بھارتی حکومت نے ‘2011ء میںدیگر ملکوں میں چھپائے گئے بھارتی شہریوں کے ڈالر‘ پونڈ اور یورو تلاش کرنے کی مہم میں جو کامیابی حاصل کی تھی‘ اب وہ نتائج کے حصول کے قریب پہنچ گئی ہے۔ میں تین چار سال پہلے‘ اپنے کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ اب ملٹی نیشنل کمپنیاں غیرملکی بنکوں میں جمع‘ کالے دھن کو اپنے لئے بوجھ سمجھنے لگی ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں کے حکمرانوں‘ حکمران طبقوں اور ٹیکس چور سرمایہ داروں‘ نے جتنی دولت چرا کر ‘ بیرونی بنکوں کے خفیہ کھاتوں میں جمع کر رکھی ہے‘ وہ اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ منجمد ہونے والی وہ دولت‘ عالمی معیشت کی ترقی کو متاثر کرنے لگی ہے۔ جو کالاپیسہ بنکوں کے کھاتوں میں منجمدہو کر رہ جاتا ہے‘ وہ گردش زر کے نظام سے نکل جاتا ہے اور اس طرح اکانومی کے دائرے میں نہیں رہتا اور جب دنیا کی فنانشل مارکیٹ میں‘ موجود متحرک سرمایہ خفیہ ہاتھوں میں جا کر منجمد ہو جاتا ہے‘ تو وہ عالمی معیشت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ خصوصاً ترقی پذیر ملک‘ جو انٹرنیشنل کمپنیوں کی عالمی کنزیومرمارکیٹ کا حصہ ہیں‘ وہاں کے عوام کی قوت خرید میں کمی آنے لگتی ہے۔ نتیجے میں جو کساد بازاری پیدا ہوتی ہے‘ وہ عالمی تجارت کی شرح ترقی میں گراوٹ لاتی ہے اور بعض حالات میں اسے منجمد کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے‘ کئی سال سے مالیاتی مارکیٹ کی خفیہ ایجنسیوں کو ذمہ داری دی تھی کہ وہ دنیا بھر کے بنکوں میں چھپائی گئی کالی دولت کا سراغ لگائیں تاکہ متعلقہ ملکوں پر دبائو ڈال کر ‘ ان کی حکومتوں سے کہا جائے کہ وہ اپنے ملکوں میں ایسے لوگوں اور اداروں سے بازپرس کرکے‘ پتہ چلائیں کہ ان کا کتنا روپیہ کالا اور غیرقانونی ہے اور کتنا جائز ہے؟ چند سال پہلے فرانس کی ایک خفیہ مالیاتی ایجنسی نے بعض ملکوں کے بنکوں میں چھپائے گئے کالے دھن کا سراغ لگا لیا۔ بھارت اور فرانس کے مابین‘ پہلے سے ہی معاہدہ موجود تھا‘ جس کے تحت طے پایا تھا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کا کالا دھن ڈھونڈنے کے معاملے میں باہمی تعاون کریں گے۔
فرانس نے ‘ بھارتی حکومت کو اس کی اطلاع دے دی۔ دونوں کے مابین مذاکرات ہوئے اور فرانس نے غالباً 2001ء میں‘ بھارتی شہریوںکے خفیہ اکائونٹس میں پڑے ہوئے سرمائے کی تفصیل‘ بھارتی وفد کو فراہم کر دی۔ ظاہر ہے‘ اپوزیشن کو بھی جو کہ بی جے پی تھی‘ اس کا پتہ لگ گیا اور اس نے شور مچانا شروع کر دیا کہ کانگریس خفیہ اکائونٹ رکھنے والے بھارتیوں کے نام عوام کے سامنے لائے اور یہ بتائے کہ کالا سرمایہ وصول کرنے کے لئے وہ کیا کر رہی ہے؟ اس پر سیاسی کشمکش شروع ہو گئی۔ ادھر کانگریس کی مخلوط حکومت میں صف اول کے لیڈر بھی‘ کالا دھن سمیٹنے میں مصروف تھے۔ انہوں نے کسی قانون اور ضابطے کی پروا نہیں کی۔ اپنے اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اربوں روپے کی کرپشن کی۔ جس پر بھارت کے منتخب ایوانوں اور میڈیا میں شور مچ گیا۔ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے مطالبات کئے جانے لگے کہ وہ بڑے بڑے مالیاتی سکینڈلز پر کارروائی کریں۔ متعدد کیس ان کے سامنے لائے گئے۔ لیکن مخلو ط حکومت کی مجبوریوں کی وجہ سے وہ موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہے۔ یہی وجہ تھی کہ بے جے پی نے اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود کہ منموہن سنگھ دیانتدار سیاستدان ہیں‘ انہیں ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا کہ ان کی ذاتی دیانتداری کا قوم کو کیا فائدہ؟ جب وہ اپنے دور اقتدار میں بڑے بڑے کرپٹ لوگوں کو پکڑنے میں ناکام رہے ہیں اور عوام کی خون پسینے کی کمائی کو لٹنے سے نہیں بچا رہے۔ کانگریس کی حکومت آخری دنوں میں متحرک بھی ہوئی۔ بہت سے کیسز تفتیشی ایجنسیوں کے سپرد کر کے‘ تحقیقات کرائی گئیں اور جہاں جہاں ثبوت مہیا ہوسکے‘ عدالتوں میں پیش کر دیئے گئے۔ جس پر کئی صوبائی اور یونین کے وزیروں کو سزائیں بھی ہوئی۔ بعض جیلوں میں بھی گئے۔ جس کی تازہ ترین مثال کرناٹک کی مدتوں برسراقتدار رہنے والی وزیراعلیٰ‘ جے للیتا کا مقدمہ تھا‘ جو کئی سال تک چلتا رہا اور اب بی جے پی کے زمانے میں انہیں سزائے قید بھی سنا دی گئی۔ اب وہ جیل سے ضمانت پر رہا ہو کر‘ گھر واپس آ گئی ہیں۔ لالو پرشاد یادو کے مشہور مقدمے کا فیصلہ بھی کانگریس کے زمانے میں ہوا۔ وہ جیل بھی گئے۔ اب ضمانت پر رہا ہیں۔ البتہ الیکشن لڑنے کے نااہل ہو چکے ہیں۔ کوئلے کی بڑی بڑی کانوں کے ٹھیکے منسوخ کر کے‘ مقدمے چلائے گئے۔ غرض احتساب کا پہیہ کافی تیزی سے چلنے لگا۔ کانگریسی قیادت ‘اپنے اس کارنامے کا فائدہ نہ اٹھا سکی۔ کالے دھن کے ثبوت‘ کانگریس نے مہیا کئے۔ سرمایہ کانگریس نے ڈھونڈا۔ مقدمات کانگریس نے قائم کئے۔ مگر اس کا فائدہ بی جے پی اٹھاتی رہی۔ نریندر مودی نے‘ انتخابی مہم کے دوران دعویٰ کر ڈالا کہ وہ 100دنوں کے اندر اندر کالادھن واپس لا کر‘ سرکاری خزانے میں جمع کرا دیں گے۔
اب انہیں اقتدار میں آئے 100دنوں سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ کانگریسی پوچھ رہے ہیں کہ بتائیں کالا دھن کہاں ہے؟ اندرون اور بیرون ملک‘ ٹیکس چوری سے ‘چھپائی گئی بھاری رقوم کا سراغ لگایا جا چکا ہے۔ ان کے مقدمات بھی تیار ہیں۔لیکن بی جے پی نے انتخابی مہم کے لئے سرمایہ داروں سے بھاری رقوم لے کرکامیابی حاصل کی تھی۔ ان میں بہت سے فنڈز مہیا کرنے والے سرمایہ دار بھی شامل ہیں۔ یہ بات کانگریس کو بھی معلوم ہے۔ اب وہ مطالبہ کر رہی ہے کہ مودی حکومت ‘ ان سرمایہ داروں پر مقدمے کیوں نہیں چلا رہی؟ جن کے خلاف ثبوت مہیا ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے‘ بی جے پی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ سپریم کورٹ نے کچھ عرصہ پہلے ایک تحقیقاتی ایجنسی قائم کرنے کا حکم دیا تھاکہ وہ مقدمات تیار کر کے‘ عدالتوں میں پیش کرے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت تحقیقاتی ایجنسی قائم ہو گئی۔ لیکن اس کی کوئی کارکردگی سامنے نہیں آئی۔ دودن پہلے یہ کیس سپریم کورٹ میں پھر لگا‘ تو جج صاحبان نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت ٹیکس چوروں اور کرپشن کرنے والوں پر ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتی۔ ان کی سرپرستی کر رہی ہے۔ ان کے نام سامنے نہیں لائے جا رہے اور حکومت کو حکم دیا گیا کہ جتنے بھی کیس اس کے پاس ہیں‘ وہ 24گھنٹے کے اندر اندر‘ سپریم کورٹ کے سپرد کر دے۔ اب وہ فیصلہ کرے گی کہ کون کون سے نام عوام کے سامنے لائے جائیں؟ اور ان کے خلاف مقدمات تیار کر کے عدالتوں میں کارروائی کے لئے پیش کر دیئے جائیں۔ اگلے ہی روز صبح 10 بجے سے پہلے حکومت نے وہ پوری فہرست سیل بند لفافے میں‘ سپریم کورٹ کے حوالے کر دی۔ سپریم کورٹ یہ کیس خفیہ تفتیشی ایجنسی کے سپرد کرنے جا رہی ہے اور اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ اگلے سال مارچ تک‘ تحقیقات کے بعد جتنے زیادہ مقدمات تیار کر سکے‘ وہ عدالتوں کے سامنے لائے جائیں اور باقی کے بارے میں بتایا جائے کہ ان کی انکوائری کہاں پہنچی ہے؟ دنیا میں شاید ایک دو ملک ہی ایسے ہیں‘ جنہوں نے ابھی تک کالے دھن کا سراغ لگا کر‘ ان کے مالکان پر مقدمات عدالتوں میں پیش کر دیئے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھارت نے شروع کر دیا ہے۔ بہت جلد ٹیکس چوروں اور ناجائز دولت ‘ دوسرے ملکوں میں سمگل کرنے والوں کا احتساب شروع ہو جائے گا۔ امریکہ نے بھی اپنے شہریوں کے ناجائز سرمائے کا سراغ لگا رکھا ہے۔ دسمبر میں وہ بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع کر رہا ہے اور جو اطلاعات بھارتی شہریوں کے بارے میں امریکہ کو حاصل ہوئی ہیں‘ وہ بھارت کے سپرد کرنے کا معاہدہ ہو جائے گا۔ جواب میں بھارت جو کچھ ہو سکا‘ اپنی طرف سے کرے گا۔ یہ ایک طرح سے تبادلہ معلومات کا معاہدہ ہو گا۔ پاکستان ابھی تک غالباً کسی ملک کے ساتھ ‘بھی خفیہ دولت کا سراغ لگانے کے لئے معاہدہ نہیں کر سکا۔ اگر کوئی ایسا معاہدہ موجود ہے‘ تو مجھے اس کے تحت حاصل ہونے والی معلومات کا علم نہیں اور نہ ہی مجھے یہ پتہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے قومی دولت چرانے والوں کے خلاف کوئی کیس بنایا ہے یا نہیں؟ لیکن پاکستان میں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ جتنے لوگوں پر شبہ ہے کہ انہوں نے کرپشن یا ٹیکس چوری کا پیسہ باہر چھپایا ہوا ہے‘ وہی حکومتیں چلا رہے ہیں۔ انہیںکون پکڑے گا؟ پاکستان میں عدلیہ نے وکلا اور عوام کی قربانیوں کے نتیجے میں‘ آزادی و خودمختاری حاصل کی ہے۔ اس کے سامنے قابل اصلاح معاملات کے ڈھیر لگے ہیں۔ ابھی تک یہی فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ ابتدا کہاں سے کی جائے؟ لیکن عدالت عظمیٰ اپنا راستہ اختیار کر چکی ہے۔ بہت جلد ہمیں بڑے بڑے قومی معاملات پر عدلیہ کے جراتمندانہ فیصلے پڑھنے کو ملیں گے اور عوام بھی اب کافی بیدار اور باشعور ہو چکے ہیں۔ وہ بھی پوچھنے لگے ہیں کہ ہمارے لیڈروں کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی؟ رہی سہی کسر گیس اور بجلی کے بلوں میں ڈاکہ زنی کرنے والوں نے نکال دی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ عوام کی یہ باخبری اور بے چینی‘ انتخابی دھاندلی سے قائم شدہ حکومتوں کے لئے‘ مزید کتنی قوت برداشت رکھتی ہے؟لیکن وہ وقت‘ دور نہیں‘ جب عوام بھی حکمرانوں کو منتخب کرتے وقت ان کی دیانتداری اور کردار کی اچھی طرح جانچ پرکھ کیا کریں گے۔ میڈیا کے ایک بڑے حصے نے بے باکانہ احتساب شروع کر رکھا ہے۔ یہی وہ شعبہ ہے‘ جس میں ضمیروں کی بیداری کا عمل تیزرفتاری سے ہو رہا ہے۔ بھارت کے گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کا نعرہ تھا ''اچھے دن آئیں گے۔‘‘ میں بھی امید کر رہا ہوں کہ انشاء اللہ پاکستان میں بھی ''اچھے دن آئیں گے۔‘‘