کو دُرست ثابت کرنے کے لیے پاگل پن کی حدود کو چُھونے لگتے ہیں۔ ہم نے جب بھی عمران خان کے کسی بیان پر بحث کے دوران اُنہیں غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، مرزا لنگوٹ کَس کر اپنے ممدوح کے دفاع کے لیے میدان میں نکل آئے ہیں اور الٹا مجھے غلط ثابت کرنے کے درپے ہوئے ہیں۔
ہم نے جب مرزا کو پاگل پن سے متعلق عمران خان کے بیان کے بارے میں بتایا تو وہ چند لمحات کے لیے چُپ ہو گئے۔ ہمیں حیرت ہوئی کیونکہ مرزا تو ہماری زبان سے عمران خان کا ذکر سُنتے ہی پھڑک اُٹھتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بھڑکنے لگتے ہیں۔ پھر آج کیا ہوا؟ آج کیوں چُپ سی لگ گئی ہے؟ اِس سے پہلے کہ ہم اِس خاموشی کا سبب دریافت کرتے، مرزا حواس میں واپس آئے اور بولے: ''میں خان صاحب کے بیان پر غور کر رہا تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اُنہوں نے ایسا بیان کیوں داغ مارا ہے؟ پاگل پن کا گراف بلند نہ ہو تو کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا۔ حد یہ ہے کہ اگر پاگلوں میں بھی پاگل پن کا گراف ٹھیک ٹھاک بلند نہ ہو تو اُنہیں پاگل خانے میں بھرتی نہیں کیا جاتا!‘‘
ہم نے عرض کیا کہ عمران خان کے بیان نے ہمیں اِس لیے حیرت میں مبتلا کیا ہے کہ وہ اب تھوڑے سے پاگل پن کو گلے لگانے کے مشورے سے نواز رہے ہیں جبکہ خود ساری زندگی بھرپور پاگل پن کی آغوش میں رہے ہیں۔ اپنے شعبے یعنی کرکٹ اور اُس کے بعد سیاست کے حوالے سے اُن کا پاگل پن دیکھ کر ہی تو اُن کے پرستار اُن پر مَر مِٹنے کے معاملے میں پاگل پن کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں انہوں نے کیا کارنامے سرانجام دیے‘ سب جانتے ہیں۔ اب خان صاحب نے نئے پاکستان کے لیے محض تھوڑے سے پاگل پن کو ضروری قرار دے کر اپنے چاہنے والوں اور پرستاروں کے جوش و جذبے کی وکٹ گِرا دی ہے!
ہماری معروضات سُن کر مرزا خاموش تو رہے مگر یوں سنبھل کر بیٹھ گئے جیسے ان کے چودہ طبق روشن ہو گئے ہوں۔ یہ شاید پہلا موقع تھا کہ ہماری کسی بات پر مرزا خاصی دیر تک چُپ رہے، بلکہ الفاظ ڈھونڈتے رہ گئے۔ ابھی ہم اپنی اس کامیابی پر اندر ہی اندر خوشی سے پُھولے نہیں سما رہے تھے کہ مرزا نے سنبھل کر بیٹھتے ہوئے نیا ''اسٹارٹ‘‘ لے لیا۔ تنک کر بولے: ''میں بہت سوچنے کے بعد اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عمران خان پاگل پن کا گراف نیچے لانا چاہتے ہیں۔ اور ایسا شاید اِس لیے ہے کہ اُنہوں نے پاگل پن کا نتیجہ دیکھ لیا ہے۔‘‘
ہم نے پوچھا خان صاحب نے کِس کا پاگل پن دیکھ لیا ہے؟ پرستاروں کا یا...
ہماری بات پُوری ہونے سے پہلے ہی مرزا نے پھٹ پڑنے کی تیاری شروع کر دی۔ نتھنے پُھلاتے ہوئے اُنہوں نے زبان کے ہتھیار سے حملہ کیا: ''سیدھی سی بات ہے، خان اوروں کے پاگل پن کی بات کر رہے ہیں۔ نئے پاکستان میں پاگل پن کی کچھ خاص گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ پُرانے یعنی موجودہ پاکستان میں خان صاحب پاگل پن کے جلووں کا جادوئی اثر دیکھ چکے ہیں۔ وہ بھلا کب چاہیں گے کہ جس پاگل پن نے ہر شعبے میں پُرانے پاکستان کی واٹ لگائی ہے وہی پاگل پن نئے پاکستان میں بھی انٹری دے!‘‘
ہم نے پوچھا: جب خان صاحب کے نزدیک پاگل پن کچھ خاص ضروری نہیں تو پھر اب تک وہ اپنے پرستاروں اور کارکنوں میں اِس وصف کو پروان چڑھانے پر اِس قدر توجہ کیوں دیتے رہے ہیں؟
مرزا تو جیسے ہمارے اِس سوال کا انتظار ہی کر رہے تھے۔ ہتّھے سے اُکھڑنے کا اشارا دیتے ہوئے مرزا نے خاصے بپھرے ہوئے لہجے میں کہا: ''لیڈر عمران خان ہیں یا تم؟ اب کیا تم طے کرو گے کہ اُنہیں کب کِتنے پاگل پن سے کام لینا چاہیے؟ اب تم بتائو گے کہ انہیں کس طرح سیاست کرنی ہے اور وہ کس طرح سیاست میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ جس طرح عقل ہمیں سِکھاتی ہے کہ ہر معاملے میں عقل سے کام لینا فائدہ مند نہیں ہوتا‘ بالکل اُسی طرح اپنے پرستاروں اور شیدائیوں کا بھرپور پاگل پن ہی تو لیڈر کو بتاتا ہے کہ نِرے پاگل پن میں کچھ نہیں رکھا! یہ بات خان صاحب نے بھی سمجھ لی ہے۔ تم جیسے قلم گھسیٹنے والے تو بس اُن کے خِرمن سے خوشہ چینی ہی کر سکتے ہیں۔ سچ ہی تو ہے، مُلّا کی دوڑ مسجد تک۔ جتنا ذہن ہے اُتنا ہی تو سوچو گے۔ ظاہر ہے اس سے اوپر کے معاملات تمہاری محدود سوچ میں آنے سے رہے!‘‘
ہم نے محسوس کر لیا کہ مرزا کے ذہن پر پاگل پن سوار ہوتا جا رہا ہے۔ وہ عمران خان کی طرف سے کم پاگل پن اپنانے کے مشورے کا دفاع کرتے کرتے خود جوش و جذبے کی منزل سے آگے بڑھ کر اب پاگل پن کے میدان میں قدم رکھ رہے تھے۔ ہمیں مرزا کا یہی پاگل پن تو پسند ہے۔ ایسی ہی کیفیت میں اُن کے ذہن کی پتیلی میں عجیب و غریب خیالات کی کھچڑی پکتی ہے اور زبان کے کفگیر سے وہ شاہکار نوالے یعنی لاجواب جُملے عطا کرتے ہیں!
ہمیں معلوم نہیں کہ بہتر زندگی کے لیے کتنا پاگل پن ضروری ہے اور کتنا غیر ضروری۔ نئے پاکستان میں عمران خان کی ہدایت یا مشورے کی روشنی میں اور کسی کے پاگل پن کی گنجائش ہو نہ ہو، مرزا کا پاگل پن برقرار رہنا چاہیے کہ ان کی باتیں لطف دیتی ہیں‘ زندگی میں نئے رنگ بھر دیتی ہیں۔ ہمارے اور اُن کے تعلقات کے میلے میں ساری رونق اُن کے پاگل پن ہی سے تو ہے!